Blog
Books
Search Hadith

میت کو ڈھانپنے اور اسے بوسہ دینے کا بیان

352 Hadiths Found
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک دھاری دار یمنی چادر سے ڈھانپ دیا گیا۔

Haidth Number: 3042
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ سیّدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے پاس تشریف لائے اور سیدھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف گئے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دھاری دار یمنی چادر میں لپٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرہ مبارک سے کپڑا ہٹایا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر جھکے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بوسہ دیا اور رو پڑے۔ پھر کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ پر کبھی بھی دوموتیں جمع نہیں کرے گا،جو موت آپ پر لکھی گئی تھی وہ آپ فوت ہو چکے ہیں۔

Haidth Number: 3043
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیّدنا عثمان بن مظعون ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بوسہ دیا، جبکہ وہ میت تھے، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے آنسو ان کے چہرے پر بہنے لگے۔

Haidth Number: 3044
(دوسری سند)میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیّدنا عثمان بن مظعون ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بوسہ دیا، جب کہ وہ میت تھے، میں نے دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے آنسو عثمان کے رخساروں پر بہہ رہے تھے۔ عبد الرحمن نے کہا: اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آنکھیں بہہ رہی تھیں، یا کہا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رو رہے تھے۔

Haidth Number: 3045
ابو غالب کہتے ہیں کہ سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس مرد کا جنازہ لایا گا، پس وہ چارپائی (یعنی میت) کے سر کے پاس کھڑے ہوئے، پھر جب عورت کا جنازہ لایا گیا تو وہ اس سے نیچے چارپائی کے برابر کھڑے ہوئے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو علاء بن زیاد نے ان سے کہا: اے ابو حمزہ! کیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی مرد اور عورت کے جنازہ میں اسی طرح کھڑے ہوا کرتے تھے، جس طرح میں نے آپ کو دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، پھر علاء بن زیاد ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہا: یہ مسئلہ یاد کر لو۔

Haidth Number: 3187
سیّدناسمرہ بن جندب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ام فلاں(یعنی سیدہ ام کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ) ، جو نفاس کی حالت میں فوت ہوئی تھیں، کی نماز جنازہ پڑھی اور اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے۔

Haidth Number: 3188
سیّدناانس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیّدنا ابوطلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیٹا فوت ہو گیا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی،سیّدناابوطلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، ان کے پیچھے کھڑی ہوگئیں، وہ مرغ کی کلغی کی طرح لگ رہے تھے، سیّدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی۔

Haidth Number: 3189
۔ سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ایک بدو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے ایسے عمل کی تعلیم دیں کہ جس کی بدولت میں جنت میں چلا جائوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے بات تو مختصر کی ہے، لیکن بہت بڑی بات پوچھی ہے، بہرحال کسی غلام کو مکمل آزاد کر یا کسی کو آزاد کرنے میں حصہ ڈال۔ اس نے کہا: کیایہ دونوں کام ایک ہی نہیں ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی نہیں، عِتْقُ النَسَمَہ یہ ہے کہ تم اکیلے کسی کو آزاد کرو اور فَکُّ الرَّقَبَہ یہ ہے کہ تم کسی غلام کی آزادی میں حصہ ڈال دو، (بقیہ نیک اعمال یہ ہیں کہ) تم دودھ والا جانور عاریۃً کسی کو دے دو اور اپنے رشتہ دار، خواہ وہ ظالم ہی ہو، کے ساتھ صلہ رحمی کرو، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو کسی بھوکے کو کھانا کھلایا کرو، پیاسے کو پانی پلایا کرو، نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو،ا گر ان امور کی طاقت بھی نہ ہو تو اپنی زبان کو خیر والے امور کے علاوہ (باقی کاموں سے) روک لو۔

Haidth Number: 3470
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تین آدمیوں کی مدد کرنا اللہ پر حق ہے:(۱)اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا، (۲) پاکدامنی کے مقصد سے نکاح کرنے والا اور (۳) وہ مکاتَب غلام جو اپنی ادائیگی کا ارادہ رکھتا ہو۔

