اَلنَّبْتُ وَالنَّبَاتُ: ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے۔ اسے نَبْتٌ یَا نَبَاتٌ کہا جاتا ہے۔ خواہ وہ تنہ دار ہو جیسے درخت۔ یا بے تنہ جیسے جڑی بوٹیاں لیکن عرف میں خاص کر نبات اسے کہتے ہیں جس کے تنہ نہ ہو۔ بلکہ عوام تو جانوروں کے چارہ پر ہی نبات کا لفظ بولتے ہیں۔ چنانچہ آیت کریمہ: (لنخرج بہ حبا ونباتا) (۷۸:۱۵) تاکہ اس سے اناج اور سبزہ پیدا کریں۔ میں نبات سے مراد چارہ ہی ہے۔ لیکن یہ اپنے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر بڑھنے والی چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے۔ اور نباتات، حیوانات اور انسان سب پر بولا جاتا ہے۔ اور اِنْبَاتٌ (افعال) کا لفظ ان سب چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (فَاَنۡۢبَتۡنَا فِیۡہَا حَبًّا وَّ عِنَبًا وَّ قَضۡبًا وَّ زَیۡتُوۡنًا وَّ نَخۡلًا وَّ حَدَآئِقَ غُلۡبًا وَّ فَاکِہَۃً وَّ اَبًّا) (۸۰:۲۷ تا ۳۱) پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا۔ اور انگور اور ترکاری۔ اور زیتون او رکھجوریں، اور گھنے گھنے باغ اور میوے اور اچرہ۔ (فَاَنۡۢبَتۡنَا بِہٖ حَدَآئِقَ ذَاتَ بَہۡجَۃٍ ۚ مَا کَانَ لَکُمۡ اَنۡ تُنۡۢبِتُوۡا شَجَرَہَا) (۲۷:۶۰) (ہم نے) پھر اس سے سرسبز باغ اگائے تمہارا کام تو نہ تھا۔ کہ تم ان کے درختوں کو اگاتے۔ (یُنۡۢبِتُ لَکُمۡ بِہِ الزَّرۡعَ وَ الزَّیۡتُوۡنَ ) (۱۶:۱۱) اسی پانی سے وہ تمہارے کھیتی اور زیتون اگاتا ہے۔ اور آیت کریمہ: (وَ اللّٰہُ اَنۡۢبَتَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ نَبَاتًا) (۷۱:۱۷) اور خدا ہی نے تم کو زمین سے پیدا کیا۔ کی تفسیر میں علمائے نحو نے لکھا ہے کہ یہاں نَبَاتًا مصدر من غیربَا بِہٖ ہے اور اِنْبَاتًا کی جگہ پر استعمال ہوا ہے۔(1) دوسرے علماء کے نزدیک نَبَاتًا حال ہے۔ مصدر نہیں ہے۔ اور اس سے متنبہ کیا ہے کہ انسان بھی ایک طرح سے نبات میں داخل ہے کیونکہ اس کی ابتدائی نشأت بھی تراب ہی سے ہے۔ اور پھر وہ نبات ہی کی طرح بڑھتا ہے اگرچہ اس میں نبات سے کچھ زائد اوصاف پائے جاتے ہیں۔ چانچہ اسی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: (ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ) (۴۰:۶۷) وہی تو ہے جس نے تم کو پہلے مٹی سے پیدا پھر نطفہ بناکر۔ اور آیت کریمہ: (وَّ اَنۡۢبَتَہَا نَبَاتًا حَسَنًا) (۳:۳۷) اور اسے اچھی طرح پرورش کیا۔ بھی اس معنی پر محمول ہے۔ اور آیت کریمہ: (تَنۡۢبُتُ بِالدُّہۡنِ) (۲۳:۲۰) (یعنی زیتون کا درخت کہ) روغن … لیے ہوئے اگتا ہے۔ میں باء تعدیۃ کے لیے نہیں کیونکہ نَبَتَ: خود فعل متعدی ہے۔ بلکہ حال کے لیے ہے۔ اور تقدیر یہ ہے تَنْبُتُ حَامِلَۃً لِّلدُّھْنِ: یعنی وہ درخت اس حال میں اگتا ہے کہ روغن اس میں بالقوۃ موجود ہوتا ہے۔ مشہور محاورہ ہے: اِنَّ بَنِیْ فُلَانٍ لَنَا بِتَۃُ شَرِّ کہ فلاں لوگ فساد کی جڑ ہیں۔ نَبَتَتْ فِیْھِمْ نَاَبِتَۃٗ: یعنی ان کی نئی پود جوان ہوگئی۔
Words | Surah_No | Verse_No |
اَنْۢبَتَتْ | سورة البقرة(2) | 261 |
اَنْۢبَتَكُمْ | سورة نوح(71) | 17 |
اَنْۢبَـتْنَا | سورة الشعراء(26) | 7 |
تَنْۢبُتُ | سورة المؤمنون(23) | 20 |
تُنْۢبِتُ | سورة البقرة(2) | 61 |
تُنْۢبِتُ | سورة يس(36) | 36 |
تُنْۢبِتُوْا | سورة النمل(27) | 60 |
فَاَنْۢبَتْنَا | سورة النمل(27) | 60 |
فَاَنْۢبَتْنَا | سورة لقمان(31) | 10 |
فَاَنْۢبَتْنَا | سورة ق(50) | 9 |
فَاَنْۢبَتْنَا | سورة عبس(80) | 27 |
نَبَاتًا | سورة آل عمران(3) | 37 |
نَبَاتًا | سورة نوح(71) | 17 |
نَبَاتَ | سورة الأنعام(6) | 99 |
نَبَاتُ | سورة يونس(10) | 24 |
نَبَاتُ | سورة الكهف(18) | 45 |
نَبَاتُهٗ | سورة الأعراف(7) | 58 |
نَبَاتُهٗ | سورة الحديد(57) | 20 |
نَّبَاتٍ | سورة طه(20) | 53 |
وَاَنْۢبَتَتْ | سورة الحج(22) | 5 |
وَاَنْۢبَتْنَا | سورة الحجر(15) | 19 |
وَاَنْۢبَتْنَا | سورة الصافات(37) | 146 |
وَاَنْۢبَتْنَا | سورة ق(50) | 7 |
وَّاَنْۢبَتَهَا | سورة آل عمران(3) | 37 |
وَّنَبَاتًا | سورة النبأ(78) | 15 |
يُنْۢبِتُ | سورة النحل(16) | 11 |