اَلْقِلَّۃُ وَالکثرۃ : بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عِظَم اور صِغَر صفات اجسام سے ہیں بعدہ کثرت و قلت اور عظم و صغر میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ : (ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوۡنَکَ فِیۡہَاۤ اِلَّا قَلِیۡلًا) (۳۳۔۶۰) پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن۔میں قَلَیْلًا سے عرصہ قلیل مراد ہے۔اسی طرح فرمایا : (قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ) (۷۳۔۲) رات کو قیام کرو،مگر تھوڑی رات۔ (وَ اِذًا لَّا تُمَتَّعُوۡنَ اِلَّا قَلِیۡلًا) (۳۳۔۱۶) اور اس وقت تم بہت ہی کم فائدہ اٹھاؤگے۔ (نُمَتِّعُھُمْ قَلَیلْاً) (۱۳۔۲۴) ہم ان کو تھوڑا سا فائدہ پہنچائیں گے۔اور آیت کریمہ : (مَّا قٰتَلُوۡۤا اِلَّا قَلِیۡلًا) (۳۳۔۲۰) تو لڑائی نہ کریں مگر کم۔قَلِیْلًا مصدر محذوف کی صفت ہے یعنی قَتَالًا قَلِیْلا اور آیت کریمہ : (وَ لَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَآئِنَۃٍ مِّنۡہُمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا) (۵۔۱۳) اور تھوڑے آدمیوں کے سوا ہمیشہ ان کی (ایک نہ ایک) خیانت کی خبر پاتے رہتے ہو۔قَلَیْلًا سے مراد تھوڑی سی جماعت اور یہی معنی آیت کریمہ : (اِذۡ یُرِیۡکَہُمُ اللّٰہُ فِیۡ مَنَامِکَ قَلِیۡلًا) (۸۔۴۳) اس وقت خدا نے تمہیں خواب میں کافروں کو تھوڑی تعداد میں دکھایا : (وَّ یُقَلِّلُکُمۡ فِیۡۤ اَعۡیُنِہِمۡ ) (۸۔۴۴) اور کافروں کو تمہاری نظروں میں تھوڑا کرکے دکھاتا تھا میں مراد ہے اور شاعر کے قول (1) (۳۵۷) (وَلَسْتَ بِاالْاَکْثَرِمِنْہُ حَصاً وَاِنَّمَا الْعِزَّۃُ لِلکَکَاثِرِ) اور تم تعداد میں ان سے زیادہ نہیں ہو اور عزت صرف کثیر التعداد کے لئے ہے۔کے پیش نظر کبھی قلت کا لفظ بطور کنایہ ذلت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے چنانچہ اس معنی میں فرمایا۔ (وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ کُنۡتُمۡ قَلِیۡلًا فَکَثَّرَکُمۡ) (۷۔۸۶) اس وقت کو یاد کرو جب تم تھوڑے سے تھے تو خدا نے تم کو جماعت کثیر بنادیا۔اور آیت کریمہ : (وَ قَلِیۡلٌ مِّنۡ عِبَادِیَ الشَّکُوۡرُ) (۳۴۔۱۳) اور میرے بندوں میں شکرگزار تھوڑے ہیں۔اور آیت : (وَقَلِیْلٌ مَّاھُمْ) (۳۸۔۲۴) اور ایسے لوگ بہت کم ہیں۔میں قلیل کا لفظ بطور عزت و احترام کے استعمال ہوا ہے اس لئے کہ جتنی کوئی چیز زیادہ عزیز القدر ہو اتنی ہی کمیاب ہوتی ہے اور آیت کریمہ : (وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلًا) (۱۷۔۸۵) اور تم لوگوں کو بہت ہی کم علم دیا گیا ہے میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ مَآاُوتِیْتُمْ سے مستثنیٰ ہو یعنی تم میں سے بہت لوگ ایسے ہیں جنہیں اس کا علم دیا گیا ہے اور یہ بھی کہ قَلِیْلاً مصدر مخذوف کی صفت ہو یعنی تمہیں اس کے متعلق علم قلیل (تھوڑا سا علم) دیا گیا ہے۔اور آیت کریمہ : (وَ لَا تَشۡتَرُوۡا بِاٰیٰتِیۡ ثَمَنًا قَلِیۡلًا) (۲۔۴۱) اور میری آیتوں (میں تحریف کرکے ان) کے بدلے تھوڑی سی قیمت (یعنی دنیاوی منفعت) نہ حاصل کرو۔میں قلیل سے مراد دنیوی مال و متاع ہے کیونکہ دنیوی مال و متاع خواہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو اخروی نعمتوں کے مقابلہ میں جو حق تعالیٰ نے متقین کے لئے تیار کی ہیں،نہایت ہی حقیر ہے اسی بناء پر فرمایا : (قُلۡ مَتَاعُ الدُّنۡیَا قَلِیۡلٌ) (۴۔