Haidth Number: 3471
۔ سیدناعبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور فرمایا: یہ مہینہ (۲۹) دن کا پورا ہوچکا ہے۔

Haidth Number: 3699
۔ سعید کہتے ہیں: کسی نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے کہا: اے ام المومنین! اس ماہ کا چاند تو (۲۹) تاریخ کو نظر آ گیا ہے۔ انہوں نے کہا: تمہیں اس پر تعجب کیوں ہو رہا ہے؟ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ جو روزے رکھے، ان میں (۳۰) ایام کی بہ نسبت (۲۹) دن والے رمضان کے مہینے زیادہ تھے۔

Haidth Number: 3700
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ جو روزے رکھے، ان میں (۳۰) دنوں کی بہ نسبت (۲۹) ایام والے رمضان کے مہینے زیادہ تھے۔

Haidth Number: 3701
۔ سیدنا ابو بکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دو مہینے ناقص نہیں ہوتے، ان میں سے ہر ایک میں عید ہوتی ہے، وہ رمضان اور ذوالحجہ ہیں۔

Haidth Number: 3702
۔ معدان بن ابی طلحہ کہتے ہیں:سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قے کی اور اس طرح روزہ افطار کر دیا۔ اس کے بعد میں دمشق کی جامع مسجد میں مولائے رسول سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ملا اور ان سے کہا: ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو قے آگئی تھی،اس طرح آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے روزہ افطار کر دیا تھا۔ انھوں نے کہا: جی، انہوں نے درست کہا، پھر میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے وضو کا پانی بہایا تھا۔

Haidth Number: 3762
۔ (دوسری سند) سیدنا ابوالدرداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے از خود قے کی تھی، اس طرح آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے روزہ افطار کر لیا، اس کے بعدپانی لایا گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وضو کیا۔

Haidth Number: 3763
۔ سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس روزے دار پر قے غالب آ جائے تو اس پر کوئی قضائی نہیں، لیکن جو از خود قے کرے تو وہ روزے کی قضائی دے۔

Haidth Number: 3764
۔ سیدنافضالہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے ہاں ایک ایسے دن میں تشریف لائے، جس کا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم روزہ رکھا کرتے تھے، لیکن ہوا یوں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پانی والا برتن منگوا یا اور پانی پی لیا۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ تو اس دن کا روزہ رکھا کرتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، لیکن میں نے قے کر دی تھی۔

Haidth Number: 3765
۔ ابو شیبہ مہری، جوقسطنینیہ میں لوگوں کے واعظ (معتبر قصہ گو) تھے، کہتے ہیں: کسی نے سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا : آپ ہمیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کوئی حدیث بیان کریں، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قے کی اور اس طرح روزہ افطار کر دیا۔

Haidth Number: 3766
۔ ام عمرو کہتی ہیں: ہم منیٰ میں تھے، اچانک سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ یہ کھانے پینے کے دن ہیں، لہذا کوئی آدمی ان دنوں کا روزہ نہ رکھے۔ وہ اونٹ پر سوار تھے، لوگوں کو اپنے پیچھے لگا رکھا تھا اور بآواز بلند یہاعلان کرتے جا رہے تھے۔

Haidth Number: 3860
۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: منیٰ کے دنوں میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یہ اعلان کرنے کا حکم دیایا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سعد! اٹھو اور منی میں یہ اعلان کرو کہ یہ کھانے کے پینے کے دن ہیں، اس لیے ان دنوں میں کوئی روزہ نہیںہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مراد ایام تشریق تھے۔

Haidth Number: 3861
۔ ابو شعثاء کہتے ہیں: ہم ایام تشریق کے درمیانی دن کو سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئے، اتنے میں کھانا لایا گیا اور لوگ کھانے کے قریب ہوئے، لیکن ان کا ایک بیٹا ذرا دور ہو گیا، سیدناعبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس سے کہا: قریب ہو کر کھانا کھاؤ۔ لیکن اس نے کہا: میں تو روزے سے ہوں۔ یہ سن کر سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ کھانے پینے اور ذکر کے دن ہیں۔

Haidth Number: 3862
۔ سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((عرفہ کا دن، قربانی کا دن اور ایامِ تشریق ہم اہل اسلام کی عید ہیں اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔

