اَلرَّبُّ: (ن) کے اصل معنیٰ تربیت کرنا یعنی کسی چیز کو تدریجاً نشوونما دے کر حد کمال تک پہنچانا کے ہیں اور رَبَّہٗ، وَرَبَّاہٗ وَرَبِّبَہٗ تینوں ایک ہی معنیٰ میں استعمال ہوتے ہیں۔ کسی نے کہا ہے۔ (1) لَاَنْ یَرُبَّنِیْ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ اَحَبُّ اِلِیَّ مِنْ اَنْ یُرَبَّنِیْ رَجُلٌ مِنْ ھَوَازِنَ:کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے۔رَبٌّ کا لفظ اصل میں مصدرہے استعارۃ بمعنیٰ فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق(یعنی اضافت اور لام تعریف سے خالی) ہونے کی صورت میں سوائے اﷲ تعالیٰ کے جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چنانچہ ارشاد ہے: (بَلۡدَۃٌ طَیِّبَۃٌ وَّ رَبٌّ غَفُوۡرٌ ) (۳۴۔۱۵) عمدہ شہر اور (آخرت میں) گناہ بخشنے والا پروردگار نیز فرمایا: (وَ لَا یَاۡمُرَکُمۡ اَنۡ تَتَّخِذُوا الۡمَلٰٓئِکَۃَ وَ النَّبِیّٖنَ اَرۡبَابًا ) (۳۔۸۰) اور وہ تم سے (کبھی بھی) یہ نہیں کہے گا کہ فرشتوں اور انبیاء کرام کو خدا مانو(یعنی انہیں معبود بناؤ) اور مسبب الاسباب اور مصالح عباد کو کفیل سمجھو۔اور اضافت کے ساتھ اﷲ تعالیٰ پر بھی بولا جاتا ہے اور دوسروں پر بھی۔چنانچہ فرمایا: (اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ) (۱۔۱) ہر طرح کی حمد خدا ہی کو (سزاوار) ہے(جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے) ۔ (اللّٰہَ رَبَّکُمۡ وَ رَبَّ اٰبَآئِکُمُ الۡاَوَّلِیۡنَ ) (۳۷۔۱۲۶) یعنی اﷲ تعالیٰ کو جو تمہارا بھی پروردگار ہے اور تمہارے پہلے آباؤ اجداد کا بھی۔ رَبُّ الدَّارِ:گھر کا مالک رَبُّ الْفَرَسِ: گھوڑے کا مالک اسی معنیٰ کے اعتبار سے فرمایا: (اذۡکُرۡنِیۡ عِنۡدَ رَبِّکَ ۫ فَاَنۡسٰہُ الشَّیۡطٰنُ ذِکۡرَ رَبِّہٖ ) (۱۲۔۴۲) اپنے آقا سے میرا بھی تذکرہ کرنا۔سو شیطان نے اس کو اپنے آقا سے تذکرہ کرنا بھلادیا۔ (ارۡجِعۡ اِلٰی رَبِّکَ ) (۱۲۔۵۰) اپنے سرکار کے پاس لوٹ جاؤ۔اور آیت کریمہ: (مَعَاذَ اللّٰہِ اِنَّہٗ رَبِّیۡۤ اَحۡسَنَ مَثۡوَایَ) (۱۲۔۲۳) (یسف نے کہا) معاذ اللہ وہ(تمہارا شوہر) میرا آقا ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے۔میں بعض نے کہا ہے کہ رَبِّیْ سے مراد اﷲ تعالیٰ ہے اوربعض نے عزیز مصر مراد لیا ہے لیکن پہلا قول انسب معلوم ہوتا ہے۔ (2) رَبَّانِیٌّ: بقول بعض یہ رَبَّانَ (صیغہ صفت) کی طرف منسوب ہے لیکن عام طور پر فِعْلانٌ (صفت) فَعِلَ سے آتا ہے۔جیسے عَطْشانُ سَکْرانُ اور فَعِلَ (فتحہ عین سے بہت کم آتا ہے) جیسے نَعْسَانَ (مِنْ نَعَس) بعض نے کہا کہ یہ رَبٌّ (مصدر) کی طرف منسوب ہے اور رَبَّانِی‘ُ وہ ہے جو علم کی پرورش کریے جسے حکیم(یعنی جو حکومت کو فروغ دے) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ رَبٌّ مصدر کی طرف ہی منسوب ہے اور رَبَّانِیٌّ وہ ہے جو علم سے اپنی پرورش کرے درحقیقت یہ دونوں معنیٰ باہم متلازم ہیں کیونکہ جس نے علم کی پرورش کی تو اس نے علم کے ذریعہ اپنی ذات کی بھی تربیت کی اور جو شخص اس کے ذریعہ اپنی ذات کی تربیت کرے گا وہ علم کو بھی فروغ بخشے گا۔