Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلْبَطَنُ: اصل میں بَطَنٌ کے معنی پیٹ کے ہیں، اس کی جمع بُطُوْنٌ آتی ہے، قرآن پاک میں ہے: (وَ اِذۡ اَنۡتُمۡ اَجِنَّۃٌ فِیۡ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ ) (۵۳:۳۲) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے۔ بَطَّنْتُہٗ: میں نے اس کے پیٹ پر مارا۔ اَلْبَطْن: ہر چیز میں ظَھْرٌ کی ضد ہے اور ہر چیز کی نیچے کی جہت کو بطن اور اوپر کی جہت کو ظھرٌ کہا جاتا ہے اسی سے بطورِ تشبیہ کہا جاتا ہے۔ بَطْنُ الْاَمْرِ (کسی معاملہ کا اندرون) بَطْنُ الْوَادِیْ (وادی کا نشیبی حصہ) اور بطن بمعنی قبیلہ بھی آتا ہے اس اعتبار سے کہ تمام عرب کو بمنزلہ ایک شخص کے فرض کیا جائے اور ہر قبیلہ بمنزلہ بطن فخذ اور کاہل (کندھا) وغیرہ اعضاء کے تصور کیا جائے۔ اسی بنا پر شاعر نے کہا ہے(1) (ع) (سریع) (۵۷) اَلنَّاسُ جِسْمٌ وَاِمَامُ الْھُدٰی، رَأْسٌ وَاَنْتَ الْعَیْنُ فِی الرَّأسِ۔ کہ لوگ بمنزلہ جسم اور امام ہدی بمنزلہ سر ہے، مگر تم سر میں آنکھ ہو۔ اور ہر پیچیدہ معاملہ کو بطن اور جلی اور عیاں کو ظہر کہا جاتا ہے۔ اسی سے بُطْنَانُ الْقِدْرِ وَظَھْرَانُھَا کا محاورہ ہے۔ یعنی دیگ کی اندرونی اور بیرونی جانب۔ ہر اس چیز کو جس کا خاصہ بصر سے ادراک ہوسکے اسے ظاہر اور جس کا خاصہ بصر سے ادراک نہ ہوسکے اسے باطن کہا جاتا ہے، قرآن پاک میں ہے: (وَ ذَرُوۡا ظَاہِرَ الۡاِثۡمِ وَ بَاطِنَہٗ ) (۶:۱۲۰) اور ظاہری اور پوشیدہ (ہر طرح کا) گناہ ترک کردو۔ (مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ مَا بَطَنَ ) (۷:۳۳) ظاہری ہوں یا پوشیدہ۔ اَلْبَطِیْنُ: کلاں شکم، اَلْبَطِنُ: بسیار خور۔ اَلْمَبْطَانِ: جس کا بسیار خوری سے پیٹ بڑھ گیا ہو۔ اَلْبِطْنَۃُ: بسیارخوری۔ مثل مشہور ہے۔ اَلْبِطْنَۃُ تُذْھِبُ الْفِطْنَۃَ(2) بسیارخوری ذہانت ختم کردیتی ہے۔ بَطَنَ الرَّجُلُ بَطْنًا: شکم پروری اور بسیارخوری سے اترا جانا۔ بَطُنَ (ک) الرَّجُلُ: بڑے پیٹ والا ہونا۔ مُبَطَّنٌ: پچکے ہوئے پیٹ والا۔ بُطِنَ الرَّجُلُ: مرض شکم میں مبتلا ہونا۔ اس سے صیغہ صفت مفعولی مَبْطُوْنٌ (مریض شکم) آتا ہے۔ اَلْبِطَانَۃَ: کے معنی کپڑے کا استر یا اس کے اندرونی حصہ کے ہیں اور اس کی ضد ظَھَارَۃٌ ہے۔ (3) جس کے معنی کپڑے کا اوپر کا حصہ یا ابرہ کے ہیں اور بَطَّنْتُ ثَوْبِیْ بِاٰخَرَ کے معنی ہیں: میں نے ایک کپڑے کو دوسرے کے نیچے لگایا۔ بَطَنَ فُلَانٌ بِفُلَانٍ کسی شخص کے اندرونی معاملات سے واقف ہونا اور بطورِ استعارہ اَلْبِطَانَۃ کا لفظ ہر اس شخص پر بولا جاتا ہے جو دوسرے کا رازدان ہو، چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَۃً مِّنۡ دُوۡنِکُمۡ ) (۳:۱۱۸) کسی غیر (مذہب کے آدمی) کو اپنا رازدان نہ بنانا اور بطانۃ الثوب سے استعارہ ہے، کیونکہ اسی معنی میں لَبِسْتُ فُلَانًا وَفُلَانٌ شِعَارِیْ وَدِثَارِیْ بھی کہا جاتا ہے ایک حدیث میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: (4) (۳۳) مَابَعَثَ اﷲُ مِنْ نَّبِیٍّ وَلَا اسْتَخْلَفَ مِنْ خَلِیْفَۃٍ اِلَّا کَانَتْ لَہٗ بِطَانَتَانِ بِطَانَۃٌ تَأْمُرُہٗ بِالْخَیْرِِ وَتَحُضُّہٗ عَلَیْہِ وَبِطَانَۃٌ تَأمُرُہٗ بِالشَّرِّ وَتحَثُّہٗ عَلَیْہِ۔ کہ اﷲ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا اور نہ کسی کو خلیفہ بنایا ہے مگر ہمیشہ اس کے دو رازدان رہے ہیں ایک رازدار اسے خیر ا مشورہ اور اس کی ترغیب دیتا رہا ہے اور دوسرا اسے شر کا مشورہ اور اسی پر اکساتا رہا ہے۔ اَلْبِطَانُ: تنگ جس سے جانور کا پالان کسا جاتا ہے۔ وَالجمع اَبْطِنَۃٌ وَبُطَنٌ۔ اَلْاَبْطِنَان پیت کی دو رگیں۔ اَلْبَطَیْنُ۔ ستارہ جو برج حمل کے لیے بمنزلہ شکم کے ہے وآں سہ ستارۂ خرداست کہ برصورت ویگ پایہا واقع شدہ) ۔ اَلتَّبَطُّنُ: (تفعل) کسی معاملہ کی تہ تک پہنچنا۔ (اَلظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ) (۵۷:۳) صفات الٰہی سے ہیں۔ اور اَلْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ کی طرح مزدوج یعنی ایک دوسرے کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔ اَلظَّاہِرُ کے متعلق بعض کا قول ہے کہ یہ اس معرفت کی طرف اشارہ ہے جو ہمیں بالبداہت حاصل ہوتی ہے، کیونکہ انسان جس چیز کی طرف بھی نظر اٹھا کر دیکھے اس کی فطرت کا یہی فیصلہ ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ موجود ہے، جیسے فرمایا: (وَ ہُوَ الَّذِیۡ فِی السَّمَآءِ اِلٰہٌ وَّ فِی الۡاَرۡضِ اِلٰہٌ ) (۴۳:۸۴) اور وہی (ایک) آسمانوں میں معبود ہے اور وہی زمین میں معبود ہے۔ اسی لیے بعض حکماء کا قول ہے کہ معرفت الٰہی کے طالب کی مثال اس شخص کی ہے جو اطراف عالم میں ایسی چیز کی تلاش میں سرگردان پھر رہا ہو۔ جو خود اس کے پاس موجود ہو۔ اور اَلْبَاطِنُ سے اس حقیقی معرفت کی طرف اشارہ ہے، جس کے متعلق حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا ہے: (۳۴) یَامَنْ غَایَۃُ مَعْرِفَتِہٖ القُصُوْرُ عَنْ مَعْرِفَتِہٖ اسے وہ ذات جس کی معرفت کی انتہا اس کی معرفت سے درماندگی ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اﷲ تعالٰی اپنی آیات (دلائل قدرت) کے لحاظ سے ظاہر ہے اور باعتبار ذات کے باطن ہے۔ اوربعض نے کہا کہ الظاھر سے اس کا تمام اشیاء پر محیط ہونا مراد ہے اور اس اعتبار سے کہ وہ ہمارے احاطہ ادراک میں نہیں آسکتا۔ اَلْبَاطِنُ ہے۔ چنانچہ فرمانِ الٰہی ہے: (لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ ۫ وَ ہُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ ) (۶:۱۰۳) (وہ ایسا ہے کہ) نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا یہ۔ حضرت علیؓ سے ایک مقولہ مروی ہے جس سے ان دونوں لفظوں کی تفسیر پر روشنی پڑتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں(5) (۳۵) تَجَلّٰی لِعِبَادِہٖ غَیْرِ اَنْ رَأَوْہُ وَاَرَاھُمْ نَفْسَہٗ مِنْ غَیْرِ اَنْ تَجَلّٰی لَھُمْ کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر تجلی فرمائی بدوں اس کے کہ بندے اس کو دیکھ سکیں اور اپنی ذات کو دکھایا بدوں اس کے کہ ان کے سامنے جلوہ افروز ہو، مگر اس قول کو سمجھنے کے لیے فہم روشن اور عقل وافر کی ضرورت ہے۔ اور آیت کریمہ: (وَ اَسۡبَغَ عَلَیۡکُمۡ نِعَمَہٗ ظَاہِرَۃً وَّ بَاطِنَۃً ) (۳۱:۲۰) اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں۔ میں بعض نے کہا ہے کہ ’’ظَاھِرَۃً‘‘ سے نبوت اور بَاطِنَۃً سے عقل مراد ہے اور بعض نے ظَاھِرَۃ سے محسوس نعمتیں مراد لی ہیں اور بَاطِنَۃً سے معقولات یعنی وہ نعمتیں مراد لی ہیں جن کا حِس سے ادراک نہیں ہوسکتا۔ اور بعض نے کہا ہے کہ ظَاھِرَۃً سے وہ غلبہ مراد ہے، جو دشمنوں پر انسانوں کے ذریعہ حاصل ہوا۔ اور باطنہ سے وہ غلبہ مراد ہے جو فرشتوں کے ذریعہ حاصل ہوا، لیکن آیت اپنے عموم کے اعتبار سے ان تمام اقوال کو شامل ہے۔

Words
Words Surah_No Verse_No
الْبُطُوْنَ سورة الصافات(37) 66
الْبُطُوْنَ سورة الواقعة(56) 53
الْبُطُوْنِ سورة الدخان(44) 45
بَاطِنُهٗ سورة الحديد(57) 13
بَطَاۗىِٕنُهَا سورة الرحمن(55) 54
بَطَنَ سورة الأنعام(6) 151
بَطَنَ سورة الأعراف(7) 33
بَطْنِهٖ سورة النور(24) 45
بَطْنِهٖٓ سورة الصافات(37) 144
بَطْنِىْ سورة آل عمران(3) 35
بُطُوْنِ سورة الأنعام(6) 139
بُطُوْنِ سورة النحل(16) 78
بُطُوْنِ سورة الزمر(39) 6
بُطُوْنِ سورة النجم(53) 32
بُطُوْنِهَا سورة النحل(16) 69
بُطُوْنِهَا سورة المؤمنون(23) 21
بُطُوْنِهِمْ سورة البقرة(2) 174
بُطُوْنِهِمْ سورة الحج(22) 20
بُطُوْنِهٖ سورة النحل(16) 66
بُطُوْنِھِمْ سورة النساء(4) 10
بِبَطْنِ سورة الفتح(48) 24
بِطَانَةً سورة آل عمران(3) 118
وَالْبَاطِنُ سورة الحديد(57) 3
وَبَاطِنَهٗ سورة الأنعام(6) 120
وَّبَاطِنَةً سورة لقمان(31) 20