Blog
Books
Search Quran
Lughaat

بَلْ: حرف استدراک ہے اور تدارک کی دو صورتیں ہیں۔ (۱) جبکہ بل کا مابعد اس کے ماقبل کی نقیض ہو تو اس صورت میں کبھی تو اس کے مابعد حکم کی تصحیح سے ماقبل کی تردید مقصود ہوتی ہے۔ اور کبھی اس کے برعکس ماقبل کی تصحیح اور مابعد کے ابطال کی غرض سے بل کو لایا جاتا ہے۔ چنانچہ پہلی صورت کے متعلق فرمایا: (اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِ اٰیٰتُنَا قَالَ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ کَلَّا بَلۡ ٜ رَانَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ مَّا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ) (۸۳:۱۴) جب اس کو ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں دیکھو یہ جو (اعمال بد) کررہے ہیں ان کا ان کے دلوں پر زنگ بیٹھ گیا ہے۔ تو بَلْ کا معنی یہ ہیں کہ آیات الٰہی کو اَسَاطِیْر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ یہ ان کی جہالت ہے، پھر رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ کہہ کر ان کی جہالت پر تنبیہ کی ہے۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصہ میں فرمایا: (قَالُوۡۤا ءَاَنۡتَ فَعَلۡتَ ہٰذَا بِاٰلِہَتِنَا یٰۤـاِبۡرٰہِیۡمُ ۔ قَالَ بَلۡ فَعَلَہٗ ٭ۖ کَبِیۡرُہُمۡ ہٰذَا فَسۡـَٔلُوۡہُمۡ اِنۡ کَانُوۡا یَنۡطِقُوۡنَ ) (۲۱:۶۲،۶۳) (جب ابراہیم علیہ السلام آئے تو) ان بت پرستوں نے کہا کہ ابراہیم بھلا یہ کام ہمارے معبودوں کے ساتھ تم نے کیا ہے؟ (ابراہیم علیہ السلام نے) کہا (نہیں) بلکہ یہ ان کے اس بڑے (بت) نے کیا (ہوگا) اگر یہ بولتے ہوں تو ان سے پوچھ دیکھو۔ اور دوسری صورت میں ماقبل کی تصحیح اور مابعد کے ابطال کے متعلق فرمایا: (فَاَمَّا الۡاِنۡسَانُ اِذَا مَا ابۡتَلٰىہُ رَبُّہٗ فَاَکۡرَمَہٗ وَ نَعَّمَہٗ ۬ ۙ فَیَقُوۡلُ رَبِّیۡۤ اَکۡرَمَنِ ۔ وَ اَمَّاۤ اِذَا مَا ابۡتَلٰىہُ فَقَدَرَ عَلَیۡہِ رِزۡقَہٗ ۬ ۙ فَیَقُوۡلُ رَبِّیۡۤ اَہَانَنِ ۔ کَلَّا بَلۡ لَّا تُکۡرِمُوۡنَ الۡیَتِیۡمَ ) (۸۹:۱۵،۱۷) مگر انسان (عجیب مخلوق ہے کہ) جب اس کا پروردگار اس کو آزماتا ہے کہ اسے عزت دیتا اور نعمت بخشتا ہے تو کہتا ہے کہ (آہا) میرے پروردگار نے مجھے عزت بخشی اور جب (دوسری طرح) آزماتا ہے کہ اس پر روزی تنگ کردیتا ہے تو کہتا ہے کہ (ہائے) میرے پروردگار نے مجھے ذلیل کیا نہیں بلکہ تم لوگ یتیم کی خاطر نہیں کرتے۔ یعنی رزق کی فراخی یا تنگی، اکرام یا اہانت کی دلیل نہیں ہے (بلکہ یہ پروردگار کی طرف سے آزمائش ہے) مگر لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کیونکہ یہ مال کو بیجا صرف کررہے ہیں اور اسی طرح آیت (صٓ وَ الۡقُرۡاٰنِ ذِی الذِّکۡرِ ؕ ۔ بَلِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فِیۡ عِزَّۃٍ وَّ شِقَاقٍ) (۳۸:۱،۲) قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے (کہ تم حق پر ہو) مگر جو لوگ کافر ہیں وہ غرور اور مخالفت میں ہیں۔ میں وَالْقُرْاٰنِ ذِی الدِّکْرِ کہہ کر یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن تذکیر یعنی نصیحت حاصل کرنے کی کتاب ہے اور کفار کا اس کی طرف متوجہ نہ ہونا اس کی نفی نہیں کرتا بلکہ ان کا اعراض محض غرور اور مخالفت کی وجہ سے ہے۔ اور آیت کریمہ: (قٓ ۟ ۚ وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡمَجِیۡدِ ۔ بَلۡ عَجِبُوۡۤا) (۵۰:۱،۲) قرآن مجید کی قسم (کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پیغمبر ہیں) لیکن ان لوگوں نے تعجب کیا۔ بھی اسی معنی پر محمول ہے، یعنی ان کا قرآن پاک پر ایمان نہ لانا قرآن کے بزرگ ہونے کے منافی نہیں ہے بلکہ محض ان کی جہالت ہے۔ بَلْ عَجِبُوْا کہہ کر ان کی جہالت پر متنبہ کیا ہے کیونکہ کسی چیز پر اسی وقت تعجب ہوتا ہے جس اُس کا سبب معلوم نہ ہو۔ نیز فرمایا: (مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الۡکَرِیۡمِ ۙ الَّذِیۡ خَلَقَکَ فَسَوّٰىکَ فَعَدَلَکَ ۙ فِیۡۤ اَیِّ صُوۡرَۃٍ مَّا شَآءَ رَکَّبَکَ ؕ کَلَّا بَلۡ تُکَذِّبُوۡنَ بِالدِّیۡنِ ۙ ) (۸۲:۶،۹) تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دھوکہ دیا (وہی تو ہے) جس نے تجھے بنایا اور (تیرے اعضاء کو) ٹھیک کیا۔ اور (تیری قامت کو) معتدل رکھا اور جس صورت میں چاہا جوڑ دیا۔ مگر ہیہات تم لوگ جزا کو جھٹلاتے ہو۔ یعنی رب کریم کے بارے میں کوئی چیز سوائے اس کے دھوکے میں ڈالنے والی نہیں ہے کہ وہ دین کو جھٹلارہے ہیں۔ (۲) تدارک کی دوسری صورت یہ ہے کہ دوسری کلام کے ذریعہ پہلی کلام کی وضاحت اور اس پر اضافہ مقصود ہوتا ہے، جیسے فرمایا: (بَلۡ قَالُوۡۤا اَضۡغَاثُ اَحۡلَامٍۭ بَلِ افۡتَرٰىہُ بَلۡ ہُوَ شَاعِرٌ ) (۲۱:۵) بلکہ (ظالم) کہنے لگے کہ (یہ قرآن) پریشان (باتیں ہیں جو) خواب (میں دیکھ لی) ہیں (نہیں، بلکہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنالیا ہے (نہیں) بلکہ یہ (شعر ہے) جو اس شاعر (کا نتیجہ طبع) ہے۔ یہاں متنبہ کیا ہے کہ اوّلاً انہوں نے قرآن کو خیالات پریشان کہا پھر اس پر اضافہ کر کے اسے افتراء بتلانے لگے پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آپ کے متعلق (نعوذباﷲ) کذاب ہونے کا ادعاء کرنے لگے کیونکہ قرآن کی اصطلاح میں شاعر فطرۃ کاذب کو کہا جاتا ہے اور آیت: (لَوۡ یَعۡلَمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا حِیۡنَ لَا یَکُفُّوۡنَ عَنۡ وُّجُوۡہِہِمُ النَّارَ وَ لَا عَنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یُنۡصَرُوۡنَ ۔ بَلۡ تَاۡتِیۡہِمۡ بَغۡتَۃً فَتَبۡہَتُہُمۡ ) (۲۱:۳۹،۴۰) اے کاش! کافر اس وقت کو جانیں جب وہ اپنے مونہوں پر سے (دوزخ کی) آگ کو روک نہ سکیں گے اور نہ اپنی پیٹھوں پر سے اور نہ ان کا کوئی مددگار ہوگا، بلکہ قیامت ان پر ناگہاں آ واقع ہوگی اور ان کے ہوش کھودے گی۔ بھی اس معنی پر محمول ہے کہ کاش وہ اس کے علاوہ دوسری بات کو جانتے ہوتے جو پہلی بات سے زیادہ اہم ہے یعنی یہ کہ قیامت ان پر ناگہاں آ واقع ہوگی۔ قرآن پاک میں جتنی جگہ بھی بَلْ آیا ہے ان دونوں معنی میں سے کسی ایک پر دلالت کرتا ہے مگرچہ بعض مقامات ذرا وضاحت طلب ہیں(1) اور ان کے پیچدہ ہونے کی بنا پر بعض علمائے نحو نے غلطی سے کہہ دیا ہے کہ قرآن پاک میں بل صرف معنی ثانی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ (2)

Words
Words Surah_No Verse_No
بَلِ سورة آل عمران(3) 150
بَلِ سورة النساء(4) 49
بَلِ سورة الأنبياء(21) 5
بَلِ سورة النمل(27) 66
بَلِ سورة الروم(30) 29
بَلِ سورة لقمان(31) 11
بَلِ سورة سبأ(34) 8
بَلِ سورة ص(38) 2
بَلِ سورة الزمر(39) 66
بَلِ سورة الحجرات(49) 17
بَلِ سورة القمر(54) 46
بَلِ سورة القيامة(75) 14
بَلِ سورة الانشقاق(84) 22
بَلِ سورة البروج(85) 19
بَلْ سورة البقرة(2) 88
بَلْ سورة البقرة(2) 100
بَلْ سورة البقرة(2) 116
بَلْ سورة البقرة(2) 135
بَلْ سورة البقرة(2) 154
بَلْ سورة البقرة(2) 170
بَلْ سورة البقرة(2) 259
بَلْ سورة آل عمران(3) 169
بَلْ سورة آل عمران(3) 180
بَلْ سورة النساء(4) 155
بَلْ سورة النساء(4) 158
بَلْ سورة المائدة(5) 18
بَلْ سورة المائدة(5) 64
بَلْ سورة الأنعام(6) 28
بَلْ سورة الأنعام(6) 41
بَلْ سورة الأعراف(7) 81
بَلْ سورة الأعراف(7) 179
بَلْ سورة يونس(10) 39
بَلْ سورة هود(11) 27
بَلْ سورة يوسف(12) 18
بَلْ سورة يوسف(12) 83
بَلْ سورة الرعد(13) 31
بَلْ سورة الرعد(13) 33
بَلْ سورة الحجر(15) 15
بَلْ سورة الحجر(15) 63
بَلْ سورة النحل(16) 75
بَلْ سورة النحل(16) 101
بَلْ سورة الكهف(18) 48
بَلْ سورة الكهف(18) 58
بَلْ سورة طه(20) 66
بَلْ سورة الأنبياء(21) 5
بَلْ سورة الأنبياء(21) 5
بَلْ سورة الأنبياء(21) 18
بَلْ سورة الأنبياء(21) 24
بَلْ سورة الأنبياء(21) 26
بَلْ سورة الأنبياء(21) 40