Blog
Books
Search Quran
Lughaat

ثَوْبٌ کا اصل معنی کسی چیز کے اپنی اصلی حالت کی طرف لوت آنا کے ہیں یا غوروفکر سے جو حالت مقدر اور مقصود ہوتی ہے، اس تک پہنچ جانا کے ہیں۔ چنانچہ حکماء کے اس قول اَوَّلُ الْفِکْرَۃِ اٰخِر الْعَمل میں اسی حالت کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی آغاز فکر ہی انجام عل بنتا ہے۔ چنانچہ اوّل معنی کے لحاظ سے کہا جاتا ہے۔ ثَابَ فُلَانٌ اِلٰی دَارِہٖ: فلاں اپنے گھر کو لوٹ آیا۔ ثَابَتْ اِلَیَّ نَفْسِیْ: میری سانس میری طرف لوٹی اور کنوئیں کے منہ پر جو پانی پلانے کی جگہ بنائی جاتی ہے، اسے مَثَابَۃٌ کہا جاتا ہے اور غوروفکر سے حالت مقدرہ مقصود تک پہنچ جانے اعتبار سے کپڑے کو ثَوْبٌ کہا جاتا ہے، کیونکہ سوت کاتنے سے غرض کپڑا بننا ہوتا ہے، لہٰذا کپڑا بن جانے پر گویا سوت اپنی حالت مقصودہ کی طرف لوٹ آتا ہے۔ یہی معنی ثواب العمل کا ہے۔ او رثَوْبٌ کی جمع اَثْوَابٌ وَثِیَبٌ آتی ہے اور آیت کریمہ: (وَ ثِیَابَکَ فَطَہِّرۡ ۪) (۷۴:۴) اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔ میں بعض نے ثِیَابَ سے اس کے حقیقی معنی یعنی کپڑے پاک رکھنا مراد لیا ہے(1) اور بعض نے کہا ہے کہ ثِیَاب سے (کنایۃ) نفس مراد ہے(2) (یعنی نفس کو رذائل سے پاک رکھنا مراد ہے) جیساکہ شاعر نے کہا ہے(3) (طویل) (۸۳) ثِیَابُ بَنِیْ عَوْفٍ طَھَارٰی نَقِیَّۃً کہ بنی عوف کے نفوس پاک و صاف ہیں۔ اسی طہارت نفسانی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: (اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا ) (۳۳:۳۳) (اے پیغمبر کے اہل بیت! خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دور کردے اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے۔ اَلثَّوَابُ: انسان کے عمل کی جو جزا انسان کی طرف لوٹتی ہے اسے ثواب کہا جاتا ہے۔ اس تصور پر کہ وہ جزا گویا عین عمل ہی ہے، حتی کہ اﷲ تعالیٰ نے آیت: (فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ) (۵۹:۷) تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ میں جزا کو نفس عمل ہی قرار دیا ہے اس لیے یہاں یَرَ جَزَآئَ ہٗ نہیں کہا حالانکہ مراد یہی ہے۔ گو لغوی اعتبار سے ثَوَابٌ کا لفظ خیروشر دونوں قسم کی جزا پر بولا جاتا ہے، لیکن اکثر اور متعارف استمعال نیک اعمال کی جزا پر ہے، چنانچہ فرمایا: (ثَوَابًا مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عِنۡدَہٗ حُسۡنُ الثَّوَابِ) (۳:۱۹۵) (یہ) خدا کے ہاں سے بدلہ ہے اور خدا کے ہاں اچھا بدلہ ہے۔ (فَاٰتٰىہُمُ اللّٰہُ ثَوَابَ الدُّنۡیَا وَ حُسۡنَ ثَوَابِ الۡاٰخِرَۃِ ) (۳:۱۴۸) تو خدا نے ان کو دنیا میں بھی بدلہ دیا اور آخرت میں بھی بہت اچھا بدلہ (دے گا) ۔ اسی طرح لفظ مَثُوْبَۃٌ بھی زیادہ تر جزائے خیر پر بولا جاتا ہے۔ اور آیت کریمہ: (قُلۡ ہَلۡ اُنَبِّئُکُمۡ بِشَرٍّ مِّنۡ ذٰلِکَ مَثُوۡبَۃً عِنۡدَ اللّٰہِ) (۵:۶۰) کہو کہ میں تمہیں بتاؤں کہ خدا کے ہاں اس سے بھی بدتر جزا پانے والے کون ہیں۔ میں جزائے بَد کے لیے مَثُوْبَۃً کا بطور استعارہ استعمال ہوا ہے جیساکہ عذاب کے متعلق استعارہ استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ جزائے خیر کے متعلق فرمایا: (وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اٰمَنُوۡا وَ اتَّقَوۡا لَمَثُوۡبَۃٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ خَیۡرٌ ) (۲:۱۰۳) اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو خدا کے ہاں سے بہت اچھا صلہ ملتا۔ اَلْاِثَابَۃُ: (افعال) کے معنی بھی جزا دینے کے ہیں۔ جیسے فرمایا: (فَاَثَابَہُمُ اللّٰہُ بِمَا قَالُوۡا جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ) (۵:۸۵) تو خدا نے ان کو ان کے کہنے کے عوض (بہشت کے) باغ عطا فرمائے، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ اور آیت کریمہ: (فَاَثَابَکُمۡ غَمًّۢا بِغَمٍّ ) (۳:۱۵۳) تو خدا نے تم کو غم پر غم پہنچایا۔ میں بری جزا کو ثواب قرار دینا بطور استعارہ ہے، جیساکہ پہلے گزرچکا ہے۔ اَلتَّثْوِیْبُ: (تفعیل) قرآن پاک میں: لفظ صرف بری جزا کے لیے استعمال ہوا ہے، جیسے فرمایا: (ہَلۡ ثُوِّبَ الۡکُفَّارُ ) (۸۳:۳۶) تو کافروں کو پورا پورا بدلہ مل گیا۔ اور آیت کریمہ: (وَ اِذۡ جَعَلۡنَا الۡبَیۡتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ ) (۲:۱۲۵) اور جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے لیے جمع ہونے کی جگہ مقرر کیا۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ مَثَابَۃ کے معنی جائے ثواب کے ہیں اور خانہ کعبہ کو مَثَابَۃٌ اس لیے کہا ہے کہ وہاں ثواب اعمال لکھا جاتا ہے۔ اَلثَّیِّبُ: بیوہ یا مطلقہ عورت کو کہا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ بھی خاوند سے جدا ہوکر (گویا پہلی حالت کی طرف) لوٹ آتی ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (ثَیِّبٰتٍ وَّ اَبۡکَارًا) (۶۶:۵) بن شوہر اور کنواریاں۔ اَلتَّبْوِیْبُ کے معنی باربار منادی کرنے کے ہیں، اسی سے تَثْوِیْبُ فِی الْاَذَان ہے (یعنی فجر کی اذان میں حَیَّعَلَتَیْنِ کے بعد اَلصَّلَوٰۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ کہنا) ۔ ثَوْبَاء: (غشی) کیونکہ وہ بھی دورہ کے ساتھ باربار طاری ہوتی ہے۔ اَلثُّبَۃُ: جماعت کیونکہ اس کے افراد بھی بظاہر ایک دوسرے کی طرف لوٹتے ہیں، قرآن میں ہے: (فَانۡفِرُوۡا ثُبَاتٍ اَوِ انۡفِرُوۡا جَمِیۡعًا ) (۴:۷۱) شاعر نے کہا ہے(4) وَقَدْ اغد وعلی ثبۃ کرام۔ ثبۃ الحوض: حوض کا وسط جس کی طرف پانی لوٹ کر آتا ہے اور پہلے گزرچکا ہے۔

Words
Words Surah_No Verse_No
الثَّوَابُ سورة الكهف(18) 31
الثَّوَابِ سورة آل عمران(3) 195
ثَوَابًا سورة آل عمران(3) 195
ثَوَابًا سورة الكهف(18) 44
ثَوَابًا سورة الكهف(18) 46
ثَوَابًا سورة مريم(19) 76
ثَوَابَ سورة آل عمران(3) 145
ثَوَابَ سورة آل عمران(3) 145
ثَوَابَ سورة آل عمران(3) 148
ثَوَابَ سورة النساء(4) 134
ثَوَابُ سورة النساء(4) 134
ثَوَابُ سورة القصص(28) 80
ثَوَابِ سورة آل عمران(3) 148
ثُوِّبَ سورة المطففين(83) 36
ثِيَابًا سورة الكهف(18) 31
ثِيَابٌ سورة الحج(22) 19
ثِيَابَكُمْ سورة النور(24) 58
ثِيَابَهُمْ سورة نوح(71) 7
ثِيَابَهُنَّ سورة النور(24) 60
ثِيَابَھُمْ سورة هود(11) 5
ثِيَابُ سورة الدھر(76) 21
فَاَثَابَكُمْ سورة آل عمران(3) 153
فَاَثَابَهُمُ سورة المائدة(5) 85
لَمَثُوْبَةٌ سورة البقرة(2) 103
مَثَابَةً سورة البقرة(2) 125
مَثُوْبَةً سورة المائدة(5) 60
وَاَثَابَهُمْ سورة الفتح(48) 18
وَثِيَابَكَ سورة المدثر(74) 4