Blog
Books
Search Quran
Lughaat

کُلٌّ کا لفظ کسی شے کے اجزاء کو یک جا کرنے پر بولا جاتا ہے اور یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے (۱) کبھی اس سے کسی چیز کی ذاتگ اور اس کے احوال خصوصی کا مجموعہ مراد ہوتا ہے۔اور لفظاً تمام کے معنیہ دیتا ہے۔چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (وَ لَا تَبۡسُطۡہَا کُلَّ الۡبَسۡطِ) (۱۷۔۲۹) اور نہ بالکل کھول ہی دو (کہ سبھی کچھ دے ڈالو) شاعر نے کہا ہے (1) ۔ (۳۷۸) (لَیْسَ الْفَتٰی کُلُّ الْفَتٰی ۔ اِلَّا الْفَتٰی فِیْ اَدَبِہ) یعنی کامل جو انمرد تو وہی ہوسکتا ہے جو ادب میں کامل ہو۔ (۲) کبھی اس سے کئی چیزوں کا مجموعہ مراد ہوتا ہے۔اس صورت میں کبھی تو یہ جمع معرف باللام کی طرف مضاف ہوتا ہے۔جیسے:کُلُّ الْقَوْمِ: (پوری قوم) اور کبھی جمع معرف باللام کی ضمیر کی طرف مضاف ہوتا ہے جیسے قرآن پاک میں ہے: (فَسَجَدَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ کُلُّہُمۡ اَجۡمَعُوۡنَ ) (۱۵۔۳۰) تو فرشتے سب کے سب سجدہ میں گر پڑے۔ (لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ) (۹۔۳۳) تاکہ اس (دین) کو دنیا کے تمام دینوں پر غالب کرے۔ (وَ کُلُّہُمۡ اٰتِیۡہِ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فَرۡدًا) (۱۹۔۹۵) اور سب قیامت کے دن اس کے سامنے اکیلے اکیلے حاضر ہوں گے۔اور کبھی نرکہ مفردہ کی طرف مضاف ہوتا ہے جیسے فرمایا: (وَکُلَّ اِنْسَان اَلْزَمْنَاہُ) اور ہم نے ہر انسان (کے اعمال کو بصورت کتاب اس کے گلے میں ) لٹکادیا ہے۔ (۱۷۔۱۳) (وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ) (۲۔۲۸۲) اور اﷲ ہر چیز سے باخبر ہے۔وغیر ذالک من الآیت:اور کبھی بغیر اضافت کے استعمال ہوتا ہے اس وقت اسکا مضاف الیہ مقدر ہوتا ہے۔چنانچہ فرمایا: (کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ ) (۳۶۔۴۰) اور سب اپنے اپنے دائرے میں تیررہے ہیں۔ (وَ کُلٌّ اَتَوۡہُ دٰخِرِیۡنَ ) (۲۷۔۸۷) اور سب اس کے پاس عاجز ہوکر چلے آئیں گے۔ (وَ کُلًّا جَعَلۡنَا صٰلِحِیۡنَ ) (۲۱۔ٓ۷۲) اور سب کو نیک بخت کیا۔ (کُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیۡنَ) (۲۱۔۸۵) یہ سب صبر کرنے والے تھے۔ان کے علاوہ اور بھی اس نوع کی بہت سی آیات ہیں۔اور قرآن پاک اور فصحاء عرب کے کلام میں کہیں بھی یہ لفظ معرف باللام یعنی اَلْکُلُّ استعمال نہیں ہوا بلکہ یہ محض متکلمین،فقہا اور دیگر علمائے فن کی اصطلاح ہے۔اَلْکَلَالَۃُ:باپ اور اولاد کے علاوہ جو وارث بھی ہو وہ کَلَالَۃٌ ہے۔ (2) ۔ابن عباسؓ کا قول ہے کہ کَلَالَۃٌ ہر اس وارث کو کہتے ہیں جو اولاد کے علاوہ ہو ایک روایت میں ہے (3) کہ آنحضرتﷺ سے ’’کَلَا لَۃٌٗٗکے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: (مَن مَّاتَ وَلَیْسَ لَہُ وَلَدٌ وَّلا وَالِدٌ) کہ کَلَالَۃٌ ہر اس میت کو کہتے ہیں جس کا باپ اور اولاد زندہ نہ ہوں۔اس حدیث میں آنحضرتﷺ نے خود میت کو کلالۃ قرار دیا ہے اور کلالہ کے یہ دونوں معنی صحیح ہیں کیونکہ ’’کَلَالَۃٌٗٗمصدر ہے جو وارث اور مورث دونوں پر بولا جاسکتا ہے گویا کلالہ کو کلالہ یا تو اس لئے کہتے ہیں کہ سلسلہ نسب اس تک پہنچنے سے عاجز ہوگیا ہے اور یا اس لئے کہ وہ نسب کسی ایک جانب یعنی جانب اصل یا جانب فرع سے اس کے ساتھ بالواسطہ پہنچتا ہے اور یہ (یعنی دو احتمال) اس لئے ہیں کہ نسبتی تعلق دو قسم پر ہے انتساب (۱) بالعمق (یعنی براہ راست تعلق) جیسے باپ بیٹے کا باہمی تعلق۔