Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَیٌّ : جب استفہام کے لیے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لیے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے(1) ، چنانچہ فرمایا: (اَیًّامَّا تَدۡعُوۡا فَلَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ) (۱۷:۱۱۰) جس نام سے اسے پکارو اس کے سب نام اچھے ہیں۔ (اَیَّمَا الۡاَجَلَیۡنِ قَضَیۡتُ فَلَا عُدۡوَانَ عَلَیَّ ) (۲۸:۲۸) کہ میں جونسی مدت (چاہوں) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو۔ اَلْاَیَۃُ : اسی کے معنی علامت ظاہرہ یعنی واضح علامت کے ہیں۔ دراصل ’’آیۃ‘‘ ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری (اصل) شے کا بذاتہٖ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیا جائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے، چنانچہ جب کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائے گا کہ اس نے راستہ پالیا ہے۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے۔ آیۃ کا لفظ یا تو اَیٌّ سے مشتق ہے کیونکہ یہ بھی ایک چیز کو دوسری تمیز دیتی ہے مگر صحیح یہ ہے کہ یہ تَاَیٍّ (مصدر تفعل) سے مشتق ہے جس کے معنی کسی چیز پر ٹھہرنے اور تثبت حاصل کرنا کے ہیں۔ کہا جاتا ہے : تَاَیَّ (امر) یعنی ٹھہرو اور رفق سے کام لو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اَوِیَ اِلَیْہِ سے مشتق ہو۔ (۱) آیَۃٌ کا لفظ بلند عمارت پر بھی بولا جاتا ہے جیسے فرمایا: (اَتَبۡنُوۡنَ بِکُلِّ رِیۡعٍ اٰیَۃً تَعۡبَثُوۡنَ ) (۲۶:۱۲۸) کہ تم پرضا مقام پر بے کار نشان تعمیر کرتے ہو۔ (۲) اور قرآن پاک کے ہر اس حصہ کو جو کسی حکم پر دال ہو آیۃ کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ ایک سورۃ ہو یا اس کی ایک فصل یا کئی فصلیں ہوں۔ (۳) اور کبھی ہر اس کلام کو جو لفظی اعتبار سے دوسرے سے الگ ہو آیۃ کہہ دیا جاتا ہے اسی اعتبار سے سور کی آیات کو آیات کہا جاتا ہے جن کے ذریعہ سورۃ شمار کی جاتی ہے۔ اور آیت کریمہ : ( اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ) (۲۹:۴۴) میں آیات سے فکری دلائل مرا دہیں کہ لوگ اپنے مراتب علمیہ کے اعتبار سے ان کی معرفت میں مختلف درجات رکھتے ہیں۔ اسی معنی میں فرمایا : (بَلۡ ہُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیۡ صُدُوۡرِ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ ؕ وَ مَا یَجۡحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الظّٰلِمُوۡنَ ) (۲۹:۴۹) بلکہ یہ اہل علم کے نزدیک واضح دلائل ہیں اور ہمارے ان دلائل سے وہی لوگ انکار کرتے ہیں جو بے انصاف ہیں۔ (وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ اٰیَۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ) (۱۲:۱۰۵) اور آسمان و زمین میں بہت سے دلائل موجود ہیں۔ پھر قرآن مجید میں کسی خاص معنی کا لحاظ کرتے، بعض مواضع میں آیۃً مفرد اور دوسرے مقامات پر آیات بصیغۂ جمع لایا گیا ہے جس کی تفصیل اور توضیع اس کتاب کے موضوع سے خارج ہے۔ اور آیت کریمہ : (وَ جَعَلۡنَا ابۡنَ مَرۡیَمَ وَ اُمَّہٗۤ اٰیَۃً ) (۲۳:۵۰) میں حضرت عیسیٰ علیہ السام اور ان کی والدہ مریم کو آیَتَیْنِ (دو آتیں) کہنے کی بجائے آیَۃً (ایک آیت) قرار دیا ہے کیونکہ یہ دونوں مل کر (بحیثیت مجموعی) ایک آیت بنتے ہیں۔ اور آیت کریمہ : (وَ مَا نُرۡسِلُ بِالۡاٰیٰتِ اِلَّا تَخۡوِیۡفًا ) (۱۷:۵۹) میں بعض نے کہا ہے کہ آیات سے جراد، قمل، ضفادع وغیرہ کی طرف اشارہ ہے جو امم سابقہ پر (بطورِ عذاب) بھیجی گئی تھیں۔ اور ’’تخویفا‘‘ کے لفظ سے متنبہ کیا ہے کہ جو لوگ اس قسم کے افعال کا ارتکاب کریں گے ان پر اسی طرح کے عذاب نازل ہوں گے اور یہ کہ اس قسم کی آیات کو طلب کرنا مکلّفین کے خسیس ترین ہونے کی دلیل ہے کیونکہ انسان فعل خیر یا تو کسی رغبت اور خوف کی وجہ سے کرتا ہے یہ سب سے ادنیٰ مرتبہ ہے اور یا اچھی شہرت حاصل کرنے کے لیے۔ مگر اشرف اور اعلیٰ مرتبہ یہ ہے کہ فضیلت کو فضیلت سمجھ کر حاصل کیا جائے اور امت محمدیہ چونکہ اشرف امت ہے جیساکہ آیت : (کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ ) (۳:۱۱۰) میں مذکور ہے اس لیے انہیں اﷲ تعالیٰ نے اس (خسیس) مرتبہ سے بلند قرار دیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ گو ان میں سے جہلاء یہ کہہ کر۔ اَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآئِ اَوِئْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۔ عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن ان پر عمومی عذاب نہیں آئے گا۔ بعض نے کہا ہے کہ آیات سے مراد دلائل ہیں اور تنبیہ کی ہے کہ ان کے سامنے صرف دلائل بیان ہوں گے اور انہیں اس عذاب سے محفوظ رکھا جائے گا۔ (وَ یَسۡتَعۡجِلُوۡنَکَ بِالۡعَذَابِ ) (۲۲:۴۷) جس کے متعلق یہ جلدی کررہے ہیں۔ لفظ آیَۃ کے وزن میں تین اقوال ہیں۔ (۱) یہ فَعْلَۃٌ کے وزن پر ہے ایسے کلمات (جن کے عین اور لام کلمہ میں حرف علت ہو) میں حق تو یہ ہے کہ ان کے لام کلمہ میں تعلیل کی جائے نہ کہ عین کلمہ میں جیسے حَیَاۃٌ اور نَوَاۃً (وغیرہ نظائر موجود ہیں) لیکن عین کلمہ میں حرف یا آنے کی وجہ سے لام کلمہ میں تعلیل نہیں ہوئی، جیسے رَایَۃٌ وغیرہ۔ (۲) بعض نے کہا ہے یہ فَعْلَۃٌ کے وزن پر ہے وہ حرف علت جمع ہونے کی وجہ سے پہلی یاء کو الف سے تبدیل کردیا گیا ہے جیسے طَائِیٌ اور طَیِّئٌ۔ (۳) بعض نے کہا ہے کہ آیَۃٌ دراصل اٰیِیَۃٌ بروزن فَاعِلَۃٌ ہے بغرض تخفیف یاء اول کو حذف کرکے آیَۃٌ بنالیا گیا ہے مگر یہ آخری قول ضعیف ہے کیونکہ آیَۃٌ کی تصغیر اُیَیِّۃٌ ہے اگر یہ اصل میں فَاعِلَۃٌ کے وزن پر ہوتا تو اس کی تصغیر اُوَیَّۃٌ آنا چاہیے تھی۔

Words
Words Surah_No Verse_No
لَاٰيٰتٍ سورة يونس(10) 67
لَاٰيٰتٍ سورة الرعد(13) 3
لَاٰيٰتٍ سورة الرعد(13) 4
لَاٰيٰتٍ سورة إبراهيم(14) 5
لَاٰيٰتٍ سورة الحجر(15) 75
لَاٰيٰتٍ سورة النحل(16) 12
لَاٰيٰتٍ سورة النحل(16) 79
لَاٰيٰتٍ سورة طه(20) 54
لَاٰيٰتٍ سورة طه(20) 128
لَاٰيٰتٍ سورة المؤمنون(23) 30
لَاٰيٰتٍ سورة النمل(27) 86
لَاٰيٰتٍ سورة العنكبوت(29) 24
لَاٰيٰتٍ سورة الروم(30) 21
لَاٰيٰتٍ سورة الروم(30) 22
لَاٰيٰتٍ سورة الروم(30) 23
لَاٰيٰتٍ سورة الروم(30) 24
لَاٰيٰتٍ سورة الروم(30) 37
لَاٰيٰتٍ سورة لقمان(31) 31
لَاٰيٰتٍ سورة السجدة(32) 26
لَاٰيٰتٍ سورة سبأ(34) 19
لَاٰيٰتٍ سورة الزمر(39) 42
لَاٰيٰتٍ سورة الزمر(39) 52
لَاٰيٰتٍ سورة الشورى(42) 33
لَاٰيٰتٍ سورة الجاثية(45) 3
لَاٰيٰتٍ سورة الجاثية(45) 13
لِاٰيٰتِنَا سورة المدثر(74) 16
وَاٰيَةً سورة المائدة(5) 114
وَاٰيَةٌ سورة يس(36) 33
وَاٰيَةٌ سورة يس(36) 37
وَاٰيَةٌ سورة يس(36) 41
وَاٰيٰتِهٖ سورة التوبة(9) 65
وَاٰيٰتِهٖ سورة الجاثية(45) 6