اَلضَّلَالُ: کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں۔ اور یہ ہدایت کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے۔ قران پاک میں ہے: (مَنِ اہۡتَدٰی فَاِنَّمَا یَہۡتَدِیۡ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیۡہَا) (۱۷:۱۵) جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے لیے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا۔ اور ضَلَالٌ کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصداً ہو یا سہواً، معمولی ہو یا زیادہ۔ کیونکہ طریق مستقیم، جو پسندیدہ راہ ہے … پر چلنا نہایت دشوار امر ہے جیساکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: (1) (۱۱) (اِسْتَقِیْمُوْا وَلَنْ تُحْصُوْا) کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے۔ حکماء نے کہا ہیکہ صحت وراستی کی راہ تو صرف ایک ہی ہے مگر گمراہی کے متعدد راستے ہیں کیونکہ استقامت اور صواب کی مثال تیر کے ٹھیک نشانہ پر بیٹھ جانے کی ہے اور صحیح نشانہ کے علاوہ ہر جہت کا نام ضلالت ہے۔ ہمارے اس قول کی تائید بعض صالحین کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کو خواب میں دیکھا اور عرض کی یارسول اﷲ ﷺ جناب کے اس فرمان کے کیا معنی ہیں: (2) (۱۲) (شَیَّبَتْنِیْ سُوْرَۃُ ھُوْدٍ وَّاَخَوَاتُھَا) کہ سورہ ھود اور اس کی ہم مثل دوسری سورتوں نے مجھے بوڑھا کردیا ہے۔ تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا: سورۂ ھود کی جس آیت نے مجھے بوڑھا کردیا وہ آیت: (فَاسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ) (۱۱:۱۱۲) ہے یعنی اے پیغمبر! ٹھیک اسی طرح سیدھے رہو جیساکہ تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ جب کہ ضلال کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں، خواہ وہ ہٹنا عمداً ہو یا سہواً، تھوڑا ہو یا زیادہ۔ تو جس سے بھی کسی قسم کی غلطی سرزد ہوگی اس کے متعلق ہم ضلالت کا لفظ استعمال کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام اور کفار دونوں کی طرف ضلالت میں بون بعید پایا جاتا ہے۔ دیکھیے آنحضرت ﷺ کو آیت کریمہ: (وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ) (۹۳:۷) میں ضالاً فرمایا ہے جس کے معنی ہیں کہ ہدایتِ نبوت کے عطا ہونے سے قبل تم اس راہ نمائی سے محروم تھے اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارے میں ان کی اولاد کا یہ کہنا: (اِنَّکَ لَفِیۡ ضَلٰلِکَ الۡقَدِیۡمِ ) (۱۲:۹۵) کہ آپ اسی پرانی غلطی میں (مبتلا) ہیں۔ یا یہ کہنا: (اِنَّ اَبَانَا لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنِ) (۱۲:۸) کچھ شک نہیں کہ ابا صریح غلطی پر ہیں۔ تو ان آیات میں ضلال سے مراد یہ ہے کہ وہ یوسف علیہ السلام کی محبت اور ان کے اشتیاق میں سرگرداں ہیں۔ اسی طرح آیت کریمہ: (قَدۡ شَغَفَہَا حُبًّا ؕ اِنَّا لَنَرٰىہَا فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ) (۱۲:۳۰) اس کی محبت ان کے دل میں گھر کرگئی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صریح گمراہی میں ہیں۔ میں بھی صلال مبین سے والہانہ محبت مراد ہے۔ اور آیت کریمہ: (وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِّیۡنَ ) (۲۶:۲۰) اور میں خطاکاروں میں تھا۔ میں موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ضال ہونے کا اعتراف کرکے اشارہ کیا ہے کہ قتل نفس کا ارتکاب مجھ سے سہوًا ہوا تھا۔ اور آیت: (اَنۡ تَضِلَّ اِحۡدٰىہُمَا) (۲:۲۸۲) اور اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی۔ میں تَضِلَّ کے معنی بھول جانا کے ہیں اور یہی وہ نسیان ہے جسے عفو قرار دیا گیا ہے۔(3) ایک دوسرے اعتبار سے ضَلَالَۃٌ کی دو قسمیں ہیں (۱) علوم نظریہ یعنی توحید و نبوات وغیرہما کی معرفت میں غلطی کرنا چنانچہ آیت کریمہ: (وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا) (۴:۱۲۶) اور جو شخص خدا اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور روزقیامت سے انکار کرے وہ رستے سے بھٹک کر دور جاپڑا۔ میں اس قسم کی گمراہی کو ضَلَالًا بَعِیْدًا کہا گیا ہے۔ (۲) علوم عملیہ میں ضلالۃ ہے جس کے معنی ہیں احکام شرعیہ یعنی عبادات اور معاملات کی معرفت میں غلطی کرنا اور آیت مذکورہ میں ضَلَالًا بَعِیْدًا سے اس کے کفر ہونے کی طرف اشارہ ہے جیساکہ آیت کے ابتداء وَمَنْ یَّکْفُرْ اور آیت: (اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ قَدۡ ضَلُّوۡا ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا ) (۴:۱۶۷) جن لوگوں نے کفر کیا اور دوسروں کو خدا کے رستے سے روکا، وہ رستے سے بھٹک کر دور جاپڑے، سے معلوم ہوتا ہے۔ اور آیت: (فِی الۡعَذَابِ وَ الضَّلٰلِ الۡبَعِیۡدِ) (۲۴:۸) میں بھی یہی معنی مراد ہیں۔ اور فِیْ کے معنی یہ ہیں کہ اس گمراہی کی سزا میں گرفتار ہوں گے اور یہی معنی آیت: (اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا فِیۡ ضَلٰلٍ کَبِیۡرٍ) (۶۷:۹) میں مراد ہیں۔ نیز فرمایا: (قَدۡ ضَلُّوۡا مِنۡ قَبۡلُ وَ اَضَلُّوۡا کَثِیۡرًا وَّ ضَلُّوۡا عَنۡ سَوَآءِ السَّبِیۡلِ) (۵:۷۷) جو (خود بھی) پہلے خود گمراہ ہوئے اور بھی بہت کو گمراہ کیا اور سیدھی راہ سے بھٹک گئے۔ اور آیت کریمہ: (ءَ اِذَا ضَلَلۡنَا فِی الۡاَرۡضِ) (۳۲:۱۰) کے معنی یہ ہیں کہ جب مرنے کے بعد مٹی میں مل کر ضائع ہوجائیں گے۔ اور ایت کریمہ: (وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ) (۱:۷) کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ اس سے نصاریٰ مراد ہیں۔ اور آیت کریمہ: (لَا یَضِلُّ رَبِّیۡ وَ لَا یَنۡسَی ) (۲۰:۵۲) کے معنی ہیں: لَایَضِلُّ عَنْ رَبِّیْ وَلَا یَضُِّْ رَبِّیْ عَنْہُ ہیں یعنی میرے پروردگار کو کوئی چیز غافل نہیں کرتی اور آیت: (اَلَمۡ یَجۡعَلۡ کَیۡدَہُمۡ فِیۡ تَضۡلِیۡلٍ) (۱۰۵:۲) کیا ان کی تدبیر کو ضائع نہیں کیا گیا۔ میں فشیْ تَضْلِیْلٍ کے معنی ضائع کردینا اور غلط راہ پر لگادینا کے ہیں۔ اَلْاِضْلَالُ (یعنی دوسرے کو گمراہ کرنے کی دو صورتیں ہوسکتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا سبب خود اپنی صلالت ہو۔ یہ دو قسم پر ہے: (۱) ایک یہ کہ کوئی چیز ضائع ہوجائے۔ مثلاً: کہا جاتا ہے اَضْلَلْتُ الْبَعِیْرَ: میرا اونٹ کھوگیا۔ (۲) دوم کہ دوسرے پر ضلالت کا حکم لگانا ان دونوں صورتوں میں اِضْلَالٌ کا سبب ضَلَالَۃُ ہی ہوتی ہے۔ دوسری صورت اِضْلَال کی پہلی کے برعکس ہے، یعنی اِضلال بذاتہٖ ضلالۃ کا سبب بنے اسی طرح پر کہ کسی انسان کو مگارہ کرنے کے لیے باطل اس کے سامنے پر فریب اور جاذب انداز میں پیش کیا جائے جیسے فرمایا: (َہَمَّتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ اَنۡ یُّضِلُّوۡکَ ؕ وَ مَا یُضِلُّوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ) (۴:۱۱۳) ان میں سے ایک جماعت تم کو بہکانے کا قصد کرہی چکی تھی اور یہ اپنے سوا کسی کو بہکا نہیں سکتے۔ یعنی وہ اپنے اعمال سے تجھے گمراہ کرنے کی کوشش میں ہیں مگر وہ اپنے اس کردار سے خود ہی گمراہ ہورہے ہیں۔ اور شیطان کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا: (وَّ لَاُضِلَّنَّہُمۡ وَ لَاُمَنِّیَنَّہُمۡ) (۴:۱۱۹) اور ان کو گمراہ کرتا اور امیدیں دلاتا رہوں گا۔ اور شیطان کے بارے میں فرمایا: (وَ لَقَدۡ اَضَلَّ مِنۡکُمۡ جِبِلًّا کَثِیۡرًا) (۳۶:۶۲) اور اس نے تم میں سے بہت سی خلقت کو گمراہ کردیا تھا۔ (وَ یُرِیۡدُ الشَّیۡطٰنُ اَنۡ یُّضِلَّہُمۡ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا) (۴:۶۰) اور شیطان تو چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر ستے سے دور ڈال دے۔ (وَ لَا تَتَّبِعِ الۡہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ) (۳۸:۲۶) اور خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں خدا کے رستے سے بھٹکا دے گی۔ اﷲ تعالیٰ کے انسان کو گمراہ کرنے کی دو صورتیں ہی ہوسکتی ہیں (۱) ایک یہ کہ اس کا سبب انسان کی خود اپنی ضلالت ہو اس صورت میں اﷲ تعالیٰ کی طرف اضلال کی نسبت کے یہ معنی ہوں گے کہ جب انسان ازخود گمراہ ہوجاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں اس پر گمراہی کا حکم ثبت ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آخرت کے دن اسے جنت کے راستہ سے ہٹاکر دوزخ کے راستہ پر ڈال دیا جائے گا۔ (۲) اور اﷲ تعالیٰ کی طرف اضلال کی نسبت کے دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ باری تعالیٰ نے انسان کی جبلت ہی کچھ اس قسم کی بنائی ہے کہ جب انسان کسی اچھے یا بُرے راستہ کو اختیار کرلیتا ہے تو اس سے مانوس ہو جاتا ہے اور اسے اچھا سمجھنے لگتا ہے اور آخرکار اس پر اتنی مضبوطی سے جم جاتا ہے کہ اس راہ سے ہٹانا یا اس کا خود اسے چھوڑ دینا دشوار ہوجاتا ہے اور وہ اعمال اس کی طبیعت ثانیہ بن جاتے ہیں اسی اعتبار سے کہا گیا ہے کہ عادت ’’طبیعہ ثانیہ‘‘ ہے۔ پھر جب انسان کی اس قسم کی فطرت اﷲ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے اور دوسرے مقام پر ہم بیان کرچکے ہیں کہ فعل کی نسبت اس کے سبب کی طرف بھی ہوسکتی ہے لہٰذا اضلال کی نسبت اﷲ تعالیٰ کی طرف بھی ہوسکتی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اسے گمراہ کردیا ورنہ باری تعالیٰ کے گمراہ کرنے کے وہ معنی نہیں ہیں جو عوام جہلاء سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے اﷲ تعالیٰ کی طرف گمراہ کرنے کی نسبت اسی جگہ کی ہے جہاں کافر اور فاسق لوگ مراد ہیں کہ مومن بلکہ حق تعالیٰ نے مؤمنین کو گمراہ کرنے کی اپنی ذات سے نفی فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: (وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِلَّ قَوۡمًۢا بَعۡدَ اِذۡ ہَدٰىہُمۡ ) (۹:۱۱۵) اور خدا ایسا نہیں ہے کہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ کردے۔ (فَلَنۡ یُّضِلَّ اَعۡمَالَہُمۡ … سَیَہۡدِیۡہِمۡ ) (۴۸:۴) ان کے عملوں کو ہرگز ضائع نہ کرے گا بلکہ ان کو سیدھے رستے پر چلائے گا۔ اور کافر اور فاسق لوگوں کے متعلق فرمایا: (فَتَعۡسًا لَّہُمۡ وَ اَضَلَّ اَعۡمَالَہُمۡ) (۴۷:۸) ان کے لیے ہلاکت ہے اور وہ ان کے اعمال کو برباد کردے گا۔ (وَ مَا یُضِلُّ بِہٖۤ اِلَّا الۡفٰسِقِیۡنَ ) (۲:۲۶) اور گمراہ بھی کرتا یہ تو نافرمانوں ہی کو۔ (یُضِلُّ اللّٰہُ الۡکٰفِرِیۡنَ) (۴۰:۷۴) اسی طرح خدا کافروں کو گمراہ کرتا یہ۔ (وَ یُضِلُّ اللّٰہُ الظّٰلِمِیۡنَ) (۱۴:۲۷) اور خدا بے انصافوں کو گمراہ کردیتا ہے۔ اور آیت کریمہ: (وَ نُقَلِّبُ اَفۡـِٕدَتَہُمۡ ) (۶:۱۱۰) اور ہم ان کے دلوں کو الٹ دیں گے۔ (خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ ) (۲:۷) خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگارکھی ہے۔ (فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا) (۲:۱۰) ان کے دلوں میں (کفر کا) مرض تھا خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا۔ میں دلوں کے پھیر دینے اور ان پر مہر لگادینے اور ان کی مرض میں اضافہ کردینے سے بھی یہی معنی مراد ہیں۔
Words | Surah_No | Verse_No |
الضَّاۗلُّوْنَ | سورة آل عمران(3) | 90 |
الضَّاۗلُّوْنَ | سورة الحجر(15) | 56 |
الضَّاۗلُّوْنَ | سورة الواقعة(56) | 51 |
الضَّاۗلِّيْنَ | سورة الفاتحة(1) | 7 |
الضَّاۗلِّيْنَ | سورة البقرة(2) | 198 |
الضَّاۗلِّيْنَ | سورة الأنعام(6) | 77 |
الضَّاۗلِّيْنَ | سورة الشعراء(26) | 20 |
الضَّاۗلِّيْنَ | سورة الشعراء(26) | 86 |
الضَّاۗلِّيْنَ | سورة الواقعة(56) | 92 |
الضَّلٰلَةَ | سورة البقرة(2) | 16 |
الضَّلٰلَةَ | سورة البقرة(2) | 175 |
الضَّلٰلَةَ | سورة النساء(4) | 44 |
الضَّلٰلَةُ | سورة الأعراف(7) | 30 |
الضَّلٰلَةُ | سورة النحل(16) | 36 |
الضَّلٰلَةِ | سورة مريم(19) | 75 |
الضَّلٰلُ | سورة يونس(10) | 32 |
الضَّلٰلُ | سورة إبراهيم(14) | 18 |
الضَّلٰلُ | سورة الحج(22) | 12 |
الْمُضِلِّيْنَ | سورة الكهف(18) | 51 |
اَضَلَّ | سورة النساء(4) | 88 |
اَضَلَّ | سورة الروم(30) | 29 |
اَضَلَّ | سورة يس(36) | 62 |
اَضَلَّ | سورة محمد(47) | 1 |
اَضَلَّنَآ | سورة الشعراء(26) | 99 |
اَضَلَّنِيْ | سورة الفرقان(25) | 29 |
اَضَلُّ | سورة الأعراف(7) | 179 |
اَضَلُّ | سورة الفرقان(25) | 42 |
اَضَلُّ | سورة الفرقان(25) | 44 |
اَضَلُّ | سورة القصص(28) | 50 |
اَضَلُّ | سورة حم السجدہ(41) | 52 |
اَضَلُّ | سورة الأحقاف(46) | 5 |
اَضَلُّوْا | سورة نوح(71) | 24 |
اَضَلُّوْنَا | سورة الأعراف(7) | 38 |
اَضَلّٰنَا | سورة حم السجدہ(41) | 29 |
اَضِلُّ | سورة سبأ(34) | 50 |
اَضْلَلْتُمْ | سورة الفرقان(25) | 17 |
اَضْلَلْنَ | سورة إبراهيم(14) | 36 |
تَضِلَّ | سورة البقرة(2) | 282 |
تَضِلُّوا | سورة النساء(4) | 44 |
تَضِلُّوْا | سورة النساء(4) | 176 |
تَضْلِيْلٍ | سورة الفيل(105) | 2 |
تُضِلُّ | سورة الأعراف(7) | 155 |
ضَاۗلًّا | سورة الضحى(93) | 7 |
ضَاۗلِّيْنَ | سورة المؤمنون(23) | 106 |
ضَاۗلِّيْنَ | سورة الصافات(37) | 69 |
ضَلَلْتُ | سورة الأنعام(6) | 56 |
ضَلَلْتُ | سورة سبأ(34) | 50 |
ضَلَلْنَا | سورة السجدة(32) | 10 |
ضَلُّوْا | سورة النساء(4) | 167 |
ضَلُّوْا | سورة المائدة(5) | 77 |