Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلسَّلْمُ وَالسَّلَامَۃُ کے معنیٰ ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنے کے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (بِقَلۡبٍ سَلِیۡمٍ… ) (۲۶:۸۹) پاک دل (لے کر آیا وہ بچ جائے گا۔ یعنی وہ دل جو دغا اور کھوٹ سے پاک ہو تو یہ سلامت باطن کے متعلق ہے اور ظاہری عیوب سے سلامتی کے متعلق فرمایا: (مُسَلَّمَۃٌ لَّا شِیَۃَ فِیۡہَا) (۲:۷۱) اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو۔ پس سَلِمَ یَسْلَمُ سَلَامَۃً وَسَلَامًا کے معنیٰ سلامت رہنے اور سَلَّمَہُ اﷲُ (تفعیل) کے معنی سلامت رکھنے کے ہیں۔ جیسے فرمایا: (وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ سَلَّمَ) (۸:۴۳) لیکن خدا نے (تمہیں) اس سے بچالیا۔ (اُدۡخُلُوۡہَا بِسَلٰمٍ اٰمِنِیۡنَ ) (۱۵:۴۶) ان میں سلامتی (اور خاطر جمع) سے داخل ہوجاؤ۔ اسی طرح فرمایا: (اہۡبِطۡ بِسَلٰمٍ مِّنَّا……) (۱۱:۴۸) ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ … اتر آؤ۔ اور حقیقی سلامتی تو جنت ہی میں حاصل ہوگی جہاں کہ بقا ہے۔ فنا نہیں، غنا ہے احتیاج نہیں، عزت ہے، ذلّت نہیں، صحت ہے بیماری نہیں، چنانچہ اہل جنت کے متعلق فرمایا: (لَہُمۡ دَارُ السَّلٰمِ) (۶:۱۲۷) ان کے لیے … سلامتی کا گھر ہے۔ (وَ اللّٰہُ یَدۡعُوۡۤا اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ) (۱۰:۲۵) اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے۔ (یَّہۡدِیۡ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضۡوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ ) (۵:۱۶) جس سے خدا اپنی رضامندی پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے۔ ان تمام آیات میں سلام بمعنیٰ سلامتی کے ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں اَلسَّلَامُ اسمائے حسنیٰ سے ہے اور یہی معنیٰ آیت ’’لَھُمْ دَارُالسَّلَامِ‘‘ میں بیان کئے گئے ہیں۔ اور آیت: (السَّلٰمُ الۡمُؤۡمِنُ الۡمُہَیۡمِنُ) (۵۹:۲۳) سلامتی امن دینے والا نگہبان۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے وصف سلام کے ساتھ موصوف ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ عیوب و آفات مخلوق کو لاحق ہوتے ہیں اﷲ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے۔ اور آیت: (سَلٰمٌ ۟ قَوۡلًا مِّنۡ رَّبٍّ رَّحِیۡمٍ) (۳۶:۵۸) پروردگار مہربان کی طرف سے سلام (کہا جائے گا) (سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ بِمَا صَبَرۡتُمۡ ) (۱۳:۲۴) (اور کہیں گے) تم پر رحمت ہو (یہ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے۔ (سَلٰمٌ عَلٰۤی اِلۡ یَاسِیۡنَ ) (۳۷:۱۳۰) کہ الیاسین پر سلام اور اس مفہوم کی دیگر آیات میں سلام علیٰ آیا ہے تو ان لوگوں کی جانب سے تو سلامتی بذریعہ قول مراد ہے یعنی سَلَامٌ عَلٰی … کے ساتھ دعا کرنا اور اﷲ تعالیٰ کی جانب سے سلامتی بالفعل مراد ہے۔ یعنی جنت عطا فرمانا۔ جہاں کہ حقیقی سلامتی حاصل ہوگی۔ جیساکہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں۔ اور آیت: (وَّ اِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا) (۲۵:۶۳) اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں۔ میں قَالُوا سَلَامًا کے معنیٰ ہیں ہم تم سے سلامتی چاہتے ہیں۔ تو اس صورت میں سَلَامًا منصوب بالفعل المضمر ہوگا۔ یعنی نَطْلُبُ مِنْکَ السَّلَامَ اور بعض نے قَالُوا سقلَامًا کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اچھی بات کہتے ہیں تو اس صورت میں یہ مصدر محذوف (یعنی قولاً) کی صفت ہوگا۔ اور آیت کریمہ: (اِذۡ دَخَلُوۡا عَلَیۡہِ فَقَالُوۡا سَلٰمًا) (۵۱:۲۵) جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔ میں دوسرے سلام پر رفع اس لیے ہے کہ یہ باب دعا سے ہے اور صیغہ دعا میں رفع زیادہ بلیغ ہے گویا اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس ادب کو ملحوظ رکھا ہے جس کا کہ آیت: (وَ اِذَا حُیِّیۡتُمۡ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡہَاۤ ) (۴:۸۶) اور جب تم کو کوئی دعا دے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمے) سے (اسے) دعا دو۔ میں حکم دیا گیا ہے اور ایک قرأت میں سِلْمٌ ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ سَلَام سِلْم (صلح) کو چاہتا تھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ان سے خؤف محسوس کرچکے تھے پھر جب انہیں سلام کہتے ہوئے سنا تو اس کو پیغام صلح پر محمول کیا اور جواب میں سِلْمٌ کہہ کر اس بات پر تنبیہ کی کہ جیسے تم نے پیغام صلح دیا ہے۔ ایسے ہی میری جانب سے بھی پیغام صلح قبول ہو۔ اور آیت کریمہ: (لَا یَسۡمَعُوۡنَ فِیۡہَا لَغۡوًا وَّ لَا تَاۡثِیۡمًا …… اِلَّا قِیۡلًا سَلٰمًا سَلٰمًا) (۵۶:۲۵،۲۶) وہاں نہ بے ہودہ بات سنیں گے اور نہ گالی گلوچ۔ ہاں ان کا کلام سلام (ہوگا) ۔ کے معنیٰ یہ ہیں کہ بات صرف بذریعہ قول ہی نہیں ہوگی۔ بلکہ قولاً اور فعلاً دونوں طرح ہوگی۔ اسی طرح آیت: (فَسَلٰمٌ لَّکَ مِنۡ اَصۡحٰبِ الۡیَمِیۡنِ ) (۲۶:۹۱) تو (کہا جائے گاکہ) تم پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام۔ میں بھی سلام دونوں معنیٰ پر محمول ہوسکتا ہے اور آیت: (وَ قُلۡ سَلٰمٌ) (۴۳:۸۹) اور سلام کہہ دو۔ میں بظاہر تو سلام کہنے کا حکم ہے لیکن فی الحقیقت ان کے شر سے سلامتی کی دعا کرنے کا حکم ہے اور آیات سلام جیسے: (سَلٰمٌ عَلٰی نُوۡحٍ فِی الۡعٰلَمِیۡنَ ) (۳۷:۷۹) (یعنی) تمام جہاں میں … نوح علیہ السلام پر سلام۔ (سَلٰمٌ عَلٰی مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ ) (۳۷:۱۲۰) کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام۔ (سَلٰمٌ عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ ) (۳۷:۱۰۹) ابراہیم علیہ السلام پر سلام۔ میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان انبیاء اور ابراہیم علیہ السلام کو اس قدر مرتبہ عطا کیا تھا کہ لوگ ہمیشہ ان کی تعریف کرتے اور ان کے لئے سلامتی کے ساتھ دعا کرتے رہیں گے اور فرمایا: (فَاِذَا دَخَلۡتُمۡ بُیُوۡتًا فَسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ) (۲۴:۶۱) اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے (گھر والوں) کو سلام کیا کرو۔ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کہا کرو۔ (اَلسَّلَامُ وَالسِّلْمُ وَالسَّلْمُ) کے معنیٰ صلح کے ہیں۔ چنانچہ فرمایا: (وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَلۡقٰۤی اِلَیۡکُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا) (۴:۹۴) اور جو شخص تم سے سلام علیک کہے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں۔ بعض نے کہا ہے: یہ آیت اس شخص کے حق میں نازل ہوئی جسے باوجود اظہار اسلام اور طلب صلح کے قتل کردیا گیا تھا۔