Blog
Books
Search Hadith

وحی کی ابتدائ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف نزولِ وحی کی کیفیت اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا جبریل علیہ السلام کو دیکھنا

337 Hadiths Found
۔ سیدنا علییا سیدنازبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہم سے مخاطب ہوتے اور (سابقہ امتوں پر) اللہ تعالیٰ کے انعامات اور واقعات کے ساتھ نصیحت کرتے، تو ہم اس چیز کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے (خوف سے بدلے ہوئے) چہرے سے پہنچان لیتے تھے، ایسے لگتا تھا کہ آپ اپنی قوم کو ڈرا رہے ہیںاور بس اگلے روز کی صبح کو عذاب آ جائے گا، اور جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جبریل علیہ السلام سے نئی نئی ملاقات کرتے تھے تو اس وقت تک نہیں مسکراتے تھے، جب تک وہ چلے نہیں جاتے تھے۔

Haidth Number: 10498
۔ سیدنا عمربن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی نازل ہوتی تھی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے کے قریب شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی سی آواز سنائی دیتی تھی۔

Haidth Number: 10499
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: سردی والی صبح کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی نازل ہوتی تھی، لیکن پھر بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیشانی سے پسینہ بہنے لگتا تھا۔

Haidth Number: 10500
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا یہ بھی بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی نازل ہوتی تھی اور آپ اپنی سواری پر ہوتے تو وہ اپنی گردن کوزمین پر پھیلا دیتی تھی۔

Haidth Number: 10501
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جبریل علیہ السلام سے نئی نئی ملاقات ہوتی اور وہ آپ سے قرآن مجید کا دور کرتے تو آپ چھوڑی ہوئی ہوا سے بھی زیادہ مال کی سخاوت کرنے والے ہوتے تھے۔

Haidth Number: 10502
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ سیدنا حارث بن ہشام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا کہ آپ کے پاس وحی کیسے آتی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کبھی کھبی تو فرشتہ اس طرح آتا ہے کہ گھنٹی کی گونج کی سی آواز آتی ہے، یہ کیفیت مجھ پر بڑی گراں گزرتی ہے، لیکن جب وہ مجھ سے جدا ہوتا ہے تو میں اس وحی کو یاد کر چکا ہوتا ہوں اور بسا اوقات فرشتہ مرد کی صورت میں آتا ہے، پھر جو کچھ وہ کہتا ہے، میں اس کو یاد کر لیتا ہوں۔

Haidth Number: 10503

۔ (۱۰۶۸۹)۔ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَدِینَۃَ، جَائَتْہُ جُہَیْنَۃُ، فَقَالُوا: إِنَّکَ قَدْ نَزَلْتَ بَیْنَ أَظْہُرِنَا، فَأَوْثِقْ لَنَا حَتّٰی نَأْتِیَکَ وَتُؤْمِنَّا، فَأَوْثَقَ لَہُمْ فَأَسْلَمُوا، قَالَ: فَبَعَثَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی رَجَبٍ، وَلَا نَکُونُ مِائَۃً وَأَمَرَنَا أَنْ نُغِیرَ عَلٰی حَیٍّ مِنْ بَنِی کِنَانَۃَ إِلٰی جَنْبِ جُہَیْنَۃَ، فَأَغَرْنَا عَلَیْہِمْ وَکَانُوا کَثِیرًا، فَلَجَأْنَا إِلٰی جُہَیْنَۃَ فَمَنَعُونَا، وَقَالُوا: لِمَ تُقَاتِلُونَ فِی الشَّہْرِ الْحَرَامِ؟ فَقُلْنَا: إِنَّمَا نُقَاتِلُ مَنْ أَخْرَجَنَا مِنَ الْبَلَدِ الْحَرَامِ فِی الشَّہْرِ الْحَرَامِ، فَقَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ: مَا تَرَوْنَ، فَقَالَ بَعْضُنَا: نَأْتِی نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنُخْبِرُہُ، وَقَالَ قَوْمٌ: لَا، بَلْ نُقِیمُ ہَاہُنَا، وَقُلْتُ أَنَا فِی أُنَاسٍ مَعِی: لَا، بَلْ نَأْتِی عِیرَ قُرَیْشٍ فَنَقْتَطِعُہَا، فَانْطَلَقْنَا إِلَی الْعِیرِ، وَکَانَ الْفَیْئُ إِذْ ذَاکَ مَنْ أَخَذَ شَیْئًا فَہُوَ لَہُ، فَانْطَلَقْنَا إِلَی الْعِیرِ، وَانْطَلَقَ أَصْحَابُنَا إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرُوہُ الْخَبَرَ، فَقَامَ غَضْبَانًا مُحْمَرَّ الْوَجْہِ، فَقَالَ: ((أَذَہَبْتُمْ مِنْ عِنْدِی جَمِیعًا وَجِئْتُمْ مُتَفَرِّقِینَ، إِنَّمَا أَہْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ الْفُرْقَۃُ، لَأَبْعَثَنَّ عَلَیْکُمْ رَجُلًا لَیْسَ بِخَیْرِکُمْ، أَصْبَرُکُمْ عَلَی الْجُوعِ وَالْعَطَشِ۔)) فَبَعَثَ عَلَیْنَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ جَحْشٍ الْأَسَدِیَّ، فَکَانَ أَوَّلَ أَمِیرٍ أُمِّرَ فِی الْإِسْلَامِ۔ (مسند احمد: ۱۵۳۹)

سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو قبیلہ جہینہ کے لوگ آپ کی خدمت میں آئے اور انہوں نے عرض کیا آپ ہمارے درمیان تشریف لا چکے ہیں، آپ ہمارے ساتھ مضبوط تعلق قائم کریں تاکہ ہم آپ کی خدمت میں آئیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہماری قیادت بھی فرمائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے پختہ عہدوپیمان کیا، وہ لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے، سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں ماہ رجب میں روانہ کیا، ہماری تعداد ایک سو بھی نہ تھی، آپ نے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم قبیلہ جہینہ کے قریب آباد بنو کنانہ کی ایک شاخ پر حملہ کریں، ہم نے ان پر حملہ کر دیا، وہ لوگ تعداد میں بہت زیادہ تھے، ہم قبیلہ جہینہ میں جا کر پناہ گزیں ہو گئے اورانہوں نے ہمیںپناہ دے دی اور یہ بھی کہا کہ آپ لوگ حرمت والے مہینے میں قتال کیوں کرتے ہیں؟ ہم نے کہا: ہم ان لوگوں سے قتال کرتے ہیں جنہوں نے ہمیں بلد حرامیعنی حرمت والے شہر سے حرمت والے مہینے میں نکال باہر کیا،یہ باتیں سن کر ہم میں سے بعض نے بعض سے کہا: اب تمہارا کیا خیال ہے؟ بعض نے کہا:ہم اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جا کر صورتِ حال کی خبر کریں، لیکن کچھ لوگوں نے کہا: نہیں نہیں، ہمیں یہیں ٹھہرنا چاہیے۔اور میں نے چند مزید لوگوں کو ساتھ ملا کر کہا کہ ہمیں قریش کے قافلہ کا رخ کر کے اس کو لوٹ لینا چاہیے، چنانچہ ہم قافلہ کی طرف چل پڑے، ان دنوں دستور تھا کہ مال پر جو آدمی قابض ہو جاتا وہ اسی کا ہوتا ،ہم قافلہ کی طرف چل دئیے، اور ہمارے کچھ ساتھیوں نے جا کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سارے حالات کی اطلاع کر دی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غضب ناک ہو کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا: تم میرے ہاں سے اکٹھے ہو کر گئے تھے اور تم الگ الگ ہو کر واپس آ رہے ہو، تم سے پہلے لوگوں کو بھی اسی اختلاف نے ہلاک کیا تھا، میں تمہارے اوپر ایک ایسے آدمی کو امیر بنا کر بھیجوں گا جو تم سے بہتر یا افضل نہیں، البتہ تمہاری نسبت وہ بھوک پیاس کو زیادہ برداشت کر سکتا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عبداللہ بن جحش اسدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ہمارے اوپر امیر بنا کر روانہ فرمایا،یہ پہلا شخص تھا جسے دورِ اسلام میں سب سے پہلے امیر بنایا گیا تھا۔

Haidth Number: 10689
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھ سے پہلے ہر نبی کو سات بہترین اور عمدہ ساتھی بطور وزیر دیئے گئے تھے، جبکہ مجھے اس قسم کے چودہ افراد دیئے گئے ہیں، ان کے نام یہ ہیں، حمزہ، جعفر، علی، حسن ، حسین، ابو بکر، عمر، مقداد ، عبداللہ بن مسعود، ابو ذر، حذیفہ، سلمان، عمر، بلال۔

Haidth Number: 11594
سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس امت میں اللہ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام جیسے تیس ابدال ہوں گے، جب ان میں سے کوئی ایک فوت ہوگا تو اللہ اس کی جگہ دوسرے کو لے آئے گا۔

Haidth Number: 11595
سیدنا عرباض بن ساریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس صفہ میں تشریف لاتے، جبکہ ہم پر پگڑی ہوتی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے: اگر تم یہ جان لو کہ اللہ کے ہاں تمہارے لیے کیا کچھ جمع ہے، تو تمہیں ان چیزوں پر کوئی غم نہیں ہو گا، جو تم کو دنیا میں نہیںدی گئیں،یاد رکھو کہ تمہارے ہاتھوں فارس اور روم ضرور بالضرور فتح ہوں گے۔

Haidth Number: 11596
Haidth Number: 12097
سیدنا ابوبکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایران کا حکمر ان کون ہے؟ صحابہ نے بتلایا کہ ایک عورت ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ قوم فلاح نہیں پاسکتی، جس پر عورت حکمران ہو۔

Haidth Number: 12098
۔ (دوسری سند)نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس قوم پر عورت حکمران ہو وہ ہرگز فلاح نہیں پاسکتی۔

Haidth Number: 12099
سیدنا ابوبکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پاسکتی، جو اپنے معاملات کو عورتوں کے سپرد کردیتی ہے۔

Haidth Number: 12100
سیدنا ابوبکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ اہلِ فارس میں سے ایک آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے ربّ تبارک وتعالیٰ نے تمہارے ربّ یعنی کسریٰ کو قتل کر دیا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلایا گیا کہ اس نے اپنی بیٹی کو اپنا نائب بنا رکھا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ قوم فلاح نہیں پائے گی، جس پر عورت حکمران ہو۔

Haidth Number: 12101
سیدناسعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی قریش کی اہانت کا ارادہ کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے ذلیل و رسوا کر دے گا۔

Haidth Number: 12537
عمرو بن عثمان بن عفان سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میرے والد نے مجھ سے کہا: پیارے بیٹے! اگر تمہیںلوگوں پر حکم رانی کا موقع ملے تو قریش کا اکرام کرنا، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جس نے قریش کی توہین کی، اللہ اسے ذلیل و رسواکرے گا۔ فوائد:… دورِ جاہلیت میں قریش کو جو شرف حاصل رہا، ان کے مسلمان ہونے کے بعد اسلام نے اس کو برقرار رکھا اور اسے عربوں کے بقیہ قبائل پر امامت و امارت میں مقدم قرار دیا۔ عامر بن شہر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ((اُنْظُرُوْا قُرَیْشًا،فَخُذُوْا مِنْ (وَفِيْ رِوَایَۃٍ: فَاسْمَعُوْا) قَوْلَھُمْ،وَذَرُوْا فِعْلَھُمْ۔)) … قریش کو سامنے رکھو، ان کے اقوال سنو، (اور پیروی کرو) اور ان کے افعال کو نظر انداز کر دو۔ (احمد:۴/۲۶۰، صحیحہ: ۱۵۷۷) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عام صحابہ کے بارے میں بھی یہی قانون پیش کیا ہے کہ ان کی حسنات و خیرات کو مدنظر رکھا جائے، ان کے بشری تقاضوں کو نظر انداز کر دیا جائے۔ جو صحابہ کرام کے بارے میں اپنا قبلہ درست رکھنا چاہتا ہے، اس کے لیے اسی کلیہ میں عافیت ہے کہ وہ صحابہ کرام کے معائب و نقائص کے سلسلے کو ہی بند کر دے۔

Haidth Number: 12538
محمد بن ابراہیم سے روایت ہے کہ سیدنا قتادہ بن نعمان ظفری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے قریش کے بارے میں ناقدانہ باتیں کیں اور ان کو برا بھلا بھی کہا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قتادہ! قریش کو برا بھلا مت کہو، ہوسکتا ہے تم ان میں ایسے افرادبھی دیکھوکہ ان کے اعمال کے بالمقابل تمہیں اپنے اعمال معمولی نظر آئیں اور تم اپنے افعال کو ان کے افعال کے بالمقابل کم تر خیال کرو اور تم انہیں دیکھو تو تم ان پر رشک کرو، اگر قریش کے اترانے اور مغرور ہوجانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں بتلا دیتا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کاکیا مرتبہ ہے؟

