Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلْاُذُنُ کے معنی کان کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر ہنڈیا کی کوروں کو اُذُنُ القِدْرِ کہا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر ہر اس شخص پر اُذُنٌ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ جو ہر ایک کی بات سن کر اسے مان لیتا ہو۔ چنانچہ فرمایا: (وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہُوَ اُذُنٌ ؕ قُلۡ اُذُنُ خَیۡرٍ لَّکُمۡ ) (۹:۶۱) اور کہتے ہیں یہ شخص نرا کان ہے ان سے کہہ دو کہ وہ کان ہے تو تمہاری بھلائی کے لیے۔ او رآیت کریمہ : (وَ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ وَقۡرًا) (۶:۲۵) اور ان کے کانوں میں گرانی پیدا کردی ہے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ بہرے ہوگئے ہیں بلکہ اس سے ان کی جہالت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ اور اَذِنَ (الیہ) کے معنی توجہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا : (وَ اَذِنَتۡ لِرَبِّہَا وَ حُقَّتۡ ) (۸۴:۵،۲) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سنے گی اور اُسے واجب بھی ہے اور اِذْنٌ کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو۔ جیسے فرمایا : (فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ) (۲:۲۷۹) تو خبردار ہوجاؤ کہ اﷲ اور رسول سے تمہاری جنگ ہے۔ اور اِذْنٌ و اَذَانٌ ہر سنی ہوئی بات کو کہتے ہیں اور ان سے علم مراد لیا جاتا ہے۔ کیونکہ ہمارا اکثر علم مسموعات پر مبنی ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (ائۡذَنۡ لِّیۡ وَ لَا تَفۡتِنِّیۡ ) (۹:۴۹) مجھے اجازت دے دیجیے اور آفت میں نہ ڈالیے۔ (وَ اِذۡ تَاَذَّنَ رَبُّکَ ) (۷:۱۶۷) اور (اس وقت کو یاد کرو) جب تمہارے پروردگار نے (یہود کو) آگاہ کردیا تھا۔ اَذِنْتُہٗ بِکَذَا وَاٰذَنْتُہٗ کے ایک معنی ہیں یعنی اطلاع دینا اور اعلان کرنا او راعلان کرنے والے کو مُؤَذِّنٌ کہا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے : (ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَیَّتُہَا الۡعِیۡرُ ) (۱۲:۷۰) تو ایک پکارنے والے نے آواز دی کہ اے قافلے والو۔ (فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیۡنَہُمۡ ) (۷:۴۴) (تو اس وقت) ان میں سے ایک پکارنے والا پکار دے گا۔ (وَ اَذِّنۡ فِی النَّاسِ بِالۡحَجِّ ) (۲۲:۲۷) اور لوگوں میں حج کے لیے اعلان کردو۔ اَلْاَذِیْنُ وہ خاص جگہ جہاں اذان کی آواز پہنچتی ہو۔ اَلْاِذْنُ فِی الشَّیْئِ کے معنی ہیں یہ بتادینا کہ کسی چیز میں اجازت اور رخصت ہے۔ او رآیت کریمہ : (وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ) (۴:۶۴) او رہم نے پیغمبر بھیجا ہی اس لیے ہے کہ خدا کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے۔ میں اِذْن بمعنی ارادہ او رحکم ہے (اسی طرح فرمایا) : (وَ مَاۤ اَصَابَکُمۡ یَوۡمَ الۡتَقَی الۡجَمۡعٰنِ فَبِاِذۡنِ اللّٰہِ ) (۳:۱۶۶) اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مقابلے کے دن واقع ہوئی سو خدا کے حکم سے واقع ہوئی۔ (وَ مَا ہُمۡ بِضَآرِّیۡنَ بِہٖ مِنۡ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ) (۲:۱۰۲) اور خدا کے حکم کے سوا وہ اس (جادو) سے کسی کام کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے تھے۔ (وَ لَیۡسَ بِضَآرِّہِمۡ شَیۡئًا اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ) (۵۸:۱۰) مگر خدا کے حکم کے سوا انہیں کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی علم الٰہی کے ہیں مگر اِذْن اور علم میں فرق ہے کیونکہ اِذْنٌ کا لفظ خاص ہے اور اس کا استعمال اس موقع پر ہوتا ہے جہاں علم کے ساتھ مشیت بھی شامل ہو عام اس سے کہ وہ فعل پسندیدہ ہو یا پسندیدہ نہ ہو۔ لیکن علم میں مشیت کا ہونا ضروری ہے چنانچہ آیت کریمہ : (وَ مَا کَانَ لِنَفۡسٍ اَنۡ تُؤۡمِنَ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ) (۱۰:۱۰۰) حالانکہ کسی شخص کو قدرت نہیں ہے کہ خدا کے حکم کے بغیر ایمان لائے۔ میں طاہر ہے کہ اﷲ کی مشیت او راس کا امر دونوں پائے جاتے ہیں۔ (1) او رآیت کریمہ : (وَ مَا ہُمۡ بِضَآرِّیۡنَ بِہٖ مِنۡ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ) (۲:۱۰۲) او رخدا کے حکم کے سوا وہ اس (جادو) سے کسی کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے تھے۔ میں مشیت من وجہ پائی جاتی ہے، کیونکہ یہ امر مسلّم ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو طبعی طور پر ایسا بنایا ہے کہ دوسرے کی ضرب سے متاثر ہو اور اسے اس سے گزند پہنچے۔ وہ پتھر کی طرح نہیں ہے کہ کسی قسم کی ضرب سے اسے تکلیف نہ ہو اور یہ بھی ظاہر ہے کہ انسان میں اس قسم کی قوت کا پایا جانا اﷲ تعالیٰ کے فعل سے ہے۔ اس اعتبار سے جب کسی شخص کو ظالم کے ظلم سے تکلیف پہنچتی ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ اﷲ کے اذن اور مشیت سے ہی پہنچی ہے۔ یہ ایک جداگانہ موضوع ہے۔ جس کی تفصیل کے لیے دوسری کتاب درکار ہے۔ اَلْاِسْتِئْذَانُ کے معنی اجازت طلب کرنا کے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے : (اِنَّمَا یَسۡتَاۡذِنُکَ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ) (۹:۴۵) اجازت وہی لوگ مانگتے ہیں جو خدا پر او رپچھلے دن پر ایمان نہیں رکھتے۔ (فَاِذَا اسۡتَاۡذَنُوۡکَ ) (۲۴:۶۲) سو جب یہ لوگ تم سے (کسی کام کے لیے) اجازت مانگا کریں۔ اِذَنْ۔ یہ جواب اور جزا کے لیے آتا ہے یعنی لفظًا یا تقدیراً جواب کو چاہتا ہے او راس کے بعد کا کلام جزا کے معنی کو متضمن ہوتا ہے۔ جب یہ شروع کلام میں آئے او راس کے بعد فعل مضارع ہو تو حتماً اس کو نصب دے گا۔ اِذَنْ اَخْرُجَ لیکن جب اثنائے کلام میں آئے او رپھر اس کے بعد فعل مضارع ہو تو فعل مضارع پر رفع اور نصب دونوں جائز ہیں جیسے اَنَا اِذَنْ اَخْرُجُ وَاَخْرُجَ مگر جب فعل کے بعد آئے یا اس کے بعد فعل مضارع ہی نہ ہو تو عمل نہیں کرتا(2) جیسے اَنَا اَخْرُجُ اِذَنْ قرآن میں ہے : (اِنَّکُمۡ اِذًا مِّثۡلُہُمۡ ) (۴:۱۴۰) ورنہ تم بھی انہی جیسے ہوجاؤ گے۔

Words
Words Surah_No Verse_No
بِاِذْنِ سورة إبراهيم(14) 23
بِاِذْنِ سورة إبراهيم(14) 25
بِاِذْنِ سورة سبأ(34) 12
بِاِذْنِ سورة فاطر(35) 32
بِاِذْنِ سورة مومن(40) 78
بِاِذْنِ سورة المجادلة(58) 10
بِاِذْنِ سورة التغابن(64) 11
بِاِذْنِ سورة القدر(97) 4
بِاِذْنِهٖ سورة البقرة(2) 213
بِاِذْنِهٖ سورة البقرة(2) 221
بِاِذْنِهٖ سورة البقرة(2) 255
بِاِذْنِهٖ سورة المائدة(5) 16
بِاِذْنِهٖ سورة هود(11) 105
بِاِذْنِهٖ سورة الحج(22) 65
بِاِذْنِهٖ سورة الأحزاب(33) 46
بِاِذْنِهٖ سورة الشورى(42) 51
بِاِذْنِيْ سورة المائدة(5) 110
بِاِذْنِيْ سورة المائدة(5) 110
بِاِذْنِيْ سورة المائدة(5) 110
بِاِذْنِيْ سورة المائدة(5) 110
بِاِذْنِھٖ سورة آل عمران(3) 152
تَاَذَّنَ سورة الأعراف(7) 167
تَاَذَّنَ سورة إبراهيم(14) 7
فَاسْتَاْذَنُوْكَ سورة التوبة(9) 83
فَاَذَّنَ سورة الأعراف(7) 44
فَاْذَنُوْا سورة البقرة(2) 279
فَاْذَنْ سورة النور(24) 62
فَبِاِذْنِ سورة آل عمران(3) 166
فَبِاِذْنِ سورة الحشر(59) 5
فَلْيَسْتَاْذِنُوْاكَمَا سورة النور(24) 59
لِيَسْتَاْذِنْكُمُ سورة النور(24) 58
لِيُؤْذَنَ سورة التوبة(9) 90
مُؤَذِّنٌ سورة يوسف(12) 70
مُؤَذِّنٌۢ سورة الأعراف(7) 44
وَالْاُذُنَ سورة المائدة(5) 45
وَاَذَانٌ سورة التوبة(9) 3
وَاَذِنَتْ سورة الانشقاق(84) 2
وَاَذِنَتْ سورة الانشقاق(84) 5
وَاَذِّنْ سورة الحج(22) 27
وَيَسْتَاْذِنُ سورة الأحزاب(33) 13
يَاْذَنَ سورة يوسف(12) 80
يَاْذَنْۢ سورة الشورى(42) 21
يَسْتَاْذِنُكَ سورة التوبة(9) 44
يَسْتَاْذِنُوْنَكَ سورة التوبة(9) 93
يَسْتَاْذِنُوْنَكَ سورة النور(24) 62
يَسْتَاْذِنُوْهُ سورة النور(24) 62
يَسْـتَاْذِنُكَ سورة التوبة(9) 45
يَّاْذَنَ سورة النجم(53) 26
يُؤْذَنَ سورة النور(24) 28
يُؤْذَنُ سورة النحل(16) 84