اَلْحَیاَۃْ: (زندگی، جینا یہ اصل میں حَیِیَ(س) یَحْیٰ کا مصدر ہے) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے۔ (ا) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے۔اسی معنیٰ کے لحاظ سے نبات کو حَیٌّ یعنی زندہ کہا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یُحۡیِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا) (۵۷۔۱۷) جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے۔ (وَ اَحۡیَیۡنَا بِہٖ بَلۡدَۃً مَّیۡتًا) (۵۰۔اا) او اس (پانی) سے ہم نے شہر مردہ (یعنی) زمین افتادہ) کو زندہ کیا۔ (وَ جَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ) (۲۱۔۳۰) اور تمام جائیداد چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں۔ (۲) دوم حیاۃ کے معنیٰ قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بنا پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (اَلَمۡ نَجۡعَلِ الۡاَرۡضَ کِفَاتًا ﴿ۙ۲۵﴾ اَحۡیَآءً وَّ اَمۡوَاتًا ) (۷۷۔۲۵،۲۶) اور آیت کریمہ: (اِنَّ الَّذِیۡۤ اَحۡیَاہَا لَمُحۡیِ الۡمَوۡتٰی ؕ اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ) (۴۱۔۳۹) تو جس نے زمین کو زندہ کیا وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے۔بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔میں زمین کو زندہ کرنے سے اسے وقت نامیہ عطا کرنا مراد ہے اور مُحْیِ الْمَوتیٰ سے قوت احساس کے عطا کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ (۳) قوت عاقلہ عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا: (اَوَ مَنۡ کَانَ مَیۡتًا فَاَحۡیَیۡنٰہُ ) (۶۔۱۲۲) بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا۔اور شاعر نے کہا ہے: (1) (۱۲۷) لَقَدْ اَسْمَعْتَ لَوْنَادِیْتَ حَیًّا وَلٰکِنْ لَّا حَیَاۃَ لِمَنْ تُنَادِیْ اگر تو کسی زندہ کو پکارتا تو وہ سن لیتا۔ لیکن جس کو تم پکارتے رہے ہو اس میں زندگی نہیں ہے(یعنی عقل سے محروم ہے) (۴) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے۔اس معنیٰ میں شاعر نے کہا ہے(2) (ضعیف) (۱۲۸) لَیْسَ مَنْ مَّاتَ فَاسْتَرَاحَ بِمَیْتٍ اِنَّمَا الْمَیْتُ مَیِّتُ الْاَحْیَائِ جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے۔حقیقتاً مردے وہ ہیں جو زندہ ہونے کے باوجود مردے بنے ہوئے ہیں۔اور آیت کریمہ: (وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ) (۳۔۱۶۹) جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا(وہ مرے ہوئے نہیں ہیں) بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں۔میں شہدا کو اسی معنیٰ میں اَحْیَائٌ یعنی زندے کہا ہے۔کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں۔جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں۔ (۵) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے جو کہ علم و عقل کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے۔قرآن پاک میں ہے: (اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ ) (۸۔