اَلْبَعْثُ: (ف) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بھیجنا کے ہیں اور اِنْبَعَثَ دراصل مطاوع ہے، بَعَثَ کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں، مثلاً بَعَثْتُ الْبَعِیْرَ کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینے کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر طرف چلانا مراد ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا: (وَ الۡمَوۡتٰی یَبۡعَثُہُمُ اللّٰہُ ) (۶:۳۶) اور مردوں کو تو خدا (قیامت ہی کو) اٹھائے گا۔ (یَوۡمَ یَبۡعَثُہُمُ اللّٰہُ جَمِیۡعًا ) (۵۸:۶) جس دن خدا ان سب کو جِلا اٹھائے گا۔ (زَعَمَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ لَّنۡ یُّبۡعَثُوۡا ؕ قُلۡ بَلٰی وَ رَبِّیۡ لَتُبۡعَثُنَّ ) (۶۴:۷) جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ (دوبارہ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے۔ کہہ دو کہ ہاں ہاں میرے پروردگار کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے۔ (مَا خَلۡقُکُمۡ وَ لَا بَعۡثُکُمۡ اِلَّا کَنَفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ ) (۳۱:۲۸) تمہارا پیدا کرنا اور جِلا اٹھانا ایک شخص (کے پیدا کرنے اور جِلا اٹھانے) کی طرح ہے۔ پس بَعْثَ دو قسم پر ہے اوّل: بعث بَشَرِیْ یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے، جیسے بَعْثُ الْبَعِیْرِ (یعنی اونت کو اٹھاکر چلانا) اور بَعْثُ الْاِنْسَانِ فِیْ حَاجَۃٍ (کسی کو کسی کام کے لیے بھیجنا) ۔ دوم: بعث الٰہی یعنی جب اس کی نسبت اﷲ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دو قسمیں ہیں۔ اوّل یہ کہ اعیان، اجناس اور انواع کو عدم سے وجود میں لانا۔ یہ قسم اﷲ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر اس نے کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی۔ دوم: مردوں کو زندہ کرنا۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اﷲ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرما دیتا ہے، جیساکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ہم مثل دوسرے انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ: (فَہٰذَا یَوۡمُ الۡبَعۡثِ ) (۳۰:۵۶) اور یہ قیامت ہی کا دن ہے۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ: (فَبَعَثَ اللّٰہُ غُرَابًا یَّبۡحَثُ فِی الۡاَرۡضِ ) (۵:۳۱) اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کریدنے لگا۔ میں بَعَثَ بمعنی قَیَّضَ ہے۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا: (وَ لَقَدۡ بَعَثۡنَا فِیۡ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوۡلًا ) (۱۶:۳۶) اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا۔ جیساکہ دوسری آیت میں: (اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا) (۲۳:۳۸) فرمایا ہے اور آیت: (ثُمَّ بَعَثۡنٰہُمۡ لِنَعۡلَمَ اَیُّ الۡحِزۡبَیۡنِ اَحۡصٰی لِمَا لَبِثُوۡۤا اَمَدًا ) (۱۸:۱۲) پھر ان کو جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ (غار میں) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کی مقدار کس کو خوب یاد ہے۔ میں بَعَثْنَا کے معنی صرف (نیند سے) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے۔ (وَ یَوۡمَ نَبۡعَثُ فِیۡ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیۡدًا) (۱۶:۸۹) اور اس دن کو یاد کرو، جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے۔ (قُلۡ ہُوَ الۡقَادِرُ عَلٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَ عَلَیۡکُمۡ عَذَابًا مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ ) (۶:۶۵) کہہ دو کہ (اس پر بھی) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے عذاب بھیجے۔ (فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ ) (۲:۲۵۹) تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی (اور) سو برس تک (اس کو مردہ رکھا) پھر اس کو جلا اٹھایا۔ اور آیت کریمہ: (وَ ہُوَ الَّذِیۡ یَتَوَفّٰىکُمۡ بِالَّیۡلِ وَ یَعۡلَمُ مَا جَرَحۡتُمۡ بِالنَّہَارِ ثُمَّ یَبۡعَثُکُمۡ فِیۡہِ ) (۶:۶۰) اور وہی تو ہے جو رات کو (سونے کی حالت میں) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ے، پھر تمہیں دن کو اٹھا دیتا ہے۔ میں نیند کے متعلق توفی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث ا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت ہے۔ اور آیت کریمہ: (وَّ لٰکِنۡ کَرِہَ اللّٰہُ انۡۢبِعَاثَہُمۡ ) (۹:۴۶) لیکن خدا نے ان کا اٹھنا (اور نکلنا) پسند نہ کیا۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں۔
Words | Surah_No | Verse_No |
يَبْعَثُهُمُ | سورة الأنعام(6) | 36 |
يَبْعَثُهُمُ | سورة المجادلة(58) | 6 |
يَبْعَثُهُمُ | سورة المجادلة(58) | 18 |
يَّبْعَثَ | سورة الجن(72) | 7 |
يَّبْعَثَكَ | سورة بنی اسراءیل(17) | 79 |
يُبْعَثُوْنَ | سورة الأعراف(7) | 14 |
يُبْعَثُوْنَ | سورة الحجر(15) | 36 |
يُبْعَثُوْنَ | سورة النحل(16) | 21 |
يُبْعَثُوْنَ | سورة المؤمنون(23) | 100 |
يُبْعَثُوْنَ | سورة الشعراء(26) | 87 |
يُبْعَثُوْنَ | سورة النمل(27) | 65 |
يُبْعَثُوْنَ | سورة الصافات(37) | 144 |
يُبْعَثُوْنَ | سورة ص(38) | 79 |
يُـبْعَثُ | سورة مريم(19) | 15 |
يُّبْعَثُوْا | سورة التغابن(64) | 7 |
يَّبْعَثَ | سورة الأنعام(6) | 65 |
يَّبْعَثَ | سورة مومن(40) | 34 |