بعض نے کہا ہے کہ یہ رَبٌّ بمعنیٰ اﷲ کی طرف منسوب ہے اور رَبَّانِیٌّ بمعنیٰ اِلٰھِیٌّ ہے (یعنی اﷲ والا) اور اس میں الف نون زئداتان ہیں جیسا کہ جِسْمٌ وَلِحْیٌ کی نسبت میں جِسْمَانِیٌّ وَلِحْیَانِیٌّ کہا جاتا ہے(3) حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا قول ہے: (۱۶۸) اَنَا رَبَّانِیُّ ھٰذِہٖ الْاُمَّۃِ: میں اس امت کا عالم ربانی ہوں اس کی جمع رَبَّانِیُّونَ ہے۔چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (لَوۡ لَا یَنۡہٰہُمُ الرَّبّٰنِیُّوۡنَ ) (۵۔۶۳) انہیں ان کے رَبِیْ(یعنی مشائخ) کیوں منع نہیں کرتے۔ (کُوْنُوا رَبَّانِِیّیْنَ) (۳۔۷۸) (بلکہ دوسروں سے کہے گا) کہ تم خدا پرست ہوکر رہو۔اور بعض نے کہا ہے کہ رَبَّانِیٌّ اصل میں سریانی لفظ ہے اور یہی قول انسب معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ عربی زبان میں یہ لفظ بہت کم پایا جاتا ہے۔ (4) اور آیت کریمہ: (رِبِیُّوْنَ کَثِیْرٌ) (۳۔۴۵) بہت سے اﷲ والوں نے۔میں رَبِیُّ بمعنیٰ رَبَّانِیٌّ ہے۔ (5) اَلرَّبُوبِیَّۃُ رَالرَّبَانِیَّۃٌ: یہ دونوں مصدر ہیں لیکن اﷲ تعالیٰ کے لئے رَبُوْبِیَّۃٌ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔اَلَّربُّ(صیغۂ صفت) جمع ارباب قرآن پاک میں ہے: (ءَاَرۡبَابٌ مُّتَفَرِّقُوۡنَ خَیۡرٌ اَمِ اللّٰہُ الۡوَاحِدُ الۡقَہَّارُ ) (۱۲۔۳۹) بھلا دیکھو تو سہی کہ جدا جدا معبود اچھے یا خدائے یگانہ اور زبردست۔اصل تو یہ تھا کہ رَبٌّ کی جمع نہ آتی۔کیونکہ قرآن پاک میں یہ لفظ خاص کر ذات باری تعالیٰ کے لئے استعمال ہوا ہے لیکن عقیدۂ کفار کے مطابق بصیغہ جمع استعمال ہوا ہے اور اَرْبَابٌ کے علاوہ اس کی جمع اَرِبَّۃٌ وَرُبُوبٌ بھی آتی ہے۔چنانچہ شاعر نے کہا ہے(6) (بسیط) (۱۶۸) کَانَتْ اَرِبَّتُھُمْ بَھْزٌ وَغَرَّھُمْ عَقْدُ الْجِوَارِ وَکَانُوا مَعْشَرًا غُدْرًا ان کے ہم عہد بنی بہنر تھے جنہیں عقدار جوار نے مغرور کردیا اور درحقیقت وہ غدار لوگ ہیں۔دوسرے شاعر نے کہا ہے۔ (7) (طویل) (۱۶۹) وَکُنْتَ امْرَئً ا اَفْضَتْ اِلَیکَ رِبَابَتِیْ وَقَبْلَکَ رَبَّنیْ فَضعْتُ رُبُوبُ تم وہ آدمی ہو جس تک میری سرپرستی پہنچی ہے تم سے پہلے بہت سے میرے سرپرست بن چکے ہیں۔مگر میں ضائع ہوگیا ہوں۔رَبَابَۃٌ:عہد وپیمان یا اس چیز کو کہتے ہیں جس میں قمار بازی کے تیر لپیٹ کر رکھے جاتے ہیں۔ رَابَّۃٌ:وہ بیوی جو پہلے شوہر سے اپنی اولاد کی تربیت کررہی ہو۔اس کا مذخر رَابٌّ ہے۔لیکن وہ اولاد جو پہلے شوہر سے ہو اور دوسرے شوہر کی زیرتربیت ہو یا پہلی بیوی سے ہو اور دوسری بیوی کی آغوش میں پرورش پارہی ہو۔اسے رَبِیبٌ یَّارَبِیْیَۃٌ کہا جاتا ہے اس کی جمع رَبَائِبُ آتی ہے قرآن پاک میں ہے: (وَ رَبَآئِبُکُمُ الّٰتِیۡ فِیۡ حُجُوۡرِکُمۡ ) (۴۔۲۳) اور تمہاری بیویوں کی (پچھلی) اولاد جو تمہاری گودوں میں (پرورش پاتی) ہے۔ رَبَّیْتُ الْاَدِیْمَ بِالسَّمْنِ: میں نے چمڑے کو گھی لگاکر نرم کیا۔ رَبَّیتُ الدَّوَائَ بِالْعَسَلٍ: میں نے شہد سے دوا کی اصلاح کی۔ سِقَائٌ مَربُوْبٌ: پانی مشک جسے تیل لگاکر نرم کیا گیا ہو۔شاعر نے کہا ہے۔ (8) (طویل) (۱۷۰) فَکُونِیْ لَہٗ کَالسَّمْنِ رُبَّتْ لَہُ الْاَدَمُ تم اس کے لئے ایسی ہوجاؤ جیسے رُبَّ لگا ہوا چمڑا گھی کے لئے ہوتا ہے۔ اَلرَّبَابُ:بادل کو کہتے ہیں کیونکہ وہ نباتات کی پرورش کرتا اور اسے بڑھاتا ہے اسی معنیٰ کے اعتبار سے مَطَرٌ کو دَرٌّ (دودھ) اور بادل کو تشبیہا لَقُوحٌ (یعنی دودھیل اونٹنی) کہا جاتا ہے محاورہ ہے۔ اَرَبَّتِ السَّحَابَۃُ: بدلی متواتر برستی رہی اور اس کے اصل معنیٰ ہیں بدلی صاحب تربیت ہوگئی۔اس کے بعد اس سے ٹھہرنے کا معنیٰ لے کر یہ لفظ کسی جگہ پر مقیم ہونے کے معنیٰ میں استعمال ہونے لگا ہے۔جیسے اَرَبَّ فُلَانٌ بِمَکَان کَذا: اس نے فلاں جگہ پر اقامت اختیار کی۔رُبَّ تقلیل کے لئے آتا ہے اور کبھی تکثیر کے معنیٰ بھی دیتا ہے۔ (9) جیسے فرمایا: (رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ کَانُوۡا مُسۡلِمِیۡنَ ) (۱۵۔۲) کافر بہتیرے ہی ارمان کریں گے (کہ) اے کاش (ہم بھی) مسلمان ہوئے ہوتے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
ءَاَرْبَابٌ | سورة يوسف(12) | 39 |
الرَّبّٰنِيُّوْنَ | سورة المائدة(5) | 63 |
اَرْبَابًا | سورة آل عمران(3) | 64 |
اَرْبَابًا | سورة آل عمران(3) | 80 |
اَرْبَابًا | سورة التوبة(9) | 31 |
اَلِرَبِّكَ | سورة الصافات(37) | 149 |
بِرَبِّ | سورة الأعراف(7) | 121 |
بِرَبِّ | سورة طه(20) | 70 |
بِرَبِّ | سورة الشعراء(26) | 47 |
بِرَبِّ | سورة الشعراء(26) | 98 |
بِرَبِّ | سورة الصافات(37) | 87 |
بِرَبِّ | سورة المعارج(70) | 40 |
بِرَبِّ | سورة الفلق(113) | 1 |
بِرَبِّ | سورة الناس(114) | 1 |
بِرَبِّكَ | سورة بنی اسراءیل(17) | 17 |
بِرَبِّكَ | سورة بنی اسراءیل(17) | 65 |
بِرَبِّكَ | سورة الفرقان(25) | 31 |
بِرَبِّكَ | سورة حم السجدہ(41) | 53 |
بِرَبِّكَ | سورة الإنفطار(82) | 6 |
بِرَبِّنَا | سورة طه(20) | 73 |
بِرَبِّنَآ | سورة الجن(72) | 2 |
بِرَبِّهِمْ | سورة الأنعام(6) | 1 |
بِرَبِّهِمْ | سورة الأنعام(6) | 150 |
بِرَبِّهِمْ | سورة الرعد(13) | 5 |
بِرَبِّهِمْ | سورة إبراهيم(14) | 18 |
بِرَبِّهِمْ | سورة النحل(16) | 54 |
بِرَبِّهِمْ | سورة الكهف(18) | 13 |
بِرَبِّهِمْ | سورة المؤمنون(23) | 59 |
بِرَبِّهِمْ | سورة الروم(30) | 33 |
بِرَبِّهِمْ | سورة الملك(67) | 6 |
بِرَبِّهٖ | سورة الجن(72) | 13 |
بِرَبِّيْ | سورة مومن(40) | 27 |
بِرَبِّيْ | سورة الدخان(44) | 20 |
بِرَبِّيْٓ | سورة الكهف(18) | 38 |
بِرَبِّيْٓ | سورة الكهف(18) | 42 |
رَبِّيْ | سورة يوسف(12) | 53 |
رَبِّيْ | سورة يوسف(12) | 53 |
رَبِّيْ | سورة يوسف(12) | 98 |
رَبِّيْ | سورة يوسف(12) | 100 |
رَبِّيْ | سورة يوسف(12) | 100 |
رَبِّيْ | سورة الرعد(13) | 30 |
رَبِّيْ | سورة إبراهيم(14) | 39 |
رَبِّھِمْ | سورة إبراهيم(14) | 1 |
رَبًّا | سورة الأنعام(6) | 164 |
رَبَّ | سورة المائدة(5) | 28 |
رَبَّ | سورة الشعراء(26) | 77 |
رَبَّ | سورة النمل(27) | 91 |
رَبَّ | سورة الحشر(59) | 16 |
رَبَّ | سورة قريش(106) | 3 |
رَبَّكَ | سورة البقرة(2) | 61 |