اَلْعَفْوُ: کے معنی کسی چیز کو لینے کا قصد کرنے کے ہیں۔ چنانچہ محاورہ ہے۔ عَفَاہُ وَاعْتَفَاہُ: کسی کے پاس جو کچھ ہے وہ لینے کا قصد کیا۔ عَفَتِ الرِّیْحُ الدَّارَ: ہوا نے گھر کے نشانات مٹا دئیے اسی معنی کے لحاظ سے شاعر نے کہا ہے۔(1) (۳۱۵) اَخَذَالْبَلٰی اٰیَاتِھَا بوسیدگی نے اس کے نشانات مٹا ڈالے۔ عَفَتِ الدَّارُ: گھر کے نشانات مٹ گئے۔ گویا ان آثار نے ازخود مٹ جانے کا قصد کیا۔ عَفَاالنَّبْتُ وَالشَّجَرُ نباتات اور درخت بڑھ گئے جیساکہ اَخَذَ النَّبْتُ فِی لزِّیَادَۃِ کا محاورہ ہے یعنی پودے نے بڑھنا شروع کیا۔ عَفَوْتُ عَنْہُ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ مٹادینے کا قصد کیا لہٰذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عَنْ کا متعلق مخذوف ہے۔ ای قَصَدْتُّ اِزَالَۃَ ذَنْبِہٖ صَارِفًا عَنْہُ پس عَفْوٌ کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (فَمَنۡ عَفَا وَ اَصۡلَحَ ) (۴۲:۴۰) مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے۔ (وَ اَنۡ تَعۡفُوۡۤا اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی) (۲:۲۳۷) اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیزگاری کی بات ہے۔ (ثُمَّ عَفَوۡنَا عَنۡکُمۡ ) (۲:۵۲) پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا۔ (اِنۡ نَّعۡفُ عَنۡ طَآئِفَۃٍ مِّنۡکُمۡ ) (۹:۶۶) اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف کردیں۔ (فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ ) (۵:۱۳) تو ان کی خطائیں معاف کردو۔ اور آیت کریمہ: (خُذِ الۡعَفۡوَ) (۷:۱۹۹) (اے محمد) عفو اختیار کرو۔ میں اَلْعَفْوَ ہر اس چیز کو کہا گیا ہے جس کا قصد کرنا اور لینا آسان ہو۔ اور بعض نے اس کے معنی کیے ہیں: درگزر کیجیے۔ اور آیت کریمہ: (وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ قُلِ الۡعَفۡوَ) (۲:۲۱۹) (اے محمد ﷺ) لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ اﷲ کی راہ میں کس طرح کا مال خرچ کریں کہہ دو جو چاہو خرچ کرو۔ میں عفو سے ہر وہ چیز مراد ہے جو ضروریات سے زائد ہو اور اس کے خرچ سے تکلیف نہ ہو اور اَعْطٰی عَفْوًا اس نے اسے بے مانگے دے دیا۔ یہاں عفوًا مصدر اسم فاعل کے معنی میں ہے اور حال واقع ہوا ہے یعنی بخشش کرتے وقت اس کی حالت یہ تھی کہ گویا خود لے رہا ہے اور ا سمیں سا عمدہ معنی کی طرف اشارہ ہے جسے شاعر نے بیان کرتے ہوئے کہا ہے۔(2) (الطّویل) (۳۱۶) کَاَنَّکَ تُعْطِیْہِ الَّذِیْ اَنْتَ سَائِلُہٗ یعنی جب سائل اس کے پاس آتا ہے تو اس طرح خوش ہوتا ہے گویا جو چیز تم اس سے لے رہے ہو وہ اسے دے رہے ہو۔ اور دعائے ماثورہ میں ہے۔(3) (۴۳) اَسْئَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ: یعنی اے اﷲ! تجھ سے عفو اور تندرستی طلب کرتا ہوں اور قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے اپنی ذات کو عَفُوٌّ کہا ہے۔ چنانچہ فرمایا: (اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا غَفُوۡرًا) (۴:۴۳) بے شک اﷲ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔ اور حدیث میں ہے(4) (۴۴) (مَااَکَلَتِ الْعَفِیَۃُ فَھُوَ صَدَقَۃٌ) یعنی کھیتی سے جو کچھ پرند، چرند اور ضرورت مند انسان کھاجائیں وہ صدقہ ہے۔ اَعْفَیْتُ کَذَا: یعنی میں نے اسے بڑھنے دیا۔ اسی سے ’’اُعْفُوا اللِّحٰی‘‘ ہے۔(5) (۴۵) یعنی ڈاڑھی کے بال بڑھنے دو۔ اَلْعِفَائُ: اون یا پرند کے پر جو بڑھ جائیں اور کسی سے دیگ مستعار ینے والا۔ جو شوربہ اس کی دیگ میں اسے بھیجتا ہے اس شوربہ کو اَلْمَعَافِیْ کہا جاتا ہے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
الْعَفْوَ | سورة البقرة(2) | 219 |
الْعَفْوَ | سورة الأعراف(7) | 199 |
تَعْفُوْا | سورة النساء(4) | 149 |
تَعْفُوْا | سورة التغابن(64) | 14 |
تَعْفُوْٓا | سورة البقرة(2) | 237 |
عَفَا | سورة آل عمران(3) | 152 |
عَفَا | سورة آل عمران(3) | 155 |
عَفَا | سورة المائدة(5) | 95 |
عَفَا | سورة المائدة(5) | 101 |
عَفَا | سورة التوبة(9) | 43 |
عَفَا | سورة الشورى(42) | 40 |
عَفَوْا | سورة الأعراف(7) | 95 |
عَفَوْنَا | سورة البقرة(2) | 52 |
عَفُوًّا | سورة النساء(4) | 43 |
عَفُوًّا | سورة النساء(4) | 99 |
عَفُوًّا | سورة النساء(4) | 149 |
عُفِيَ | سورة البقرة(2) | 178 |
فَاعْفُ | سورة آل عمران(3) | 159 |
فَاعْفُ | سورة المائدة(5) | 13 |
فَاعْفُوْا | سورة البقرة(2) | 109 |
فَعَفَوْنَا | سورة النساء(4) | 153 |
لَعَفُوٌّ | سورة الحج(22) | 60 |
لَعَفُوٌّ | سورة المجادلة(58) | 2 |
نَّعْفُ | سورة التوبة(9) | 66 |
وَاعْفُ | سورة البقرة(2) | 286 |
وَالْعَافِيْنَ | سورة آل عمران(3) | 134 |
وَعَفَا | سورة البقرة(2) | 187 |
وَلْيَعْفُوْا | سورة النور(24) | 22 |
وَيَعْفُ | سورة الشورى(42) | 34 |
وَيَعْفُوْا | سورة المائدة(5) | 15 |
وَيَعْفُوْا | سورة الشورى(42) | 25 |
وَيَعْفُوْا | سورة الشورى(42) | 30 |
يَعْفُوَا | سورة البقرة(2) | 237 |
يَّعْفُوَ | سورة النساء(4) | 99 |
يَّعْفُوْنَ | سورة البقرة(2) | 237 |