Haidth Number: 12539
سیدنا رفاعہ بن رافع زرقی سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قریش کو جمع کیا اور فرمایا: کیا تمہارے درمیان اس وقت کوئی غیر قریشی تو نہیں ہے؟ انہوں نے کہا: جی نہیں، البتہ ہمارا ایک بھانجا، ایک حلیف اور ایک غلام ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارا بھانجا، تمہارا حلیف اور تمہارا غلام تم میں سے ہیں، بے شک قریش صدق و امانت کے حامل ہیں، جو آدمی ان کی کوتاہیاں اور لغزشیں تلاش کرے گا، اللہ اسے اس کے منہ کے بل جہنم میںـ ڈالے گا۔

Haidth Number: 12540
سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! آج سے قیامت تک جتنے فتنے رونما ہوں گے، میں ان کے متعلق سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں، اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ایسی رازدارانہ چیزیں بتلائی ہوں، جو دوسروں کو بیان نہ کی ہوں، بات یہ ہے کہ ایک محفل میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے فتنوں کے بارے میں پوچھا گیا، میں بھی اس مجلس میں موجود تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فتنوں کو شمار کر کے ان کی وضاحت کرنے لگے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان میں سے تین فتنے ایسے ہوں گے، جو (اپنی سنگینی کی وجہ سے) کسی چیز کو بھی نہیں چھوڑیں گے، بعض فتنے موسم گرما کی آندھیوں کے سے ہوں گے اور بعض چھوٹے ہوں گے اور بعض بڑے۔ سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اس محفل میں جتنے لوگ موجود تھے وہ سب وفات پا چکے ہیں، صرف میں زندہ ہوں۔

Haidth Number: 12877
سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ نے مجھے قیامت تک رونما ہونے والے (اہم واقعات اور فتنوں) سے آگاہ فرمایا ہے، میں آپ سے اس قسم کی ہر چیز کے بارے میں پوچھ چکا ہوں، البتہ میں یہ نہ پوچھ سکا کہ کون سی چیز مدینہ کے لوگوںکو مدینہ سے باہر نکالے گی۔

Haidth Number: 12878
سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قیامت تک ہونے والے ہر واقعہ کا ذکر فرما دیا، یاد رکھنے والوں نے ان کو یاد رکھا اور بھلا دینے والوں نے بھلا دیا، میں خود بھی بہت سی ایسی اشیاء دیکھتا ہوں، جو مجھے بھول گئی تھیں، لیکن وہ دیکھنے سے مجھے یاد آ جاتی ہیں، جیسے ایک آدمی جب غائب ہو جانے والے (اور بھول جانے والے) آدمی کو دیکھتا ہے تو وہ اسے پہنچان لیتا ہے۔

Haidth Number: 12879
سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کفر کے شرّ میں تھے، اللہ تعالیٰ نے اس شرّ کو ختم کر دیا اور آپ کے ہاتھوں پر خیر(اور دینِ اسلام) کو لے آیا، اب سوال یہ ہے کہ آیا اس خیر کے بعد پھر شرّ آئے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ انہوںنے پوچھا: وہ کیا ہوگا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ فتنے ہوں گے، جو اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح پے در پے آئیں گے اور وہ گائیوں کے چہروں کی طرح ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوں گے اورتم ان میں امتیاز نہیں کر سکو گے۔

Haidth Number: 12880

۔ (۱۲۸۸۱)۔ وَعَنْ رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّہُ قَدِمَ مِنْ عِنْدِ عُمَرَ ( ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) قَالَ: لَمَّا جَلَسْنَا اِلَیْہِ اَمْسِ سَاَلَ اَصْحَابَ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَیُّکُمْ سَمِعَ قَوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْفِتَنِ؟ فَقَالُوْا: نَحْنُ سَمِعْنَاہُ، قَالَ: لَعَلَّکُمْ تَعْنُوْنَ فِتْنَۃَ الرَّجُلِ فِیْ اَھْلِہِ وَمَالِہِ؟ قَالُوْا: اَجَلْ، قَالَ: لَسْتُ عَنْ تِلْکَ اَسْاَلُ، تِلْکَ یُکَفِّرُھَا الصَّلَاۃُ وَالصِّیَامُ وَالصَّدَقَۃُ، وَلٰکِنْ اَیُّکُمْ سَمِعَ قَوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْفِتَنِ الَّتِیْ تَمُوْجُ مَوْجَ الْبَحْرِ؟ قَالَ: فَاَمْسَکَ الْقَوْمُ وَظَنَنْتُ اَنَّہُ اِیَّایَیُرِیْدُ، قَالَ: قُلْتُ: اَنَا، قَالَ لِیْ: اَنْتَ لِلّٰہِ اَبُوْکَ، قَالَ: قُلْتُ: تُعْرُضُ الْفِتَنُ عَلَی الْقُلُوْبِ عَرْضَ الْحَصِیْرِ، فَاَیُّ قَلْبٍ اَنْکَرَھَا نُکِتَتْ فِیْہِ نُکْتَۃٌ بَیْضَائُ، وَاَیُّ قَلْبٍ اُشْرِبَھَا نُکِتَتْ فِیْہِ نُکْتَۃٌ سَوْدَائُ حَتّٰییَصِیْرَ الْقَلْبُ عَلٰی قَلْبَیْنِ، اَبْیَضَ مِثْلَ الصَّفَا لَا یَضُرُّہُ فِتْنَۃٌ مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْاَرْضُ، وَالآخَرُأَسْوَدُ مِرْبَدٌ کَالْکُوْزِ مُجَخَّیًا وَأَمَالَ کَفَّہُ لَایَعْرِفُ مَعْرُوْفًا وَلَا یُنْکِرُ مُنْکَرًا اِلَّا مَااُشْرِبَ مِنْ ھَوَاہُ، وَحَدَّثْتُہُ وَبَیْنَہَا بَابًا مُغْلَقًا یُوْشِکُ اَنْ یُکْسَرَ کَسْرًا قَالَ عُمَرُ: کَسْرًا؟ لَا اَبًا لَکَ، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَلَوْ اَنَّہُ فُتِحَ کَانَ لَعَّلَہٗاَنْیُعَادَ فَیُغْلَقَ، قَالَ: قُلْتُ: لَا بَلْ کَسْرًا، قَالَ وَحَدَّثْتُہٗاَنَّذٰلِکَالْبَابَرَجُلٌیُقْتَلُ اَوْیَمُوْتُ۔)) حَدِیْثًا لَیْسَ باِلْاَغَالِیْطِ۔ (مسند احمد: ۲۳۸۳۳)

