Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلْوَقُوْعُ:کے معنی کسی چیز کے ثابت ہونے اور نیچے گرنے کے ہیں۔چنانچہ محاورہ ہے۔وَقَعَ الطَّیْرُ وُقُوْعَا: پرند نیچے گرپڑا۔ اَلْوَاقِعَۃُ:اس واقعہ کو کہتے ہیں جس میں سختی ہو اور قرآن پاک میں اس مادہ سے جس قدر مشتقات استعمال ہوئے ہیں وہ زیادہ تر عذاب اور شدائد کے واقع ہونے کے متعلق استعمال ہوئے ہیں۔چنانچہ فرمایا:۔ (اِذَا وَقَعَتِ الۡوَاقِعَۃُ لَیۡسَ لِوَقۡعَتِہَا کَاذِبَۃٌ) (۵۶۔۱،۲) جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے اس کے واقع ہونے میں کچھ جھوٹ نہیں۔ (سَاَلَ سَآئِلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ ) (۷۰۔۱) ایک طلب کرنے والے نے عذاب طلب کیا۔جو نازل ہوکر رہے گا۔ (فَیَوۡمَئِذٍ وَّقَعَتِ الۡوَاقِعَۃُ ) (۶۹۔۱۵) تو اس روز ہو پڑنے والی (یعنی قیامت) ہو پڑے گی۔اور کسی قول کے وقوع سے اس کے متضمن (مفہوم) کا واقع ہوجانا مراد ہوتا ہے۔چنانچہ قرآن پاک میں ہے:۔ (وَ وَقَعَ الۡقَوۡلُ عَلَیۡہِمۡ بِمَا ظَلَمُوۡا) (۲۷۔۸۵) اور ان کے ظلم کے سبب ان کے حق میں وعدہ عذاب پورا ہوکر رہے گا۔یعنی ان پر وہ عذاب اترپڑا جس کا کہ ان کے ظلم کے سبب ان سے وعدہ کیا گیا تھا نیز فرمایا:۔ (وَ اِذَا وَقَعَ الۡقَوۡلُ عَلَیۡہِمۡ اَخۡرَجۡنَا لَہُمۡ دَآبَّۃً مِّنَ الۡاَرۡضِ ) (۲۷۔۸۲) اور جب انکے بارے میں عذاب کا وعدہ پورا ہوجائے گا تو ہم ان کے لئے زمین سے ایک جانور نکالیں گے۔یعنی جب ان علامات قیامت کا ظہور ہوجائے گا جو پہلے بیان ہوچکی ہیں۔ (قَالَ قَدۡ وَقَعَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ رِجۡسٌ وَّ غَضَبٌ) (۷۔۷۱) ہود علیہ السلام نے کہا کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر عذاب اور غضب کا نازل ہونا مقرر ہوچکا ہے۔نیز فرمایا:۔ (اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنۡتُمۡ بِہٖ) (۱۰۔۵۱) کیا جب وہ آواقع ہوگا تب اس پر ایمان لاؤگے۔ (فَقَدۡ وَقَعَ اَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ) (۴۔۱۰۰) تو اس کا ثواب خدا کے ذمے ہوچکا۔یہاں لفظ وقوع کا استعمال محض تو کیدوجوب کے لئے ہے معنی اس کے بغیر ہی صحیح ہوسکتے تھے جیسا کہ آیت:۔ (وَ کَانَ حَقًّا عَلَیۡنَا نَصۡرُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ) (۳۰۔۴۷) اور مومنوں کی مدد ہم پر لازم تھی۔اور آیت:۔ (کَذٰلِکَ ۚ حَقًّا عَلَیۡنَا نُنۡجِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ) (۱۰۔۱۰۳) اس طرح ہمارا ذمہ ہے کہ مسلمانوں کو نجات دیں۔میں حَقٌ کا لفظ محض توکید کے لئے استعمال ہوا ہے ورنہ یہ معنی علینا سے بھی مفہوم ہوسکتا تھا اور آیت:۔ (فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ) (۱۵۔۲۹) تو اس کے آگے سجدے میں گرپڑنا۔میں قَعُوْا کا لفظ مبادرت اِلَی السُّجُوْدِ کے معنی کو ظاہر کرتا ہے۔وَقَعَ الْمَطْرُ:بارش ہونا مَوَاقِعُ الْغَیْثِ:جن مقامات پر بارش برسی ہو۔ (1) اَلْمَوَاقَعَۃُ:باہم جنگ کرنا۔نیز کنایہ کے طور پر اس کے معنی عورت سے مجامعت کے بھی آتے ہیں اَلْاِیْقَاع: (افعال) واقع کرنا۔سخت معرکہ قائم کرنا۔اور کنایۃ وَقْعَۃٌ کے معنی جنگ بھی آتے ہیں (والجمع وقائع) ۔ وَقْعُ الْحَدِیْدِ:لوہے کی آواز (تلواروں کے کھٹکھٹانے کی آواز) محاورہ ہے۔وَقَعْتُ الْحَدِیْدَۃَ (ف) وَقْعَا مِیْقَعَۃ:یعنی سان پر تلوار وغیرہ کا تیز کرنا۔نیز وقع کا لفظ سقوط شدید یعنی دھماکہ پر بھی بولا جاتا ہے اور اسی سے اَلْوَقِیْعَۃُ (فی الانسان) ہے جس کے معنی کسی کی غیبت کرنے کے ہیں۔اور اَلْحَافِرُ الْوَاقِعُ:اس گھوڑے کو کہتے ہیں جس کے سم سنگستان میںچلنے سے گھس گئے ہوں۔ اَلْوَاقِیْعَۃُ: (ایضاً) وہ جگہ جہاں بارش کا پانی ٹھہر جاتا ہو (والجمع الوقائع) مَوْقِعٌ:پرند کا مستقر (ج مَوَاقِعُ) ۔ اَلتَّوْقِیْعُ:سواری کی پیٹھ میں زخم کے نشان کو کہتے ہیں اسی طرح کتاب پر نشان لگانے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اسی سے التَّوْقِیْعُ کے معنی کسی چیز کا گمان کرنا بھی آتے ہیں۔

Words
Words Surah_No Verse_No
الْوَاقِعَةُ سورة الواقعة(56) 1
الْوَاقِعَةُ سورة الحاقة(69) 15
بِمَوٰقِعِ سورة الواقعة(56) 75
تَقَعَ سورة الحج(22) 65
فَقَعُوْا سورة الحجر(15) 29
فَقَعُوْا سورة ص(38) 72
فَوَقَعَ سورة الأعراف(7) 118
لَوَاقِعٌ سورة الطور(52) 7
لَوَاقِـعٌ سورة المرسلات(77) 7
لَوَاقِــعٌ سورة الذاريات(51) 6
لِوَقْعَتِهَا سورة الواقعة(56) 2
مُّوَاقِعُوْهَا سورة الكهف(18) 53
وَاقِعٌۢ سورة الأعراف(7) 171
وَاقِـــعٌۢ سورة الشورى(42) 22
وَقَعَ سورة النساء(4) 100
وَقَعَ سورة الأعراف(7) 71
وَقَعَ سورة الأعراف(7) 134
وَقَعَ سورة يونس(10) 51
وَقَعَ سورة النمل(27) 82
وَقَعَتِ سورة الواقعة(56) 1
وَوَقَعَ سورة النمل(27) 85
وَّاقِعٍ سورة المعارج(70) 1
وَّقَعَتِ سورة الحاقة(69) 15
يُّوْقِعَ سورة المائدة(5) 91