Haidth Number: 3863
۔ سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بھیجا کہ وہ منی میں گھوم پھر کر یہ اعلان کریں کہ لوگو! ان دنوں کا روزہ نہ رکھو، کیونکہیہ کھانے پینے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے دن ہیں۔

Haidth Number: 3864
۔ ایک صحابی رسول کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عبداللہ بن حذافہ سہمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حکم دیا کہ وہ منی والے دنوں میں اپنی سواری پر سوار ہو کر بآواز بلند یہ اعلان کریں کہ کوئی آدمی بھی ان دنوں میں روزہ نہ رکھے کیونکہیہ کھانے پینے کے دن ہیں۔ پھر میں نے ان کو دیکھا کہ وہ سواری پر سوار ہو کر یہ اعلان کر رہے تھے۔

Haidth Number: 3865
۔ مولائے ام ہانی ابو مُرّہ کہتے ہیں: میں سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہمراہ ان کے والد سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں گئے، انہوں نے ان کی خدمت میں کھانا پیش کیا اور کہا: کھائو۔ اس نے کہا: میں تو روزے سے ہوں۔ سیدناعمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کھاؤ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں ان دنوں میںافطار کرنے کا حکم دیا ور ان کا روزہ رکھنے سے منع کر دیا۔ امام مالک امام مالک نے کہا: یہ ایامِ تشریق تھے۔

Haidth Number: 3866
Haidth Number: 3867
۔ سیدنایونس بن شداد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایام تشریق میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔

Haidth Number: 3868
۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے روزے والے دوسرے دنوں کی بہ نسبت ہفتہ اور اتوار کا بکثرت روزہ رکھتے تھے، نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا: یہ مشرکوںیعنییہود و نصاریٰ کی عیدوں کے دن ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ ان کی مخالفت کروں۔

