Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلْحَجُّ: (ن) کے اصل معنیٰ کسی کی زیارت کا قصد اور ارادہ کرنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے۔ (1) (طویل) (۹۹) یَحُجُّونَ بَیْتَ الزِّبْرِ قَانِ الْمُعَصْفَرا وہ زبرقبان کے زرد رنگ کے عمامہ کی زیارت کرتے ہیں۔ اور اصلاح شریعت میں اقامت نسک کے ارادہ سے بیت اﷲ کا قصد کرنے کا نام حج ہے۔ اَلْحَجُّ: (بفتح الحا) مصدر ہے اور اَلْحِجُّ (بکسرالحا) اسم ہے اور آیت کریمہ: (یَوۡمَ الۡحَجِّ الۡاَکۡبَرِ ) (۹:۳) میں حج اکبر سے مراد یوم نحر یا یوم عرفہ ہے۔ ایک روایت میں ہے(2) (۷۳) اَلْعُمْرَۃُ الْحَجُّ الْاَصْغَرُ: عمرہ حج اصغر ہے۔ اَلْحُجَّۃُ: اس دلیل کو کہتے ہیں جو صحیح مقصد کی وصاحت کرے اور نقیضین میں سے ایک کی صحت کی مقتضی ہو۔ قرآن پاک میں ہے: (قُلۡ فَلِلّٰہِ الۡحُجَّۃُ الۡبَالِغَۃُ) (۶:۱۴۹) کہہ دو کہ خدا ہی کی حجت غالب ہے۔ ( لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَیۡکُمۡ حُجَّۃٌ ٭ۙ اِلَّا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡہُمۡ) (۲:۱۵۰) (یہ تاکید) اس لئے (کی گئی ہے) کہ لوگ تم کو کسی طرح کا الزام نہ لگاسکیں۔ مگر ان میں سے جو ظالم ہیں (وہ الزام دیں تو دیں۔ اس آیت میں ظالموں کے احتجاج کو حجۃ سے مستثنٰی کیا ہے گو اصولاً وہ حجت میں داخل نہیں ہے۔ پس یہ استشہاد ایسا ہی ہے جیساکہ شاعر نے کہا ہے(3) (طویل) (۱۰۰) وَلَا عَیْبَ فِیْھِمْ غَیْرَ اَنَّ سُیُوفَھُمْ بِھِنَّ فُلُولٌ مِنْ قِرَاعِ الْکِتَائِبِ۔ ان میں صر ف یہ عیب پایا جاتا ہے کہ لشکروں کے ساتھ لڑنے سے ان کی تلواروں پر دندانے پڑے ہوئے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے اس احتجاج کو حجت قرار دینا ایسا ہی ہو۔ جیساکہ آیت: (وَ الَّذِیۡنَ یُحَآجُّوۡنَ فِی اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا اسۡتُجِیۡبَ لَہٗ حُجَّتُہُمۡ دَاحِضَۃٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ) (۴۲:۱۶) اور جو لوگ خدا کے بارے میں بعد اس کے کہ اسے مومنوں نے مان لیا ہو، جھگڑتے ہیں ان کے پروردگار کے نزدیک ان کا جھگڑا لغو ہے۔ میں ان کے باطل جھگڑے کو حجت قرار دیا گیا ہے اور آیت کریمہ: (لَا حُجَّۃَ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ) (۴۲:۱۵) اور ہم میں اور تم میں کچھ بحث و تکرار نہیں ہے۔ کے معنیٰ یہ ہیں کہ ظہور بیان کی وجہ سے بحث و تکرار کی ضرورت نہیں ہے۔ اَلْمُحاجَّۃُ: اس جھگڑے کو کہتے ہیں جس میں ہر ایک دوسرے کو اس کی دلیل اور مقصد سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ حَآجَّہٗ قَوۡمُہٗ ؕ قَالَ اَتُحَآجُّوۡٓنِّیۡ فِی اللّٰہِ ) (۶:۸۰) اور ان کی قوم ان سے بحث کرنے لگی تو انہو ںنے کہا کہ تم مجھ سے خدا کے بارے میں (کیا بحث کرتے ہو۔) (فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ) (۳:۶۱) پھر اگر یہ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم کو حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چکی ہے۔ (لِمَ تُحَآجُّوۡنَ فِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ ) (۳:۶۵) تم ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو۔ (ہٰۤاَنۡتُمۡ ہٰۤؤُلَآءِ حَاجَجۡتُمۡ فِیۡمَا لَکُمۡ بِہٖ عِلۡمٌ ) (۳:۶۶) دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا جس کا تمہیں کچھ علم تھا بھی مگر ایسی بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تم کو کچھ بھی علم نہیں۔ (وَ اِذۡ یَتَحَآجُّوۡنَ فِی النَّارِ ) (۴۰:۴۷) اور جب وہ دوزخ میں جھگڑیں گے۔ اور حَجُّ کے معنیٰ زخم کی گہرائی ناپنا بھی آتے ہیں۔ شاعر نے کہا ہے (4) (البسیط) یَحُجُّ مَأْ مُوْمَۃً فِیْ مَعْرِھَا لَجَفٌ وہ سر کے زخم کو سلائی سے ناپتا ہے جس کا قطر نہایت وسیع ہے۔

Words
Words Surah_No Verse_No
الْحَاۗجِّ سورة التوبة(9) 19
الْحَجَّ سورة البقرة(2) 196
الْحَجَّ سورة البقرة(2) 197
الْحَجِّ سورة البقرة(2) 196
الْحَجِّ سورة البقرة(2) 196
الْحَجِّ سورة البقرة(2) 197
الْحَجِّ سورة التوبة(9) 3
الْحُجَّةُ سورة الأنعام(6) 149
اَتُحَاۗجُّوْنَـــنَا سورة البقرة(2) 139
اَتُحَاۗجُّوْۗنِّىْ سورة الأنعام(6) 80
اَلْحَجُّ سورة البقرة(2) 197
بِالْحَجِّ سورة الحج(22) 27
تُحَاۗجُّوْنَ سورة آل عمران(3) 65
تُحَاۗجُّوْنَ سورة آل عمران(3) 66
حَاجَجْتُمْ سورة آل عمران(3) 66
حَاۗجَّ سورة البقرة(2) 258
حَاۗجَّكَ سورة آل عمران(3) 61
حَاۗجُّوْكَ سورة آل عمران(3) 20
حَجَّ سورة البقرة(2) 158
حُجَّةَ سورة الشورى(42) 15
حُجَّتُنَآ سورة الأنعام(6) 83
حُجَّــةٌ سورة البقرة(2) 150
حُجَّــةٌۢ سورة النساء(4) 165
حُجَّــتُهُمْ سورة الشورى(42) 16
حُجَّـــتَهُمْ سورة الجاثية(45) 25
حِجَجٍ سورة القصص(28) 27
حِجُّ سورة آل عمران(3) 97
لِيُحَاۗجُّوْكُمْ سورة البقرة(2) 76
وَالْحَجِّ سورة البقرة(2) 189
وَحَاۗجَّهٗ سورة الأنعام(6) 80
يَتَـحَاۗجُّوْنَ سورة مومن(40) 47
يُحَاۗجُّوْكُمْ سورة آل عمران(3) 73
يُحَاۗجُّوْنَ سورة الشورى(42) 16