۷۷) کہہ دو کہ دنیا کا فائدہ بہت تھوڑا ہے۔اور کبھی قلیل کا لفظ بول کر نفی کے معنی مراد لئے جاتے ہیں۔جیسے (قَلَّمَا یَفْعَلُ فُلَانٌ بِکذَا) کہ فلاں ایسا کام نہیںکرتا یہی وجہ ہے کہ نفی کی طرح اس کے بعد بھی استثناء لانا صحیح ہوتا ہے جیسے (قَلَّمَا یَفْعَلُ کَذَااِلَّا قَاعِدًا اَوْ قَائِمًا اَوْ مَا یَجْرِیْ مَجْرَاہُ) اور بعض نے آیت کریمہ : (قَلِیۡلًا مَّا تُؤۡمِنُوۡنَ ) (۶۹۔۴۱) لیکن تم لوگ بہت ہی کم ایمان لاتے ہو۔کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی وہ ایمان ہی نہیں لاتے اور بعض نے اس کے معنی (تُومِنُوْنَ اِیْمَانًا قَلِیْلاً) کیے ہیں۔یعنی وہ بہت کم ایمان لاتے ہیں اور ایمان قلیل سے مراد صرف زبان کے ساتھ اقرار اور سطحی سی معرفت حاصل کرنے کے ہیں جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : (وَ مَا یُؤۡمِنُ اَکۡثَرُہُمۡ بِاللّٰہِ اِلَّا وَ ہُمۡ مُّشۡرِکُوۡنَ) (۱۲۔۱۰۶) اور یہ اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔اَقْلَلْتُ کَذَا کے معنی کسی چیز کو ہلکا پانے کے ہیں کبھی یہ ہلکا سمجھنا محض حکمی ہوتا ہے۔ (اَقْلَلْتُ مَااَعْطَیْتَنِیْ) یعنی میں نے تمہارے دیئے ہوئے کو حقیر سمجھا اور کبھی اس شے کی قوت کے اعتبار سے ہوتا ہے جیسے فرمایا : ( اِذَاۤ اَقَلَّتۡ سَحَابًا ثِقَالًا) (۷۔۵۷) جب وہ بھاری بادلوں کو اٹھالاتی ہے۔یہاں اقلت کہہ کر اشارہ فرمایا ہے۔کہ وہ بادل جن کو اٹھاکر لاتی ہے اگرچہ فی نفسہ بھاری ہوتے ہیں مگر ہوا کی قوت کے اعتبار سے نہایت ہلکے ہیں۔اِسْتَقْلَلتُہ‘ : کسی چیز کو حقیر خیال کرنا جیسے اَسْتَخْفَفْتُہ‘ : کسی چیز کو ہلکا خیال کرنا۔اَلْقُلَّۃُ : ہر چیز کا بالائی حصہ۔اور قُلَّۃُ الْجَبَلِ : پہاڑ کی چوٹی کو کہتے ہیں کیونکہ باقی پہاڑ کے مقابلہ میں وہ قلیل سی ہوتی ہے۔تَقَلقَلَ الشَّیئُ کے معنی کسی چیز کے مضطرب ہونے کے ہیں اور تَقَلْقَلَ الْمِسمَارُ (میخ کا مضطرب ہونا) قَلْقَلَۃ سے مشتق ہے جس کے معنی کسی چیز کی حرکت کی آواز کو حکایت کرنے کے ہیں۔
Words | Surah_No | Verse_No |
قَلِيْلًا | سورة النجم(53) | 34 |
قَلِيْلًا | سورة الملك(67) | 23 |
قَلِيْلًا | سورة الحاقة(69) | 41 |
قَلِيْلًا | سورة الحاقة(69) | 42 |
قَلِيْلًا | سورة المزمل(73) | 2 |
قَلِيْلًا | سورة المزمل(73) | 3 |
قَلِيْلًا | سورة المزمل(73) | 11 |
قَلِيْلًا | سورة المرسلات(77) | 46 |
قَلِيْلٌ | سورة آل عمران(3) | 197 |
قَلِيْلٌ | سورة النساء(4) | 66 |
قَلِيْلٌ | سورة النساء(4) | 77 |
قَلِيْلٌ | سورة الأنفال(8) | 26 |
قَلِيْلٌ | سورة التوبة(9) | 38 |
قَلِيْلٌ | سورة هود(11) | 40 |
قَلِيْلٌ | سورة النحل(16) | 117 |
قَلِيْلٌ | سورة الكهف(18) | 22 |
قَلِيْلٍ | سورة المؤمنون(23) | 40 |
قَلِيْلٍ | سورة سبأ(34) | 16 |
قَلِيْلَةٍ | سورة البقرة(2) | 249 |
قَلِيْلُوْنَ | سورة الشعراء(26) | 54 |
قَلَّ | سورة النساء(4) | 7 |
وَقَلِيْلٌ | سورة سبأ(34) | 13 |
وَقَلِيْلٌ | سورة ص(38) | 24 |
وَقَلِيْلٌ | سورة الواقعة(56) | 14 |
وَّاَقَلُّ | سورة الجن(72) | 24 |
يُقَلِّلُكُمْ | سورة الأنفال(8) | 44 |