Haidth Number: 3968

۔ (۴۱۳۷) عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِی أَبِی ثَنَا سُرَیْجٌ وَیُوْنُسُ قَالَا ثَنَا حَمَّاٌد یَعْنِی ابْنَ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِی عَاصِمٍ الْغَنَوِیِّ عَنْ أَبِی طُفَیْلِ، قَالَ: قُلْتُ لِأبْنِ عَبَّاسٍ: یَزْعُمُ قَوْمُکَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَمَلَ بِالْبَیْتِ، وَأَنَّ ذَالِکَ سُنَّۃٌ، قَالَ: صَدَقُوْا وَکَذَبُوْا، قُلْتُ: وَمَا صَدَقُوْا وَکَذَبُوْا؟ قَالَ: صَدَقُوْا، رَمَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْبَیْتِ، وَکَذَبُوْا ، لَیْسَ بِسُنَّۃٍ، إِنَّ قُرَیْشَاً قَالَتْ زَمَنَ الْحُدَیْبَیِۃ: دَعُوْا مُحَمَّدً وَأَصْحَابَہُ حَتّٰییَمُوْتُوْا مَوْتَ النَّغَفِ، فَلَمَّا صَالَحُوہُ عَلٰی أَنْ یَقْدَمُوْا مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ وَیُقِیْمُوْا بِمَکَّۃَ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ، فَقَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالْمُشْرِکُوْنَ مِنْ قِبَلِ قُعَیْقِعَانَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِأَصْحَابِہِ: اُرْمُلُوْا بِالْبَیْتِ ثَلَاثًا۔)) وَلَیْسَ بِسُنَّۃٍ۔ قُلْتُ: وَیَزْعُمُ قَوْمُکَ أَنَّہُ طَافَ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ عَلٰی بَعِیْرٍ وَأَنَّ ذَالِکَ سُنَّۃٌ، فَقَالَ: صَدَقُوْا وَکَذَبُوْا، فَقُلْتُ: وَمَا صَدَقُوْا وَکَذَبُوْا؟ فَقَالَ: صَدَقُوْا قَدْ طَافَ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ عَلٰی بَعِیْرٍ، وَکَذَبُوْا لَیْسَتْ بِسُنَّۃٍ، کَانَ النَّاسُ لَا یُدْفَعُوْنَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَا یُصْرَفُوْنَ عَنْہُ، فَطَافَ عَلَی بَعِیْرٍ لِیَسْمَعُوْا کَلَامَہُ وَلَا تَنَالُہُ أَیْدِیْہِمْ، قُلْتُ: وَیَزْعُمُ قَوْمُکَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَعٰی بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃ َوَأَنَّ ذَالِکَ سُنَّۃٌ، قَالَ: صَدَقُوْا، إِنَّ إِبْرَہِیْمَ لَمَا أُمِرَ بِالْمَنَاسِکِ عَرَضَ لَہُ الشَّیْطَانُ عِنْدَ المَسْعٰی فَسَابَقَہُ فَسَبَقَہُ إِبْرَاہِیْمُ، ثُمَّ ذَہَبَ بِہِ جِبْرِیْلُ إِلٰی جَمْرَۃِ الْعَقَبَۃِ فَعَرَضَ لَہُ شَیْطَانٌ (وَفِی لَفْظٍ الشَّیْطَانُ) فَرَمَاہُ بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ حَتَّی ذَہَبَ، ثُمَّ عَرَضَ لَہُ عِنْدَ الْجَمْرَۃِ الْوَسْطٰی فَرَمَاہُ بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ، قَالَ: قَدْ تَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ(وَفِیْ لَفْظٍ وَثَمَّ تَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ) وَعَلٰی إِسْمَاعِیْلَ قَمِیْصٌ أَبْیَضُ، وَقَالَ: یَا أَبَتِ إِنَّہُ لَیْسَ لِی ثََوْبٌ تُکَفِّنُنِی فِیْہِ غَیْرَہُ فَاخْلَعْہُ حَتّٰی تُکَفِّنَنِیْ فِیْہِ، فَعَالَجَہُ لِیَخْلَعَہُ فَنُوْدِیَ مِنْ خَلْفِہِ أَنْ یَا إِبْرَاہِیْمْ! قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا فَالْتَفَتَ إِبْرَاہِیْمُ فَإِذَا ہُوَ بِکَبْشٍ أَبْیَضَ أَقْرَنَ أَعْیَنَ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَقَدْ رَأَیْتُنَا نَتَّبَّعُ ہٰذَا الضَّرْبَ مِنَ الْکِبَاشِ، (قَالَ) ثُمَّ ذَہَبَ بِہِ جِبْرِیْلُ إِلَی الْجَمْرَۃِ الْقُصْوٰی، فَعَرَضَ لَہُ الشَّیْطَانُ فَرَمَاہُ بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ حَتّٰی ذَہَبَ، ثُمَّ ذَہَبَ بِہِ جِبْرِیْلُ إِلٰی مِنًی قَالَ: ہٰذَا مِنًی (وَفِیْ لَفْظٍ: ہَذَا مُنَاخُ النَّاسِ) ثُمَّ أَتٰی بِہِ جَمْعًا، فَقَالَ: ہٰذَا الْمَشْعَرُ الْحَرَامُ، ثُمَّ ذَہَبَ بِہِ إِلٰی عَرَفَۃَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ہَلْ تَدْرِی لِمَ سُمِّیَتْ عَرَفَۃُ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: إِنَّ جِبْرِیْلَ قَالَ لإِبْرَاہِیْمَ: عَرَفْتَ، (وَفِیْ لَفْظٍ: ہَلْ عَرَفْتَ)؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَمِنْ ثَمَّ سُمِّیَتْ عَرَفَۃَ، ثُمَّ قَالَ: ہَلْ تَدْرِیْ کَیْفَ کَانَتِ التَّلْبِیَۃُ؟ قُلْتُ: وَکَیْفَ کَانَتْ؟ قَالَ: إِنَّ إِبْرَاہِیْمَ لَمَا أُمِرَ أَنْ یُؤَذِّنَ فِیْ النَّاسِ بِالْحَجِّ خَفَضَتْ لَہُ الْجِبَالُ رُئُ ْوسَہَا وَرُفِعَتْ لَہُ الْقُرٰی فَأَذَّنَ فِیْ النَّاسِ بِالْحَجِّ۔ (مسند احمد: ۲۷۰۷)