۲۴) خدا اور اس کے رسولﷺ کا حکم قبول کرو جبکہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی(جادواں) بخشتا ہے۔اسی طرح آیت کریمہ: (یٰلَیۡتَنِیۡ قَدَّمۡتُ لِحَیَاتِیۡ) (۸۹۔۲۴) کاش میں نے اپنی زندگی(کی جاودانی کے لئے) کچھ آگے بھیجا ہوتا۔میں بھی اخروری دائمی زندگی مراد ہے۔ (۶) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے۔چنانچہ جب اﷲ تعالیٰ کی صفت میں حَیٌّ کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوتی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ سے بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چنانچہ فرمایا: (فَاَمَّا مَنۡ طَغٰی ﴿ۙ۳۷﴾ وَ اٰثَرَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا ﴿ۙ۳۸﴾) (۷۹۔۳۷،۳۸) تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھا۔ (اشۡتَرَوُا الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا بِالۡاٰخِرَۃِ ) (۲۔۸۶) جنہوں نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی خریدی۔ (وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا مَتَاعٌ ) (۱۳۔۲۶) اور دنیا کی زندگی آخرت(کے بدلے) میں (بہت) تھوڑا فائدہ ہے۔یہاں متاع سے دنیاوی ساز و سامان مراد ہے۔ ( وَ رَضُوۡا بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ اطۡمَاَنُّوۡا بِہَا ) (۱۰۔۷) اور دنیا کی زندگی سے خوش اور اسی سے مطمئن ہوبیٹھے۔ (وَ لَتَجِدَنَّہُمۡ اَحۡرَصَ النَّاسِ عَلٰی حَیٰوۃٍ ) (۲۔۹۶) بلکہ تم ان کو اور لوگوں سے زندگی پر کہیں حریص دیکھو گے اور آیت کریمہ: (وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ رَبِّ اَرِنِیۡ کَیۡفَ تُحۡیِ الۡمَوۡتٰی) (۲۔۲۶۰) اور جب ابراہیمؑ نے (خدا سے) کہا کہ اے پروردگار مجھے دکھاکہ تو مردوں کو کیونکہ زندہ کرے گا۔میں حضرت ابراہیمؑ نے اخروی زندگی کی کیفیت کا مشاہدہ کرنے کے متعلق سوال کیا تھا۔جو دنیوی آفات کے شوائب سے پاک ہوگی۔اور آیت کریمہ: (وَ لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ ی) (۲۔۱۷۹) اور اے اہل عقل!(حکم) قصاص میں(تمہاری) زندگی ہے۔میں قصاص میں حیات ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ قصاص کے خوف سے لوگ قتل پر اقدام کرنے سے رکے رہیں گے۔لہذا اس سے لوگوں کو زندگی حاصل ہوگی۔ (وَ مَنۡ اَحۡیَاہَا فَکَاَنَّمَاۤ اَحۡیَا النَّاسَ جَمِیۡعًا) (۵۔۳۲) اور جو اس کی زندگی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگی کا موجب ہوا۔یعنی انہیں ہلاکت سے نجات بخشی اور آیت کریمہ: (رَبِّیَ الَّذِیۡ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ۙ قَالَ اَنَا اُحۡیٖ وَ اُمِیۡتُ ) (۲۔۲۵۸) میرا پروردگار تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے وہ بولا کہ جلا اور مار تو میں بھی کرسکتا ہوں۔میں بھی یہی معنیٰ مراد ہیں اس کافر کا مطلب یہ تھا کہ میں ایک شخص کو معاف کرکے اسے زندگی بخشتا ہوں۔الْحَیَوَان:یہ زندگی کا مقام اور مقر ہوتا ہے اور دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ (۱) وہ جس میں قوت احساس ہو۔ (۲) وہ جسے دائمی بقا حاصل ہو اور آیت کریمہ: (وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ) (۲۹۔