ربعی بن حراش کہتے ہیں کہ جب سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس سے آئے تو انہوں نے کہا: کل جب ہم ان کے پاس بیٹھے تھے تو انہوں نے صحابہ سے پوچھا کہ تم میں سے کس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے فتنوں کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ سب نے کہا: جی ہاں، ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایسی احادیث سنی ہیں۔ انہوںنے کہا: شاید تم میرے سوال سے یہ سمجھ رہے ہو کہ میں انسان کے اہل وعیال اور مال کے فتنہ کے بارے میں پوچھ رہا ہوں؟ انہوںنے کہا: جی ہاں، ہم تو یہی سمجھے ہیں۔ انہوںنے کہا: میں اس کے بارے میں نہیںپوچھ رہا، ایسے فتنوں کو تو نماز، روزہ اور صدقہ جیسی نیکیاں ختم کر دیتی ہیں،یہ بتلاؤ کہ کیا تم میں سے کسی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ان فتنوں کے متعلق سنا ہے جو سمندر کی موجوں کی طرح آئیں گے؟ ان کا یہ سوال سن کر لوگ خاموش ہوگئے۔ میں سمجھا کہ وہ مجھ سے ہی پوچھ رہے ہیں، اس لیے میں نے کہا: میں بیان کروں؟ انھوں نے کہا:اللہ تمہارے باپ کا بھلا کرے، تم ہی بیان کر دو، میںنے کہا کہ چٹائی کے پھیلاؤ کی طرح فتنے رونما ہوں گے، جو دل ان فتنوں سے محفوظ رہا اس میں سفید نقطہ لگادیا جائے گا اور جو دل اس فتنے میں ملوث ہوگیا اس میں سیاہ نقطہ لگادیا جائے گا، یہاں تک کہ نقطے لگتے لگتے دل دو قسم کے ہوجائیں گے، کچھ دل تو پتھر کی طرح بالکل سفید ہو جائیں گے، جب تک زمین و آسمان قائم رہیں گے ان کو کوئی فتنہ بھی ضرر نہیں پہنچا سکے گا اور کچھ سیاہ ہو کر کوزے کی مانند اس طرح الٹ جائیں گے، اس کے ساتھ ہی انھوںنے اپنی ہتھیلی کو الٹا کر بات کو واضح کیا، وہ کسی اچھائی کو اچھائی اور برائی کو برائی نہیں سمجھیں گے اورصرف اپنی خواہشات میںمگن ہوں گے۔ سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میںنے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ بھی بیان کیا کہ آپ کو ان فتنوں سے خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ آپ کے اور ان کے مابین ایک بند دروازہ ہے، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اسے زور سے توڑ دیا جائے، یہ سن کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تمہارا باپ نہ رہے، کیا اسے توڑ ڈالا جائے گا؟ میں نے کہا جی ہاں، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر اسے سیدھی طرح کھول دیا جائے تو عین ممکن ہے کہ کسی وقت بند بھی ہوجائے۔ میںنے کہا: اسے کھولا نہیں جائے گا، بلکہ توڑ دیا جائے گا۔ نیز میں نے ان کو یہ بھی بیان کیا کہ اس دروازے سے مراد ایک انسان ہے جو قتل کیا جائے گا یا وہ اپنی طبعی موت مرے گا، یہ رسول اکرم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حدیث ہے، محض کہانیاں نہیں۔

Haidth Number: 12881

۔ (۱۲۸۸۲)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثََنِیْ اَبِیْ ثَنَا یَحْیٰی بْنُ سَعِیْدٍ عَنِ الْاَعْمَشِ حَدَّثَنِیْ شَقِیْقٌ قَالَ: سَمِعْتُ حُذَیْفَۃَ وَوَکِیْعٌ عَنِ الْاَعْمَشِ عَنْ شَقِیْقٍ عَنْ حُذَیْفَۃَ وَثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ وَقَالَ: سَمِعْتُ حُذَیْفَۃَ بْنَ الْیَمَانِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کُنَّا جُلُوْسًا عِنْدَ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقَالَ: اَیُّکُمْیَحْفَظُ قَوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْفِتْنَۃِ؟ قُلْتُ: اَنَا، کَمَا قَالَہُ، قَالَ: اِنَّکَ لَجَرِیْئٌ عَلَیْہَا اَوْعَلَیْہِ، قُلْتُ: فِتْنَۃُ الرَّجُلِ فِیْ اَھْلِہِ وَمَالِہِ وَوَلَدِہٖوَجَارِہِیُکَفِّرُھَا الصَّلَاۃُ وَالصَّدَقَۃُ وَالْاَمْرُ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّہْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ۔ قَالَ: لَیْسَ ہٰذَا اُرِیْدُ وَلٰکِنِ الْفِتْنَۃُ الَّتِیْ تَمُوْجُ کَمَوْجِ الْبَحْرِ، قُلْتُ: لَیْسَ عَلَیْکَ مِنْہَا بَاْسٌ یَا اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! اِنَّ بَیْنَکَ وَبَیْنَہَا بَابًا مُغْلَقًا، قَالَ: اَیُکْسَرُ اَوْ یُفْتَحُ؟ قُلْتُ: بَلْ یُکْسَرُ، قَالَ: اِذًا لاَ یُغْلَقُ اَبَدًا، قُلْنَا: اَکَانَ عُمَرُ یَعْلَمُ مَنِ الْبَابُ؟ قَالَ: نَعَمْ، کَمَا یَعْلَمُ اَنَّ دُوْنَ غَدٍ لَیْلَۃً، قَالَ وَکِیْعٌ فِیْ حَدِیْثِہِ: قَالَ: فَقَالَ مَسْرُوْقٌ لِحُذَیْفَۃَ: یَا اَبَا عَبْدِاللّٰہِ کَانَ عُمَرُ یَعْلَمُ مَا حَدَّثْتَہُ بِہٖ؟قُلْنَا: اَکَانَعُمَرُیَعْلَمُ مَنِ الْبَابُ؟ قَالَ: نَعَمْ کَمَا یَعْلَمُ اَنَّ دُوْنَ غَدٍ لَیْلَۃً، اِنِّیْ حَدَّثْتُہُ لَیْسَ بِالْاَغَالِیْطِ، فَہِبْنَا حُذَیْفَۃَ اَنْ نَسْاَلَہُ مَنِ الْبَابُ فَاَمَرْناَ مَسْرُوْقًا فَسَاَلَہُ فَقَالَ: اَلْبَابُ عُمَرُ۔ (مسند احمد: ۲۳۸۰۴)

سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انہوںنے سوال کیا کہ کیا تم میںسے کسی کو فتنوں کے بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کوئی حدیث یا دہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، مجھے فتنہ کے متعلق حدیث یاد ہے۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی فتنہ کے بارے میں احادیث بیان کرنے میں تم جرأت والے ہو۔ میں نے کہا: انسان اپنے اہل و عیال، مال و اولاد اور ہمسایوں کے بارے میں جتنے فتنوں میں مبتلا ہوتا ہے، نماز، صدقہ، نیکی کا حکم کرنے اور برائی سے منع کرنے جیسی نیکیاں ایسے فتنوں کا کفارہ بنتی رہتی ہیں۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں ایسے فتنے کے بارے میں نہیں پوچھ رہا، میرا سوال تو اس فتنے کے بارے میں ہے جو سمندر کی موج کی طرح آئے گا۔ میںنے کہا: اے امیر المومنین ! آپ کو اس سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں، آپ کے اور اس کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ انہوں نے پوچھا: اس دروازے کو توڑا جائے گا یا کھولا جائے گا؟ میں نے کہا: بلکہ اسے توڑا جائے گا۔ انہوں نے کہا: پھر تو وہ کبھی بھی بند نہ ہو سکے گا۔ ہم نے سیدنا حذیفہ سے دریافت کیا کہ آیا سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ علم تھا کہ دروازہ سے مراد کون آدمی ہے؟ انہوںنے کہا:جی ہاں، وہ اس دروازے کو اس طرح جانتے تھے، جیسے وہ یہ جانتے تھے کہ کل سے پہلے رات آئے گی۔ وکیع نے اپنی حدیث میں یوں بیان کیا: مسروق نے سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے ابو عبداللہ! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو جو کچھ بیان کیا، آیا وہ اس کی حقیقت اور مفہوم کو جانتے تھے؟ جبکہ ہم نے کہا: آیا سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جانتے تھے کہ یہ دروازہ کون ہے؟ سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بتایا کہ وہ اس بات کو اس طرح جانتے تھے جیسے ان کو یہ علم تھا کہ کل سے پہلے رات آئے گی، یاد رکھو کہ میں نے یہ حقائق بیان کیے ہیں، یہ محض کہانیاں نہیں ہیں۔ پہلے تو ہم سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ پوچھنے کی جسارت نہ کر سکے کہ دروازہ سے مراد کون ہے؟ پھر ہم نے مسروق سے کہا کہ وہ ان سے اس کے بارے میں پوچھے، سو جب اس نے سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے پوچھا تو انھوں نے بتلایا کہ اس دروازہ سے مراد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں۔

Haidth Number: 12882
سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میرے لیے اسلام کا کلمہ پڑھنے والوں کو شمار کرو۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ کو ہمارے بارے میں کوئی ڈر ہے، جبکہ ہماری تعداد چھ سو سے سات سوکے درمیان ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نہیں جانتے، ہو سکتا ہے کہ تم پر آزمائشیں آ پڑیں۔ سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: چنانچہ ہمیں اس طرح آزمایا گیا کہ آدمی کو نماز بھی چھپ چھپ کر ادا کرنا پڑی۔

Haidth Number: 12883

۔ (۱۲۸۸۴)۔ عَنْ اَبِیْ ثَوْرٍ قَالَ: بَعَثَ عُثْمَانُ یَوْمَ الْجَرَعَۃِ بِسَعِیْدِ بْنِ الْعَاصِ ،قَالَ: فَخَرَجُوْا اِلَیْہِ فَرَدُّوْہٗقَالَ: فَکُنْتُقَاعِدًامَعَاَبِیْ مَسْعُوْدٍ وَحُذَیْفَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما فَقَالَ اَبُوْمَسْعُوْدٍ: مَا کُنْتُ اَرٰی اَنْ یَّرْجِعَ لَمْ یُہْرِقْ فِیْہِ دَمًا، قَالَ: فَقَالَ حُذَیْفَۃُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: وَلٰکِنْ قَدْعَلِمْتُ لَتَرْجِعَنَّ عَلٰی عُقَیْبِہَا لَمْ یُھْرِقْ فِیْہَا مَحْجَمَۃَ دَمٍ وَمَا عَلِمْتُ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا اِلَّا شَیْئًا عَلِمْتُہُ وَمُحَمَّدٌ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَیٌّحَتّٰی اِنَّ الرَّجُلَ لَیُصْبِحُ مُؤْمِنًا ثُمَّ یُمِْسیْ، مَامَعَہٗمِنْہُشَیْئٌ، وَیُمْسِیْ مُؤْمِنًا وَیُصْبِحُ، مَامَعَہٗمِنْہُشَیْئٌ،یُقَاتِلُ فِئَتُہٗالْیَوْمَ وَیَقْتُلُہُ اللّٰہُ غَدًا، یُنَکِّسُ قَلْبَہٗ،تَعْلُوْہُاِسْتُہُ۔قَالَ: فَقُلْتُ: اَسْفَلُہُ،قَالَ: اِسْتُہُ۔ (مسند احمد: ۲۳۷۳۸)

ابوثور کہتے ہیں: امیرالمومنین سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جرعہ کے فتنہ کے موقعہ پر سیدنا سعید بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اس فتنہ کو فرو کرنے کے لیے روانہ کیا، لوگ ان کے مقابلے کے لیے نکلے اور ان کو واپس بھگا دیا۔ ابوثور کہتے ہیں: میں سیدنا ابو مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھا تھا، سیدنا ابو مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نہیں سمجھتا تھا کہ یہ لوگ خون بہائے بغیر یوں ہی واپس پلٹ آئیں گے، ان کی بات سن کر سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں تو اس بات کو یقینی طور پر جانتا تھا کہ یہ لوگ یونہی واپس پلٹ آئیں گے اور جتنا خون سینگی لگوانے میں نکلتا ہے، اس مہم میں اتنا خون بھی نہیں بہایا جائے گا اور مجھے اس بات کا اس وقت علم ہو گیا تھا، جب محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حیات تھے، (ایسی صورتحال بھی پیدا ہو گی کہ ایک آدمی ایمان کی حالت میں صبح کرے گا، لیکن جب شام ہوگی تو اس کے پاس اس ایمان میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہے گی، اسی طرح ایک آد می ایمان کی حالت میں شام کرے گا، مگر صبح کے وقت اس کے پاس ایمان نام کی کوئی چیز باقی نہیں ہوگی، اس کا لشکر آج کسی کے ساتھ قتال کرے گا اور اگلے دن اللہ تعالیٰ اسی کو قتل کردے گا، اس کے دل کو یوں الٹ پلٹ کرے گا کہ اس کی دبر اس کی اوپر کی جانب ہوگی۔ میں نے کہا: اس کی نچلی جانب؟ اس نے جواب دیا: اس کی دبر۔