۔ ابوطفیل کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: ٓپ کی قوم کا خیال ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیت اللہ کا طواف کرتے وقت رمل کیا تھا، لہٰذا یہ عمل سنت ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ان کییہ بات کسی حد تک درست بھی اور کسی حد تک غلط بھی، میں نے کہا: اس کا کیا مطلب کہ درست بھی ہے اور غلط بھی؟ انھوں نے کہا:ان کییہ بات تو درست ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیت اللہ کا طواف کرتے وقت رمل کیا تھا، البتہ اس عمل کو سنت کہنا درست نہیں،یہ عمل سنت نہیں ہے، اس کی تفصیلیہ ہے کہ قریشیوں نے (توہین کرتے ہوئے) حدیبیہ کے دنوں میں کہا تھا: محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم )اور ان کے دوستوں کو چھوڑ دو یہاں تک کہیہ لوگ اپنی موت آپ مر جائیں، جب قریش کا آپ سے اس بات پر معاہدہ ہو گیا کہ مسلمان آئندہ سال آ کر مکہ میں تین دن قیام کر سکیں گے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے، مشرکینِ مکہ قعیقان پہاڑ کی جانب تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ سے فرمایا: بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے تین چکروں میں رمل کرو۔ لہٰذا یہ عمل سنت نہیں ہے۔ ابو طفیل کہتے ہیں: میں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قوم کا خیال ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صفا و مروہ کے درمیان سعی اونٹ پر کی تھی اور یہ عمل سنت ہے، سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ان کییہ بات بھی کچھ صحیح اور کچھ غلط ہے۔ ان کا یہ کہنا تو درست ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صفا و مروہ کی سعی اونٹ پر کی تھی، لیکن ان کا یہ کہنا غلط ہے کہ یہ عمل سنت ہے، اصل بات یہ ہے کہ لوگ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے آگے پیچھے سے ہٹائے نہیں جاتے تھے، (اور وہ خود بھی آپ سے الگ اور دور نہیں ہوتے تھے) اس لئے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اونٹ پر سعی کی تھی، تاکہ لوگوں کے ہاتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک نہ پہنچ سکیں اور وہ آسانی سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات بھی سن لیں۔ ابوطفیل کہتے ہیں: میں نے کہا: آپ کی قوم کا خیال ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صفا و مروہ کے مابین دوڑے تھے اور یہ عمل سنت ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ان کییہ بات درست ہے، جب ابراہیم علیہ السلام کو مناسک حج ادا کرنے کا حکم ہوا تو سعی کے موقعہ پر شیطان ان کے سامنے آ گیا اور آگے نکل گیا، لیکن پھر ابراہیم علیہ السلام دوڑ کر اس سے آگے نکل گئے، اس کے بعد جبریل علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام کو جمرۂ عقبہ کے پاس لے گیا،وہاں شیطان ان کے سامنے آیاتو انھوںنے اسے سات کنکر مارے، سو وہ چلا گیا، پھرجب جمرۂ وسطیٰ کے قریب ان کے سامنے آیا تو انہوں نے دوبارہ اسے سات کنکر مارے، اس موقعہ پر ابراہیم علیہ السلام نے اسمٰعیل علیہ السلام کو ان کے پہلو کے بل لٹایا، وہ سفید قمیض پہنے ہوئے تھے، انہوں نے کہا: ابا جان! اس قمیض کے علاوہ میرا کوئیکپڑا ایسا نہیں جس میں آپ مجھے کفن دے سکیں گے، اس لیے اس قمیض کو اتار لیجئے تاکہ آپ مجھے اس میں کفن دے سکیں، جب ابراہیم، اسمٰعیلm کی قمیض اتارنے لگے تو ان کے پیچھے سے یہ آواز آئی: ابراہیم! آپ نے خواب سچا کر دکھایا ہے۔ جب ابراہیم علیہ السلام نے مڑ کر ادھر دیکھا تو وہاں ایک سفید سینگ دار خوبصورت فراخ چشم مینڈھا موجود تھا۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:ہم قربانی کے لئے اسی قسم کے مینڈھے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے بعد جبریل، ابراہیمm کو جمرۂ قصویٰ کی طرف لے گئے، وہاں شیطان ایک مرتبہ پھر سامنے آیا، ابراہیم علیہ السلام نے اسے سات کنکر مارے، سووہ بھاگ گیا، اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام کو جبریل علیہ السلام منیٰ کی طرف لے گئے اور بتلایا کہ یہ منیٰ ہے، دوسری روایت میں ہے: انہوں نے بتلایاکہیہ لوگوں کی قیام گاہ ہے، اس کے بعد جبریل، ابراہیمm کو مزدلفہ میں لے گئے اور بتلایا کہ یہ مشعرِ حرام ہے، اس کے بعد وہ انہیں عرفہ میں لے گئے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس نے پوچھا: جانتے ہو کہ عرفہ کی وجۂ تسمیہ کیا ہے؟ میں نے کہا: جی نہیں۔ انھوں نے کہا: جب جبریل، ابراہیمm کو یہاں لے آئے تو ان سے پوچھا: کیا آپ یہ سب امور جان گئے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ اس وجہ سے اس وادی کا نام عرفہ رکھا گیا۔اس کے بعد سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پوچھا: تم جانتے ہو کہ تلبیہ کی ابتدا کیسے ہوئی؟ میں نے کہا: جی کیسے ہوئی؟ انھوں نے کہا: جب ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا کہ وہ لوگوں میں حج کا اعلان کریں تو ان کی آواز پر پہاڑوں نے سر جھکا دیئے اور تمام آبادیاں بلند کر دی گئیں تب انہوںنے لوگوں میں حج کا اعلان کیا۔