۶۴) اور(ہمیشہ کی) زندگی(کا مقام) آخرت کا گھر ہے۔کاش یہ (لوگ) سمجھتے۔میں اسی دوسرے معنیٰ کے لحاظ سے دارآخرت کو حیوان کہا گیا ہے۔اور لَھِیَ الْحَیَوَان کہہ کر تنبیہ کی ہے کہ حقیقی اور سرمدی زندگی تو وہ ہے جس کے بعد فنا نہ آئے نہ کہ وہ جو کچھ مدت کے بعد فنا ہوجائے۔بعض اہل لغت کا خیال ہے کہ حَیَوَان اور حیاۃ دونوں ہم معنیٰ ہیں۔بعض کہتے ہیں کہ حَیَوَان وہ ہے جس میں حیاۃ یعنی زندگی ہو اس کے مقابل مَوتان وہ ہے جس میں زندگی نہ ہو۔اور بارش کو حَیَا کہا جاتا ہے کیونکہ وہ مردہ زمین کو زندہ کردیتی ہے اور آیت کریمہ: (وَ جَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ ) (۲۱۔۳۰) میں اسی معنیٰ کی طرف اشارہ ہے اور آیت کریمہ: (اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمِۣ اسۡمُہٗ یَحۡیٰی) (۱۹۔۷) میں انہیں یحیٰی کہنے سے صرف یہ مقصود نہیں تھا کہ وہ اس نام سے مشہور ہوں گے۔کیونکہ اس سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔بلکہ اس بات پر تنبیہہ کرنا تھا کہ گناہوں سے ان کا دل مردہ نہیں ہوگا جیسا کہ اکثر لوگوں کا حال ہے اور آیت کریمہ: (یُخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَ یُخۡرِجُ الۡمَیِّتَ مِنَ الۡحَیِّ ) (۳۰۔۱۹) وہی زندے کو مردے سے نکالتا ہے اور(وہی) مردے کو زندہ سے نکالتا ہے کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ نطفہ سے انسان پیدا کرتا ہے اور انڈے سے مرغی۔اسی طرح زمین سے نباتات نکالتا ہے اور انسان سے نطفہ۔اور آیت کریمہ: (وَ اِذَا حُیِّیۡتُمۡ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡہَاۤ اَوۡ رُدُّوۡہَا) (۴۔۸۶) اور جب تم کو کوئی دعا دے (جواب میں) تم اس سے بہتر(کلمے) سے(اسے) دعا دیا کرو یا انہی لفظوں سے دعا دو۔ نیز(فَاِذَا دَخَلۡتُمۡ بُیُوۡتًا فَسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ تَحِیَّۃً مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ) (۲۴۔۶۱) اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے(گھروالوںکو) سلام کیا کرو۔ (یہ خدا کی طرف سے۔۔۔۔۔تحفہ ہے۔ میں تَحِیَّۃ کے معنیٰ کسی کو حَیَّاکَ اﷲْ کہنے کے ہیں یعنیٰ اﷲ تجھے زندہ رکھے۔یہ اصل میں جملہ خبر یہ ہے لیکن دعا کے طور پر استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے حَیَّا فُلَانٌ فُلَانًا تَحِیَّۃٌ: حیات سے مشتق ہے۔پھر دعائے حیات کے معنیٰ میں استعمال ہونے لگا ہے کیونکہ جملہ اقسام تحیۃ حصول حیاۃ یا سبب حیاۃ سے خارج نہیں ہیں خواہ یہ دنیا میں حاصل ہو یا عقبیٰ میں۔اسی سے التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ ہے(3) اور آیت کریمہ: (وَ یَسۡتَحۡیُوۡنَ نِسَآءَکُمۡ) (۲۔۴۹) اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے کے معنیٰ عورتوں کو زندہ چھوڑ دینے کے ہیں۔اَلْحَیَائُ:کے معنیٰ قبائح سے نفس کے منقبض ہوکر انہیں چھوڑ دینے کے ہیں۔کہا جاتا ہے: حیَّ فَھُوَ حَیٌّ وَاسْتَحْیَا فَھُوَ مُسْتَحْیٍ: اور بعض نے اِسْتَحیٰ فَھُو مُستَحٍ(تخفیف یاء) کے ساتھ بھی نقل کیا ہے۔