Haidth Number: 12884

۔ (۱۳۱۰۲)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا یَحْیٰی بْنُ سَعِیْدٍ ثَنَا ابْنُ اَبِیْ عَرُوْبَۃَ ثَنَا قَتَادَۃُ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((قَالَ یَجْتَمِعُ الْمُوْمِنُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُلْہَمُوْنَ ذٰلِکَ، فَیَقُوْلُوْنَ لَوِ اسْتَشْفَعْنَا عَلٰی رَبِّنَا عَزَّوَجَلَّ فَاَرَاحَنَا مِنْ مَکَانِنَا ہٰذَا، فَیَاْتُوْنَ آدَمَ علیہ السلام فَیَقُوْلُوْنَ: یَا آدَمُ! اَنْتُ اَبُو الْبَشَرِ خَلَقَکَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ بِیَدِہٖ وَاَسْجَدَ لَکَ مَلَائِکَتَہُ وَعَلَّمَکَ اَسْمَائَ کُلِّ شَیْئٍ، فَشَفِّعْ لَنَا اِلٰی رَبِّنَا عَزَّوَجَلَّ یُرِیْحُنَا مَکَانَنَا ہٰذَا، فَیَقُوْلُ لَھُمْ آدَمُ علیہ السلام : لَسْتُ ھُنَاکُمْ وَیَذْکُرُ ذَنْبَہُ الَّذِیْ اَصَابَ فَیَسْتَحْیِیْ رَبَّہُ عَزَّوَجَّلَ، وَیَقُوْلُ: وَلٰکِنِ ائْتُوْا نُوْحًا، فَاِنَّہُ اَوَّلُ رَسُوْلٍ بَعَثَہُ اللّٰہُ اِلٰی اَھْلِ الْاَرْضِ، فَیَاْتُوْنَ نُوْحًا، فَیَقُوْلُ: لَسْتُ ھُنَاکُمْ وَیَذْکُرُ لَھُمْ خَطِیْئَتَہُ وَسُوَالَہُ رَبَّہُ عَزَّوَجَلَّ مَا لَیْسَ لَہُ بِہٖعِلْمٌ،فَیَسْتَحْیِِیْ رَبَّہُ بِذٰلِکَ وَلٰکِنِ ائْتُوْا اِبْرَاہِیْمَ خَلِیْلَ الرَّحْمٰنِ عَزَّوَجَلَّ، فَیَاْتُوْنَ فَیَقُوْلُ: لَسْتُ ھُنَاکُمْ وَلٰکِنِ ائْتُوْا مُوْسٰی علیہ السلام عَبْدًا کَلَّمَہُ اللّٰہُ وَأَعْطَاہُ التَّوْرَاۃَ، فَیَاْتُوْنَ مُوْسٰی فَیَقُوْلُ: لَسْتُ ھُنَاکُمْ وَیَذْکُرُ لَھُمُ النَّفْسَ الَّتِیْ قَتَلَ بِغَیْرِ نَفْسٍ، فَیَسْتَحْیِی رَبَّہُ مِنْ ذٰلِکَ وَلٰکِنِ ائْتُوْا عِیْسٰی عَبْدَ اللّٰہِ وَرَسُوْلَہُ وَکَلِمَتَہُ وَرُوْحَہُ، فَیَاْتُوْنَ عِیْسٰی فَیَقُوْلُ: لَسْتُ ھُنَاکُمْ وَلٰکِنِ ائْتُوْا مُحَمَّدًا ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَبْدًا غَفَرَ اللّٰہُ لَہُ مَا تَقَدَّّمَ مِنْ ذَنْبِہٖوَمَاتَاَخَّرَفَیَاْتُوْنِّیْ، قَالَ الْحَسَنُ ہٰذَا الْحَرْفَ فَاَقُوْمُ فَاَمْشِیْ بَیْنَ سِمَاطَیْنِ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ، قَالَ اَنَسٌ: حَتّٰی اَسْتَاْذِنَ عَلٰی رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ فَیُوْذَنَ لِیْ فَاِذَا رَاَیْتُ رَبِّیْ وَقَعْتُ اَوْ خَرَرْتُ سَاجِدًا اِلٰی رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّّ، فََیَدَعُنِیْ مَاشَائَ اللّٰہُ اَنْ یَّدَعَنِیْ، قَالَ: ثُمَّ یُقَالُ: اِرْفَعْ مُحَمَّدُ! قُلْ تُسْمَعْ، وَسَلْ تُعْطَہُ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَاَرْفَعُ رَاْسِیْ فَاَحْمَدُ بِتَحْمِیْدٍیُعَلِّمُنِیْہِ ثُمَّ اَشْفَعُ فَیَحُدُّ لِیْ حَدًّا فَاُدْخِلُہُمُ الْجَنَّۃَ، ثُمَّ اَعُوْدُ الثَّانِیَۃَ، فَاِذَا رَأَیْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ وَقَعْتُ اَوْ خَرَرْتُ سَاجِدًا لِرَبِّیْ، فَیَدَعُنِیْ مَاشَائَ اللّٰہُ اَنْ یَّدَعَنِیْ، ثُمَّ یُقَالُ: اِرْفَعْ مُحَمَّدُ! وَقُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَہُ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَاَرْفَعُ رَاْسِیْ فَاَحْمَدُہُ بِتَحْمِیْدٍِیُعَلِّمُنِیْہِ، ثُمَّ اشْفَعُ، فَیَحُدُّ لِیْ حَدًّا، فَاُدْخِلُہُمُ الْجَنَّۃَ ثُمَّ اَعُوْدُ اِلَیْہِ الثَّالِثَۃَ، فَاِذَا رَاَیْتُ رَبِّیْ وَقَعْتُ اَوْ خَرَرْتُ سَاجِدًا لِرَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ، فَیَدَعُنِیْ مَاشَائَ اللّٰہُ اَنْ یَدَعَنِیْ، ثُمَّ یُقَالُ: اِرْفَعْ مُحَمَّدُ! وَقُلْ تُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَہُ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَاَرْفَعُ رَاْسِیْ فَاَحْمَدُہُ بِتَحْمِیْدٍیُعَلِّمُنِیْہِ ثُمَّ اَشْفَعُ، فَیَحُدُّ لِیْ حَدًّا، فَاُدْخِلُہُمُ الْجَنَّۃَ، ثُمَّ اَعُوْدُ الرَّابِعَۃَ فَاَقُوْلُ: یَارَبِّ مَا بَقِیَ اِلَّا مَنْ حَبَسَہُ الْقُرْآنُ۔)) فَحَدَّثَنَا اَنَسُ بْنُ مَالِکٍ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((فَیُخْرَجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَکَانَ فِیْ قَلْبِہِ مِنَ الْخَیْرِ مَا یَزِنُ شَعِیْرَۃً ثُمَّ یُخْرَجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَکَانَ فِیْ قَلْبِہِ مِنَ الْخَیْرِ مَا یَزِنُ بُرَّۃً، ثُمَّ یُخْرَجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ وَکَانَ فِیْ قَلْبِہِ مِنَ الْخَیْرِ مَایَزِنُ ذَرَّۃً۔)) (مسند احمد: ۱۲۱۷۷)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن اہل ِ ایمان اکٹھے ہوں گے، ان کوالہام کیا جائے گا، چنانچہ وہ کہیں گے کہ ہمیں چاہیے کہ ہم کسی کو سفارشی مقرر کریں تاکہ وہ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارش کرے، تاکہ وہ ہمیں اس جگہ سے نجات دے، چنانچہ وہ آدم علیہ السلام کے پاس جا کر ان سے کہیں گے: اے آدم!آپ ابوالبشر ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا اور آپ کو ہر چیز کے نام سکھائے، آپ ہمارے حق میں اپنے ربّ کے ہاں سفارش تو کر دیں کہ وہ ہمیں اس جگہ سے نجات دلا دے، آدم علیہ السلام ان سے کہیں گے: میں اس کی جسارت نہیں کر سکتا،پھروہ اپنی غلطی کا ذکر کریں گے اور اپنے ربّ کے سامنے حاضر ہو کر سفارش کرنے سے معذرت کریں گے اور کہیں گے کہ تم لوگ نوح علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، وہ اللہ تعالیٰ کے پہلے رسول ہیں، جنہیں اہل زمین کی طرف مبعوث کیا گیا۔ چنانچہ وہ لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے یہی سفارش کی درخواست کریں گے تو وہ بھی معذرت کرتے ہوئے کہیں گے کہ وہ یہ کام نہیں کرسکتے، پھر وہ اپنی ایک غلطی کا ذکر کریں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ایک ایسی دعا کر بیٹھے تھے کہ جس کا انہیں علم نہیں تھا، اس کی وجہ سے وہ اپنے ربّ کے سامنے جانے سے معذرت کریں گے اور کہیں گے کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ۔ پس وہ لوگ ان کی خدمت میں جائیں گے، لیکن وہ بھی یہ کام نہ کر سکنے کا کہیں گے اور یہ مشورہ دیں کے کہ تم لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، وہ اللہ تعالیٰ کے ایسے برگزیدہ بندے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے براہ راست کلا م کیا اور انہیں تورات عطا کی، لہٰذا لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچیں گے لیکن وہ بھی معذرت کریں گے کہ کہیں گے کہ میں تو ایک آدمی کو بلاوجہ قتل کر چکاہوں اور اس وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جانے سے معذرت کریں گے اور کہیں گے کہ تم لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، وہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے، اس کے رسول ، اس کا کلمہ اور اسکی روح ہیں۔ سو وہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچ جائیں گے، لیکن وہ بھی معذرت کرتے ہوئے کہیں گے کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا، البتہ تم لوگ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس چلے جاؤ، وہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اگلے پچھلے سب گناہوں کو معاف کر دیا ہے،ان کے بعد لوگ میرے پاس آئیں گے،میں ان کی درخواست سن کر اہل ایمان کے دو گروہوں کے درمیان چلتا ہوا جاؤں گا اورجاکر اپنے ربّ سے اجازت طلب کروں گا، مجھے اجازت مل جائے گی اور میں اپنے ربّ کو دیکھ کر اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤں گا، اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا مجھے سجدہ کرنے دے گا، اس کے بعد کہاجائے گا:اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ ،کہو تمہاری بات سنی جائے گی، مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا، سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی، تب میں سر اٹھاؤں گا اور اللہ تعالیٰ کی ایسی ایسی تعریفیں بیان کروں گا کہ جو اس وقت اللہ تعالیٰ مجھے سکھائے گا، پھر میں سفارش کرو ں گا اور میرے لیے ایک حد مقرر کر دی جائے گی کہ آپ اس قسم کے لوگوں کو جنت میں لے جا سکتے ہیں، میں انہیں جنت میں داخل کر آؤں گا اور دوبارہ آجاؤں گا اور اپنے ربّ کو دیکھتے ہی اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاؤں گا، اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا مجھے سجدہ کرنے دے گا۔ پھر مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ، کہو تمہاری بات سنی جائے گی، مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا، سفارش کروتمہاری سفارش قبول کی جائے گی، میں سجدہ سے اپنا سر اٹھاؤں گا اور اللہ تعالیٰ کی ایسی ایسی تعریفیں بیان کروں گا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اسی وقت وہ الفاظ سکھائے گا، پھر میں سفارش کروں گا اور میرے لیے ایک حد مقرر کر دی جائے گی کہ آپ اس قسم کے لوگوں کو جنت میں لے جاسکتے ہیں، میں تیسری دفعہ آ جاؤں گا اور اپنے ربّ کودیکھ کر اس کے سامنے سجدے میں گر جاؤں گا، جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا اور میں سجدہ ریز رہوں گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ اے محمد! سر اٹھاؤ،کہو تمہاری بات سنی جائے گی، مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا، سفارش کروتمہاری سفارش قبول کی جائے گی، میں سجدہ سے سر اٹھاؤں گا اور اللہ تعالیٰ کی ایسی حمد بیان کروں گا کہ اللہ تعالیٰ مجھے وہ الفاظ اسی وقت سکھائے گا۔ پھر میں سفارش کروں گا اور میرے لیے ایک حد مقرر کر دی جائے گی کہ آپ اس قسم کے لوگوں کو جنت میں لے جا سکتے ہیں، میں انہیں جنت میں داخل کرا کے چوتھی مرتبہ آجاؤں گا اور کہوں گا: اے ربّ ! اب یہاں جہنم میں وہی لوگ رہ گئے ہیں، جنہیں قرآن نے روک رکھاہے، (یعنی جن کے متعلق قرآن نے کہا ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے)۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کر یم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم سے ہر اس آدمی کو نکال لیا جائے گا جس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ پڑھا ہوگا اور جس کے دل میں ایک جو کے برابر بھی ایمان ہوگا۔ پھر اس کے بعد جہنم سے ہر اس آدمی کو بھی نکال لیا جائے گا جس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ پڑھا ہو گااور اس کے دل میں گندم کے دانے کے برابر ایمان ہوگا، بعد ازاں جہنم سے ہر اس آدمی کو بھی نکال لیا جائے گا، جس نے لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ پڑھا ہو اور اس کے دل میں ایک ذراہ برابر ایمان ہوگا۔

