اَلْمَنْیُ کے معنی اندازہ کرنے کے ہیں۔ چنانچہ محاورہ ہے۔ مَنٰی لَکَ الْمَانِیْ: مقدر کنندہ نے تیرے لیے مقدر کردیا ہے۔ اسی سے بعض کے نزدیک مَنْ ایک وزن کا نام ہے۔(1) (اَلَمۡ یَکُ نُطۡفَۃً مِّنۡ مَّنِیٍّ یُّمۡنٰی) (۷۵:۳۷) کیا وہ منی جو (رحم میں) ڈالی جاتی ہے ایک قطرہ نہ تھا؟ (مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اِذَا تُمۡنٰی) (۵۳:۴۶) (یعنی) نطفے سے جو (رحم میں) ڈالا جاتا ہے۔ یعنی نطفہ سے جو قدرت الٰہی کے ساتھ اس چیز کے لیے مقدر ہوتا ہے۔ جو اس سے پیدا ہونا ہوتا ہے۔ اسی سے مَنِیَّۃٌ بمعنی اجل مقدر ہے۔ والجمع: مَنَایَا۔ اَلتَّمَنِّیْ کے معنی دل میں کسی خیال کے باندھنے اور اس کی تصویر کھینچ لینے کے ہیں۔ پھر کبھی یہ تقدیر محض ظن و تخمین پر مبنی ہوتی ہے۔ اور کبھی غوروفکر کا نتیجہ اور مبنی برحقیقت۔ مگر عام طور پر تمنی کی بنا چونکہ ظن و تخمین پر ہی ہوتی ہے اس لیے اس پر جھوٹ کا رنگ غالب ہوتا ہے۔ کیونکہ اکثر طور پر تمنی کا لفظ دل میں غلط آرزوئیں قائم کرلینے پر بولا جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (اَمۡ لِلۡاِنۡسَانِ مَا تَمَنّٰی ) (۵۳:۲۴) کیا جس چیز کی انسان آرزو کرتا ہے وہ اسے ضرور ملتی ہے۔ (فَتَمَنَّوُا الۡمَوۡتَ) (۲:۹۴) تو موت کی آرزو تو کرو۔ (وَ لَا یَتَمَنَّوۡنَہٗۤ ) (۶۲:۷) اور یہ ہرگز نہیں کریں گے۔ اَلْاُمْنِیَّۃُ: کسی چیز کی تمنا سے جو صورت ذہن میں حاصل ہوتی ہے اسے اُمْنِیَّۃٌ کہا جاتا ہے اور کذب چونکہ کسی غیر واقعی چیز کا تصور کر کے اسے لفظوں میں بیان کردینے کو کہتے ہیں۔ تو گویا تمنی جھوٹ کا مبدء ہے۔ لہٰذا جھوت کو تمنی سے تعبیر کرنا بھی صحیح ہے اسی معنی میں حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کا قول ہے۔(2) مَاتَغَنَّیْتُ وَلَا تَمَنَّیْتُ مُنْذُ اَسْلَمْتُ کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں نہ راگ گایا ہے اور نہ جھوٹ بولا ہے۔ اور امنیۃ کی جمع امانی۔ آتی ہے۔ (3) چنانچہ فرمایا: (وَ مِنۡہُمۡ اُمِّیُّوۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ الۡکِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ ) (۲:۷۸) اور بعض ان میں سے ان پڑھ ہیں کہ اپنے خیالات باطل کے سوا (خدا کی) کتاب سے واقف نہیں ہیں۔ مجاہد نے اِلَّا اَمَانِیَّ کے معنی اِلَّا کَذِبًا یعنی جھوٹ کیے ہیں۔ اور دوسروں نے اَمَانِیَّ سے بے سوچے سمجھے تلاوت کرنا مراد لیا ہے کوینکہ اس قسم کی تلاوت بھی اس اُمْنِیَّۃ سے زیادہ وقت نہیں رکھتی ہے۔ جس کی بنا تخمینہ پر ہوتی ہے اور آیت کریمہ: (وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤی اَلۡقَی الشَّیۡطٰنُ فِیۡۤ اُمۡنِیَّتِہٖ) (۲۲:۵۲) اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا۔ مگر (اس کا یہ حال تھا کہ) جب وہ کوئی آرزو کرتا تھا تو شیطان اس کی آرزو میں (وسوسہ) ڈال دیتا تھا۔ میں اُمْنِیَّۃ کے معنی تلاوت کے ہیں اور پہلے بیان ہوچکا ہے کہ تمنی ظن و تخمین سے بھی ہوتی ہے۔ اور مبنی برحقیقت بھی۔ اور چونکہ آنحضرت ﷺ کے قلب مبارک پر روح الامین جو وحی لے کر اترتے تھے آپ ﷺ اس کی تلاوت کے لیے مبادرت کرتے تھے۔ حتیٰ کہ آپ ﷺ کو آیت (لَاتَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ) اور (لَاتُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ) کے ذریعہ منع فرمادیا گیا۔ الغرض اس وجہ سے آپ کی تلاوت کو تمنی سے موسوم کیا ہے۔ اور متنبہ کیا ہے کہ ایسی تلاوت میں شیطان کا دخل غالب ہوجاتا ہے۔(4) اسی معنی میں آنحضرت ﷺ نے بھی فرمایا ہے (5) (۱۲۵) اِنَّ الْعَاجَلَۃَ مِنَ الشَّیْطَانِ کہ جلدبازی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔ مَنَّیْتَنِیْ کَذَا کے معنی فریب دہی سے جھوٹی امیدیں دلانے کے ہیں۔ چنانچہ قرآن پاک نے شیطان کے قول کی حکایت کرتے ہوئے فرمایا: (وَّ لَاُضِلَّنَّہُمۡ وَ لَاُمَنِّیَنَّہُمۡ ) (۴:۱۱۹) اور ان کو گمراہ کرتا اور امیدیں دلاتا رہوں گا۔
Words | Surah_No | Verse_No |
الْاَمَانِيُّ | سورة الحديد(57) | 14 |
اَمَانِىَّ | سورة البقرة(2) | 78 |
اَمَانِيُّھُمْ | سورة البقرة(2) | 111 |
اَمَانِيِّ | سورة النساء(4) | 123 |
اُمْنِيَّتِهٖ | سورة الحج(22) | 52 |
بِاَمَانِيِّكُمْ | سورة النساء(4) | 123 |
تَتَمَنَّوْا | سورة النساء(4) | 32 |
تَـمَنّىٰٓ | سورة الحج(22) | 52 |
تَـمَنَّوْنَ | سورة آل عمران(3) | 143 |
تَمَـــنَّوْا | سورة القصص(28) | 82 |
تَمَــنّٰى | سورة النجم(53) | 24 |
تُمْـنُوْنَ | سورة الواقعة(56) | 58 |
تُمْنٰى | سورة النجم(53) | 46 |
فَتَمَنَّوُا | سورة البقرة(2) | 94 |
فَتَمَنَّوُا | سورة الجمعة(62) | 6 |
مَّنِيٍّ | سورة القيامة(75) | 37 |
وَلَاُمَنِّيَنَّھُمْ | سورة النساء(4) | 119 |
وَيُمَنِّيْهِمْ | سورة النساء(4) | 120 |
يَتَمَنَّوْنَهٗٓ | سورة الجمعة(62) | 7 |
يُّمْـنٰى | سورة القيامة(75) | 37 |
يَّتَمَنَّوْهُ | سورة البقرة(2) | 95 |