اور فرمایا: (یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ) (۲:۲۰۸) مومنو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ۔ (وَ اِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلۡمِ) (۸:۶۱) اور اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں۔ اس میں ایک قرأت سَلْمَ (بفتحہ سین) بھی ہے۔ (وَ اَلۡقَوۡا اِلَی اللّٰہِ یَوۡمَئِذِۣ السَّلَمَ ) (۱۶:۸۷) اور اس دن خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے۔ (یُدۡعَوۡنَ اِلَی السُّجُوۡدِ وَ ہُمۡ سٰلِمُوۡنَ) (۶۸:۴۳) (اس وقت) سجدے کے لئے بلائے جاتے تھے۔ جب کہ صحیح و سالم تھے۔ اور آیت کریمہ: (وَ رَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ) (۳۹:۲۹) اور ایک آدمی خاص ایک شخص کا (غلام) ہے۔ میں ایک قرأت سَلْمًا وَسِلْمًا بھی ہے اور یہ دونوں مصدر ہیں کہا جاتا ہے۔ سَلِمَ سَلْمًا وَسِلْمًا جیسے رَبِحَ رَبْحًا وَرِبْحًا اور بعض نے کہا ہے کہ سِلْمٌ اسم ہے اور اس کی ضد حَرْبٌ ہے۔ اَلْاِسْلَامُ: اس کے اصل معنیٰ سِلْم (صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنیٰ یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بے خوف ہوجائیں اور یہ اَسْلَمْتُ الشَّیئَ اِلٰی فُلَانٍ (باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سَلَم ہے۔ شرعاً اسلام کی دو قسمیں ہیں کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے، دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان و مال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے۔ اور آیت: (قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا) (۴۹:۱۴) دیہاتی کہتے یہں کہ ہم ایمان لے آئے کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے (بلکہ یوں) کہو اسلام لائے ہیں۔ میں اَسْلَمْنَا سے یہی معنیٰ مراد ہیں۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ دلی اعتقاد بھی ہو اور عملاً اس کے تقاضوں کو پورا کرے۔ مزید برآں یہ کہ ہر طرح سے قضا و قدرالٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کردے۔ جیساکہ آیت: (اِذۡ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗۤ اَسۡلِمۡ ۙ قَالَ اَسۡلَمۡتُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ) (۲:۱۳۱) جب ان سے ان کے رب نے فرمایا: کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سر اطاعت خم کرتا ہوں۔ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق مذکور ہے اور فرمایا: (اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ) (۳:۱۹) (کہ) دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے۔ اور آیت: (تَوَفَّنِیۡ مُسۡلِمًا) (۱۲:۱۰۱) تو مجھے اپنی اطاعت (کی حالت) کیجیئو۔ اٹھائیو۔ کا مفہوم یہ ہے کہ مجھے ان لوگوں میں داخل کیجیئو جو تیری رضا کے تابع ہیں اور بعض نے اس کے یہ معنیٰ بیان کئے ہیں۔ کہ کلیۃً شیطان کے پنجے سے آزاد کردے۔ جیساکہ شیطان نے کہا تھا: (لَاُغۡوِیَنَّہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ …… اِلَّا عِبَادَکَ مِنۡہُمُ الۡمُخۡلَصِیۡنَ) (۳۸:۸۳) میں ان سب کو بہکاتا رہوں گا۔ سوا ان کے جو تیرے خالص بندے ہیں۔ اور آیت: (اِنۡ تُسۡمِعُ اِلَّا مَنۡ یُّؤۡمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَہُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ) (۳۰:۵۳) تم تو انہی لوگوں کو سناسکتے ہو جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں سو وہی فرمانبردار ہیں۔ میں مُسْلِمُوْنَ سے مراد وہ لوگ ہیں جو حق کے تابع اور فرمانبردار ہیں۔ اور آیت: (یَحۡکُمُ بِہَا النَّبِیُّوۡنَ الَّذِیۡنَ اَسۡلَمُوۡا) (۵:۴۴) اسی کے مطابق انبیا جو (خدا کے) فرمانبردار تھے … حکم دیتے رہے ہیں۔ میں وہ انبیاء مراد ہیں جو اگرچہ اولوالعزم پیغمبروں کے تابع تھے لیکن حکم الٰہی سے ہدایت پاتے تھے اور مستقل شرائع لے کر مبعوث ہوئے تھے۔ اَلسُّلَّمُ: اصل میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ بلند مقامات پر چڑھا جاتا ہے۔ تاکہ سلامتی حاصل ہو پھر سَبَبٌ کی طرح ہر اس چیز کو سُلَّمٌ کہا گیا ہے جو کسی بلند جگہ تک پہنچنے کا وسیلہ بنے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (اَمۡ لَہُمۡ سُلَّمٌ یَّسۡتَمِعُوۡنَ فِیۡہِ) (۵۲:۳۸) یا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر آسمان سے باتیں سن آتے ہیں۔ (اَوۡ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ ) (۶:۳۵) یا آسمان میں سیڑھی (تلاش کرو) ۔ اور شاعر نے کہا ہے۔ (1) (۲۳۶) وَلَوْنَالَ اَسْبَابَ السَّمَآئِ بِسُلَّم گو سیڑھی لگاکر آسمان پر کیوں نہ چڑھ جاتے اور سَلْمٌ وَسِلَامٌ ایک قسم کے بڑے درخت کو کہتے ہیں کیونکہ وہ ہر قسم کی آفت سے محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ اَلسِّلَامُ: ایک قسم کا سخت پتھر (اس کا واحد سَلِمَۃٌ ہے) ۔

Words
Words Surah_No Verse_No
ءَاَسْلَمْتُمْ سورة آل عمران(3) 20
السَّلَمَ سورة النساء(4) 90
السَّلَمَ سورة النساء(4) 91
السَّلَمَ سورة النحل(16) 28
السَّلَمَ سورة النحل(16) 87
السَّلْمِ سورة محمد(47) 35
السَّلٰمَ سورة النساء(4) 94
السَّلٰمُ سورة الحشر(59) 23
السَّلٰمِ سورة المائدة(5) 16
السَّلٰمِ سورة الأنعام(6) 127
السَّلٰمِ سورة يونس(10) 25
السِّلْمِ سورة البقرة(2) 208
الْاِسْلَامَ سورة المائدة(5) 3
الْاِسْلَامُ سورة آل عمران(3) 19
الْاِسْلَامِ سورة آل عمران(3) 85
الْاِسْلَامِ سورة الصف(61) 7
الْمُسْلِـمِيْنَ سورة الحج(22) 78
الْمُسْلِمُوْنَ سورة الجن(72) 14
الْمُسْلِمِيْنَ سورة الأنعام(6) 163
الْمُسْلِمِيْنَ سورة يونس(10) 72
الْمُسْلِمِيْنَ سورة يونس(10) 90
الْمُسْلِمِيْنَ سورة النمل(27) 91
الْمُسْلِمِيْنَ سورة الأحزاب(33) 35
الْمُسْلِمِيْنَ سورة الزمر(39) 12
الْمُسْلِمِيْنَ سورة حم السجدہ(41) 33
الْمُسْلِمِيْنَ سورة الأحقاف(46) 15
الْمُسْلِمِيْنَ سورة الذاريات(51) 36
الْمُسْلِمِيْنَ سورة القلم(68) 35
اَسْلَمَ سورة البقرة(2) 112
اَسْلَمَ سورة آل عمران(3) 83
اَسْلَمَ سورة النساء(4) 125
اَسْلَمَ سورة الأنعام(6) 14
اَسْلَمَ سورة الجن(72) 14
اَسْلَمَا سورة الصافات(37) 103
اَسْلَمُوْا سورة آل عمران(3) 20
اَسْلَمُوْا سورة المائدة(5) 44
اَسْلَمُوْا سورة الحجرات(49) 17
اَسْلَمْتُ سورة البقرة(2) 131
اَسْلَمْتُ سورة آل عمران(3) 20
اَسْلَمْنَا سورة الحجرات(49) 14
اَسْلِمُوْا سورة الحج(22) 34
اَسْلِمْ سورة البقرة(2) 131
اُسْلِمَ سورة مومن(40) 66
اِسْلَامَكُمْ سورة الحجرات(49) 17
اِسْلَامِهِمْ سورة التوبة(9) 74
بِسَلٰمٍ سورة هود(11) 48
بِسَلٰمٍ سورة الحجر(15) 46
بِسَلٰمٍ سورة ق(50) 34
تَسْلِــيْمًا سورة النساء(4) 65
تَسْلِــيْمًا سورة الأحزاب(33) 56