نسبت (۲) بالعرض یعنی بالواسطہ جیسے بھائی یا چچا کے ساتھ (رشتے کی نسبت) قطرب کا قول ہے کہ والدین اور بھائی کے علاوہ باقی رشتہ داروں کو کَلَالَۃٌ کہا جاتا ہے۔لیکن یہ قول بلادلیل ہے ۔بعض نے کہا ہے کہ کَلَالَۃ کا لفظ ہر وارث پر بولا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے (4) (مجزدء لکامل) (۳۷۹) (وَالْمَرْئُ یَبْخَلُ بِالْحُقُوْقِ وَلِلکَلَالَۃِ مَایُسِیْمُ) انسان حقوق کی ادائیگی میں بخل کرتا ہے حالانکہ اس کا تمام مال اس کے وارثوں کے لئے ہے۔یُسِیْمُ، اَسَامَ الْاِبِلَ سے مشتق ہے جس کے معنی اونٹوں کو چراگاہ میں لے جانے کے ہیں مگر لفظ کَلَالَۃٌ سے شاعر نے وہ معنی مراد نہیں لئے جو اس شارح نے سمجھے ہیں بلکہ شاعر کی مراد یہ ہے کہ انسان کو مال جمع کرنے میں زہد سے کام لینا چاہیئے۔کیونکہ کلالہ کے لئے ترک مال اولاد کیلئے ترک مال سے بڑھ کر شاق ہوتا ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جن کے لئے تم مرتے وقت مال چھوڑرہے ہو وہ بمنزلہ کلالہ کے ہیں جیسے تم کہو۔ (مَاتَجْمَعُہ فَھُوَ لِلْعَدُوِّ:تم جو جمع کرتے ہو وہ تمہارے دشمن کا ہے اور اہل عرب کے ہاں محاورہ ہے۔ (لَمْ یَرِثْ فُلَانٌ کَلَالَۃً :فلاں آدمی کلالہ کا وارث نہیں ہے اور یہ اس شخص کے حق میں کہتے ہیں جو اپنے باپ سے کسی مال کا وارث ہو۔شاعر نے کہا ہے (5) (البسیط) (۳۸۰) (وَرِثْتُمْ قَنَاہَ الْمُلْکِ غَیْرَ کَلَالَہٍ عَنِ ابْنَیْ مُنَافٍ عَبْدِ شَمْسٍ وَّھَاشِم) تمہیں عبدمناف کے دونوں بیٹوں عبد شمس اور ہاشم سے حکومت کا ورثہ ملا ہے اورتم اس کے مستحق ہو۔اَلْاِکْلِیْلُ کے معنیہ تاج کے ہیں۔اور تاج کا نام اکلیل اس لئے رکھا گیا ہے کہ وہ سر پر محیط ہوجاتا ہے محاورہ ہے۔ (کَلَّ الرَّجُلُ فِیْ مِشْیَتِہ کَلَالًا ۔انسان کا چلنے سے عاجز ہوجانا۔ (6) (کَلَّ السَّیْفُ عَنْ ضَرِیْبِہ کُلُوْلًا وّکِلَّۃً ۔ تلوار کا نشانہ پر نہ لگنا۔کَلَّ الِلّسَانُ:زبان کا کلام سے عاجز ہوجانا۔اَکَلَّ فُلَانٌ:کسی کی سواری کا تھک جانا۔ اَلْکَلْکَلُ:سینہ کو کہتے ہیں نیز ہر چیز کا اگلہ حصہ۔

Words
Words Surah_No Verse_No
كُلِّ سورة النحل(16) 89
كُلِّ سورة النحل(16) 112
كُلِّ سورة بنی اسراءیل(17) 89
كُلِّ سورة الكهف(18) 45
كُلِّ سورة الكهف(18) 54
كُلِّ سورة الكهف(18) 84
كُلِّ سورة مريم(19) 69
كُلِّ سورة الأنبياء(21) 96
كُلِّ سورة الحج(22) 5
كُلِّ سورة الحج(22) 6
كُلِّ سورة الحج(22) 17
كُلِّ سورة الحج(22) 27
كُلِّ سورة الحج(22) 27
كُلِّ سورة المؤمنون(23) 88
كُلِّ سورة النور(24) 45
كُلِّ سورة الفرقان(25) 51
كُلِّ سورة الشعراء(26) 7
كُلِّ سورة الشعراء(26) 222
كُلِّ سورة الشعراء(26) 225
كُلِّ سورة النمل(27) 16
كُلِّ سورة النمل(27) 23
كُلِّ سورة النمل(27) 83
كُلِّ سورة القصص(28) 57
كُلِّ سورة القصص(28) 75
كُلِّ سورة العنكبوت(29) 20
كُلِّ سورة الروم(30) 50
كُلِّ سورة الروم(30) 58
كُلِّ سورة لقمان(31) 10
كُلِّ سورة لقمان(31) 10
كُلِّ سورة الأحزاب(33) 27
كُلِّ سورة الأحزاب(33) 52
كُلِّ سورة الأحزاب(33) 55
كُلِّ سورة سبأ(34) 21
كُلِّ سورة سبأ(34) 47
كُلِّ سورة فاطر(35) 1
كُلِّ سورة يس(36) 83
كُلِّ سورة الصافات(37) 7
كُلِّ سورة الصافات(37) 8
كُلِّ سورة الزمر(39) 27
كُلِّ سورة الزمر(39) 62
كُلِّ سورة الزمر(39) 62
كُلِّ سورة مومن(40) 27
كُلِّ سورة مومن(40) 35
كُلِّ سورة مومن(40) 62
كُلِّ سورة حم السجدہ(41) 12
كُلِّ سورة حم السجدہ(41) 39
كُلِّ سورة حم السجدہ(41) 53
كُلِّ سورة الشورى(42) 9
كُلِّ سورة الأحقاف(46) 33
كُلِّ سورة محمد(47) 15