قرآن پاک میں ہے (اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسۡتَحۡیٖۤ اَنۡ یَّضۡرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوۡضَۃً فَمَا فَوۡقَہَا) (۲۔۲۶) خدا اس بات سے عار نہیں کرتا کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز(مثلاً مکھی مکڑی وغیرہ) کی مثال بیان فرمائے۔ (وَ اللّٰہُ لَا یَسۡتَحۡیٖ مِنَ الۡحَقِّ ) (۳۳۔۵۳) لیکن خدا سچی بات کے کہنے سے شرم نہیں کرتا۔ایک روایت میں ہے: (۱۰۳) اِنَّ اﷲَ یَسْتَحْیِی مِنْ ذِی اشَّیْبَۃ الْمُسْلِمِ اَنْ یُّعَذِّبَہٗ کہ اﷲ تعالیٰ بوڑھے مسلمان کو عذاب دینے سے شرماتا ہے۔پس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جب حیا کی نسبت ہو تو اس کے معنیٰ انقباض نفس کے نہیں ہوتے۔کیونکہ اس قسم کے اوصاف سے ذات باری تعالیٰ منزہ ہے بلکہ اس سے مراد اسے عذاب نہ کرنا ہے اور ایک دوسری حدیث میں ہے۔(4) (۱۰۴) اِنَّ اﷲَ حَیٌّ کہ اﷲ حَیٌّ ہے تو اس کے معنیٰ بھی یہی ہیں کہ اﷲ تعالیٰ قبائح کو چھوڑنے والا اور محاسن یعنی افعال حسنہ کو سرانجام دینے والا ہے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
الْحَيَّ | سورة الأنعام(6) | 95 |
الْحَيٰوةَ | سورة هود(11) | 15 |
الْحَيٰوةَ | سورة إبراهيم(14) | 3 |
الْحَيٰوةَ | سورة النحل(16) | 107 |
الْحَيٰوةَ | سورة القصص(28) | 79 |
الْحَيٰوةَ | سورة الأحزاب(33) | 28 |
الْحَيٰوةَ | سورة النجم(53) | 29 |
الْحَيٰوةَ | سورة النازعات(79) | 38 |
الْحَيٰوةَ | سورة الأعلى(87) | 16 |
الْحَيٰوةُ | سورة آل عمران(3) | 185 |
الْحَيٰوةُ | سورة الأنعام(6) | 32 |
الْحَيٰوةُ | سورة الأنعام(6) | 130 |
الْحَيٰوةُ | سورة الرعد(13) | 26 |
الْحَيٰوةُ | سورة لقمان(31) | 33 |
الْحَيٰوةُ | سورة فاطر(35) | 5 |
الْحَيٰوةُ | سورة مومن(40) | 39 |
الْحَيٰوةُ | سورة الجاثية(45) | 35 |
الْحَيٰوةُ | سورة محمد(47) | 36 |
الْحَيٰوةُ | سورة الحديد(57) | 20 |
الْحَيٰوةُ | سورة الحديد(57) | 20 |
الْحَيٰوةِ | سورة الأعراف(7) | 32 |
الْحَيٰوةِ | سورة الأعراف(7) | 152 |
الْحَيٰوةِ | سورة التوبة(9) | 55 |
الْحَيٰوةِ | سورة يونس(10) | 24 |
الْحَيٰوةِ | سورة يونس(10) | 64 |
الْحَيٰوةِ | سورة يونس(10) | 88 |
الْحَيٰوةِ | سورة يونس(10) | 98 |
الْحَيٰوةِ | سورة الرعد(13) | 34 |
الْحَيٰوةِ | سورة إبراهيم(14) | 27 |
الْحَيٰوةِ | سورة الكهف(18) | 28 |
الْحَيٰوةِ | سورة الكهف(18) | 45 |
الْحَيٰوةِ | سورة الكهف(18) | 46 |
الْحَيٰوةِ | سورة الكهف(18) | 104 |
الْحَيٰوةِ | سورة طه(20) | 131 |
الْحَيٰوةِ | سورة المؤمنون(23) | 33 |
الْحَيٰوةِ | سورة النور(24) | 33 |
الْحَيٰوةِ | سورة القصص(28) | 61 |
الْحَيٰوةِ | سورة العنكبوت(29) | 25 |
الْحَيٰوةِ | سورة الروم(30) | 7 |
الْحَيٰوةِ | سورة الزمر(39) | 26 |
الْحَيٰوةِ | سورة مومن(40) | 51 |
الْحَيٰوةِ | سورة حم السجدہ(41) | 16 |
الْحَيٰوةِ | سورة حم السجدہ(41) | 31 |
الْحَيٰوةِ | سورة الزخرف(43) | 32 |
الْحَيٰوةِ | سورة الزخرف(43) | 35 |
الْـحَيَّ | سورة يونس(10) | 31 |
يُـحْيٖ | سورة مومن(40) | 68 |
يُـحْيٖ | سورة الحديد(57) | 2 |