Haidth Number: 13102

۔ (۱۳۱۰۳)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا قَالَ: حَدَّثَنِیْ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنِّیْ لَقَائِمٌ اَنْتَظِرُ اُمَّتِیْ تَعْبُرُ عَلٰی الصِّرَاطِ، اِذْ جَائَ نِیْ عِیْسٰی فَقَالَ: ہٰذِہِ الْاَنْبِیَائُ قَدْ جَائَتْکَ یَامُحَمَّدُ! یَسْأَلُوْنَ اَوْ قَالَ یَجْتَمِعُوْنَ اِلَیْکَ وَیَدْعُوْنَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اَنْ یُّفَرِّقَ جَمْعَ الْاُمَمِ اِلٰی حَیْثُیَشَائُ اللّٰہُ لِغَمٍّ مَا ھُمْ فِیْہِ وَالْخَلْقُ مُلْجَمُوْنَ فِی الْعَرَقِ وَاَمَّا الْمُوْمِنُ فَہُوَ عَلَیْہِ کَالزَّکْمَۃِ وَاَمَّا الْکَافِرُ فَیَتَغَشَّاہُ الْمَوْتُ قَالَ: قَالَ لِعِیْسٰی: اِنْتَظِرْ حَتّٰی اَرْجِعَ اِلَیْکَ، قَالَ: فَذَھَبَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی قَامَ تَحْتَ الْعَرْشِ فَلَقِیَ مَالَمْ یَلْقَ مَلَکٌ مُصْطَفًی وَلَانَبِیٌّ مُرْسَلٌ فَاَوْحٰی اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِلٰی جِبْرِیْلَ اِذْھَبْ اِلٰی مُحَمَّدٍ فَقُلْ لَہُ: اِرْفَعْ رَاْسَکَ، سَلْ تُعْطَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، قَالَ: فَشُفِّعْتُ فِیْ اُمَّتِیْ اَنْ اَخْرِجْ مِنْ کُلِّ تِسْعَۃٍ وَتِسْعِیْنَ اِنْسَانًا وَاحِدًا، قَالَ: فَمَازِلْتُ اَتَرَدَّدُ عَلٰی رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ فَلَا اَقُوْمُ مَقَامًا اِلَّا شُفِّعْتُ حَتّٰی اَعْطَانِیَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ مِنْ ذٰلِکَ اَنْ قَالَ: یَا مُحَمَّدُ! اَدْخِلْ مِنْ اُمَّتِکَ مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ مَنْ شَہِدَ اَنَّہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یَوْمًا وَاحِدًا مُخْلِصًا وَمَاتَ عَلٰی ذٰلِکَ۔)) (مسند احمد: ۱۲۸۵۵)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت پل صراط کو عبور کر رہی ہوگی اور میں ان کے انتظار میں کھڑا ہوں گا کہ عیسیٰ علیہ السلام میرے پاس آکر کہیں گے: اے محمد! یہ تمام انبیاء آپ کی خاطر جمع ہیں، وہ اللہ تعالیٰ سے یہ درخواست کر رہے ہیں کہ تمام امتیں جس غم میں مبتلا ہیں، وہ انہیں اس سے نکال کر ان کا حساب کتاب شروع کرے اور جدھر چاہے ان کو بھیج دے، جبکہ سب لوگوں کو منہوں تک پسینہ آ رہا ہو گا، اہل ایمان کی تکلیف تو زکام کی سی ہوگی اور کافروں پر تو موت کی کیفیت طاری ہوگی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عیسیٰ علیہ السلام سے فرمائیں گے: آپ انتظار کریں، میں آپ کے پاس واپس آتا ہوں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ تعالیٰ کے عرش کے نیچے جا کر کھڑے ہو جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کا ایسا ذکر کریں گے، جو کسی مقرب فرشتے یا بھیجے ہوئے نبی کو نصیب نہیں ہوا ہو گا، اُدھر اللہ تعالیٰ جبرائیل علیہ السلام کی طرف وحی کرے گا کہ تم جا کر محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہو:اپنا سر اٹھاؤ اور مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا، سفارش کرو تمہاری سفارش مقبول ہوگی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اپنی امت کے حق میں اتنی سفارش قبول کی جائے گی کہ آپ ہر ننانوے میں سے ایک آدمی کو جہنم سے نکال کر جنت میں لے جائیں،پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بار بار اللہ تعالیٰ کے ہاں جاتے رہیں گے اور ہر دفعہ آپ کی سفارش قبول کی جاتے رہے گی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ یہ کہے گا: اے محمد! اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت میں جتنے افراد پیدا کیے، ان میں سے جس جس نے اخلاص کے ساتھ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی گواہی دی اور اسی پر فوت ہوا تو اسے جنت میں داخل کر لو۔

Haidth Number: 13103
مجاہد سے روایت ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خمد دار چھڑی لیے بیٹھے تھے، جبکہ لوگ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے، انھوں نے کہا: کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: {یٰـــٓـــاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ} (اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہ آئے مگر اس حالت میں کہ تم اسلام پر قائم دائم ہو۔) (سورۂ آل عمران:۱۰۲) اور اگر جہنم کے زقوم کا ایک قطرہ زمین پر ٹپکا دیا جائے تو وہ روئے زمین پر بسنے والوں کی زندگی کو کڑوا کر دے گا، (ذرا سوچو کہ) ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جن کی خوراک ہی زقوم ہوگا۔

Haidth Number: 13229