Haidth Number: 4137

۔ (۴۲۱۶) عَـنْ عُـرْوَۃَ عَنْ عَـائـِشـَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَامَ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ فَأَہْلَلْتُ بِعُمْرَۃٍ وَلَمْ أَکُنْ سُقْتُ الْہَدْیَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ کَانَ مَعَہُ الْہَدْیُ فَلْیُہِلَّ بِالْحَجِّ مَعَ عُمْرَتِہِ، ثُمَّ لَا یَحِلُّ حَتَّییَحِلَّ مِنْہُمَا جَمِیْعًا۔)) فَحِضْتُ، فَلَمَّا دَخَلَتْ لَیْلَۃُ عَرَفَۃَ قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنِّی کُنْتُ أَہْلَلْتُ بِعُمْرَۃٍ فَکَیْفَ أَصْنَعُ بِحَجَّتِی؟ قَالَ: ((اُنْقُضِیْ رَأْسَکِ وَامْتَشِطِی وَأَمْسِکِی عَنِ الْعُمْرَۃِ، وَأَہِلِّیْ بِالْحَجِّ۔)) فَلَمَّا قَضَیْتُ حَجَّیِ أَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ أَبِی بَکْرٍ فَأَعْمَرَنِیْ مِنَ التَّعْنِیْمِ مَکَانَ عُمْرَتِی الَّتِی نَسَکْتُ عَنْہَا۔ (مسند احمد: ۲۵۸۲۱)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتی ہیں: حجۃ الوداع کے موقع پر ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ حج کے لئے روانہ ہوئے، میں نے عمرے کا احرام باندھا تھا اور میرے ساتھ قربانی کا جانور نہیں تھا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جن لوگوں کے ہمراہ قربانی کا جانور ہے، وہ حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھا احرام باندھیں اور وہ ان دونوںکے بعد احرام کھولیں گے۔ اُدھر مجھے حیض آ گیا،جب عرفہ کی رات تھی تو میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا کہ میں نے تو عمرے کا احرام باندھا تھا، اب میرے حج کا کیا بنے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سر کھول کر کنگھی کرو اور عمرہ کو ترک کر دو اور حج کا احرام باندھ لو۔ جب میں نے حج کر لیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے بھائی سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حکم دیا، پس انہوں نے مجھے تنعیم سے عمرہ کروایا،یہ عمرہ اس عمرے کا متبادل تھا، جس کا میں نے پہلے احرام باندھا تھا۔

Haidth Number: 4216