Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلنَّزُوْلُ: (ض) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں۔چنانچہ محاورہ ہے۔نَزَلَ عَنْ رَابَّتِہ:وہ سواری سے اترپڑا۔ نَزَلَ فِیْ مَکَانِ کَذَا:کسی جگہ پر ٹھہرنا۔ اَنْزَلَ (افعال) اتارنا۔قرآن پاک میں ہے: (اَنۡزِلۡنِیۡ مُنۡزَلًا مُّبٰرَکًا وَّ اَنۡتَ خَیۡرُ الۡمُنۡزِلِیۡنَ ) (۲۳۔۲۹) ہم کو مبارک جگہ اتاریو اور تو سب سے بہتر اتارنے والا ہے۔نَزَلَ بِکَذَا وَاَنْزَلَہٗ کے ایک ہی معنی ہیں اور اﷲ تعالیٰ کے مخلوق پر عذاب یا نعمتوں کے نازل کرنے سے ان کا وقوع یا عطا کرنا مراد ہوتا ہے اور یہ یا تو بعینہ اس چیز کے نازل کرنے کے ذریعہ ہوتا ہے مثلاً قرآن پاک کا نازل فرمانا اور یا ان چیزوں کے اسباب پیدا کرکے ان کی طرف ہدایت کردینے کے ذریعے ہوتا ہے جیسا کہ لوہا،لباس اور اس قسم کی دوسری چیزوں کو اتارنا مراد ہے چنانچہ انعامات کے نازل کرنے کے متعلق فرمایا:۔ (اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰی عَبۡدِہِ الۡکِتٰبَ) (۱۸۔۱) سب تعریف خدا ہی کو ہے جس نے اپنے بندے (محمدؐ) پر یہ کتاب نازل کی۔ (اَللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ ) (۴۲۔۱۷) خدا ہی تو ہے جس نے سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی۔ (وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ) (۵۷۔۲۵) اور لوہا پیدا کیا۔ (وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ ) (۵۷۔۲۵) اور ان پر کتابیں نازل کیں اور ترازو (یعنی قواعد عدل) (وَ اَنۡزَلَ لَکُمۡ مِّنَ الۡاَنۡعَامِ ثَمٰنِیَۃَ اَزۡوَاجٍ) (۳۹۔۶) اور اسی نے چار پایوں میں سے آٹھ جوڑے بنائے۔ (وَ اَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَہُوۡرًا) (۲۵۔۴۸) اور ہم آسمان سے پاک اور نتھرا ہوا پانی برساتے ہیں۔ (وَّ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡمُعۡصِرٰتِ مَآءً ثَجَّاجًا) (۷۸۔۱۴) اور نچڑے بادلوں سے موسلادھار مینہ برسایا۔ (قَدۡ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکُمۡ لِبَاسًا یُّوَارِیۡ سَوۡاٰتِکُمۡ ) (۷۔۲۶) ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈھانکے۔ (اَنۡزِلۡ عَلَیۡنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ ) (۵۔۱۱۴) ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما۔ (اَنۡ یُّنَزِّلَ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ ) (۲۔۹۰) خدا جس پر چاہتا ہے اپنی مہربانی سے نازل فرماتا ہے اور آیت کریمہ:۔ (اِنَّا مُنۡزِلُوۡنَ عَلٰۤی اَہۡلِ ہٰذِہِ الۡقَرۡیَۃِ رِجۡزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا کَانُوۡا یَفۡسُقُوۡنَ) (۲۹۔۳۴) ہم اس بستی کے رہنے والوں پر اس سبب سے کہ یہ بدکاری کرتے ہیں۔آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں۔عذاب کے متعلق اِنْزَالٌ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔قرآن پاک اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق اِنْزَال اور تَنْزِیْل دونوں کا لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تَنْزِیْل کے معنی ایک چیز کو مّرۃٔ بعد اخریٰ اور متفرق طور پر نازل کرنے کے ہوتے ہیں اور اِنْزَالٌ کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور پر کسی چیز کو نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چنانچہ وہ آیات ملاحظہ ہو جہاں تَنْزِیْل کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ (نَزَلَ بِہِ الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ) (۲۶۔۱۹۳) اس کو امانت دار فرشتہ لے کر اترا۔ایک قرآت میں نزل ہے۔ (نَزَّلۡنٰہُ تَنۡزِیۡلًا ) (۱۷۔۱۰۶) اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا۔ (اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ) (۱۵۔۹) بے شک یہ (کتاب) نصیحت ہم ہی نے اتاری ہے۔ (لَوۡ لَا نُزِّلَ عَلَیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ) (۲۵۔۳۲) کہ اس پر قرآن پاک ایک ہی بار کیوں نہیں اتارا گیا۔ (وَ لَوۡ نَزَّلۡنٰہُ عَلٰی بَعۡضِ الۡاَعۡجَمِیۡنَ) (۲۶۔۱۹۸) اور اگر ہم اس کو کسی غیر اہل زبان پر اتارتے۔اور اِنْزَال کے متعلق فرمایا: (ثُمَّ اَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ) (۹۔۲۶) پھر خدا نے اپنے پیغمبر اور مومنوں پر اپنی طرف سے تسلی نازل فرمائی اور تمہاری مدد کو فرشتوں کے لشکر جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے آسمان سے اتارے۔اور آیت کریمہ۔ (لَوۡ لَا نُزِّلَتۡ سُوۡرَۃٌ ۚ فَاِذَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَۃٌ مُّحۡکَمَۃٌ ) (۴۷۔۲۰) کہ جہاد کی کوئی سورت کیوں نازل نہیںہوئی؟لیکن جب کوئی صاف معنوں کی سورت نازل ہو۔میں پہلی بار نُزِّلَ اور دوسری بار اُنْزِل کا لفظ ذکر کرنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ منافقین کا مطالبہ تو یہ تھا کہ یہ یکے بعد دیگرے جہاد کے احکام نازل ہوں تاکہ وہ انہیںسرانجام دے سکیں لیکن جب انہیں صرف ایک مرتبہ ہی جہاد کا حکم دیا گیا تو وہ کنارہ کش ہوگئے اور اس کی تعمیل نہ کی پس آیت میں بتایا گیا ہے کہ مطالبہ تو بہت سے احکام کے نازل ہونے کا کرتے تھے مگر ایک حکم بھی بجا نہیں لاتے اور آیت کریمہ:۔ (اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ ) (۲۴۔۲) ہم نے اس کو مبارک رات میں نازل فرمایا۔ (شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ) (۲۔۱۸۵) روزوں کا مہینہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن پاک اول اول نازل ہوا۔ (اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ ) (۹۷۔۱) ہم نے اس قرآن پاک کو شب قدر میں نازل کرنا شروع کیا میں تَنْزِیْل کا لفظ ترک کرکے خاص کر اِنْزَالٌ کا لفظ لانے کی وجہ یہ ہے کہ جیسا کہ حدیث میں ہے۔ (1) (۱۲۷) (اِنَّ الْقُرْآنَ نَزَلَ دَفَعَۃً وَاحِدَۃً اِلٰی سَمَائِ الدُّنْیَا ثُمَّ نَزَلَ نَجْمًا فَنَجْمَا) کہ قرآن پاک ایک ہی دفعہ آسمان پر نازل کیا گیا پھر رفتہ رفتہ حسب ضرورت نازل ہوتا رہا اور آیت کریمہ:۔ (اَلۡاَعۡرَابُ اَشَدُّ کُفۡرًا وَّ نِفَاقًا وَّ اَجۡدَرُ اَلَّا یَعۡلَمُوۡا حُدُوۡدَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ ) (۹۔۹۷) دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق اور اس قابل ہیں کہ جو احکام شریعت خدا نے اپنے رسولﷺ پر نازل فرمائے ہیں ان سے واقف ہی نہ ہوں میں عام معنی لینے کی غرض سے خاص کر اِنْزَالٌ کا لفظ لایا گیا ہے جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ اِنْزَال تَنْزِیْل سے عام ہے اور آیت کریمہ:۔ (لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ ) (۵۹۔۲۱) اگر ہم یہ قرآن پاک کسی پہاڑ پر نازل کرتے ہیں میں نَزَّلْنَا کی بجائے اَنْزَلْنَا کا لفظ لاکر متنبہ کیا ہے کہ جو کتاب ہم نے تم پر رات میں نازل کی ہے اگر اسے پہاڑ پر ایک دفعہ بھی نازل کردیتے تو تم اس کو دیکھتے کہ خدا کے خوف سے وہ دبا جاتا ہے اور وہ آیت کریمہ: (قَدۡ اَنۡزَلَ اللّٰہُ اِلَیۡکُمۡ ذِکۡرًا … رَّسُوۡلًا یَّتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ ) (۶۵۔۱۰،۱۱) خدا نے تمہارے پاس نصیحت کی کتاب بھیجی ہے اور اپنے پیغمبر بھی بھیجے ہیں جو تمہارے سامنے پڑھتے ہیں کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ اِنْزَالِ ذکر سے آنحضرتﷺ کی بعثت مراد ہے اور آپﷺ کو لوظ ’’ذِکْرٗٗسے موسوم کرنا ایسے ہی ہے جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کَلِمَۃٌ سے موسوم کیا گیا ہے لہذا اس کی تفسیر کی بنا پر رَسُوْلَا کا لفظ ذِکْرَا سے بدل الکل ہوگا۔بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد رسول کا ذکر ہے تو اس صورت میں رَسُوْلَا کا لفظ ذِکْرَا کا مفعول ہوگا اور تَنَزَّل کا لفظ بھی نَزَلَ بِہ کی طرح (صلہ بار کے ساتھ) استعمال ہوتا ہے چنانچہ محاورہ ہے۔نَزَلَ الْمَلْکُ بِکَذَا وَتَنَزَّلَ بَہ:فرشتہ اسے لے کر اترا۔مگر یہ محاورہ باری تعالیٰ کے متعلق استعمال نہیں ہوتا۔قرآن پاک میں ہے: (نَزَلَ بِہِ الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ ) (۲۶۔۱۹۳) اس کو امانت دار فرشتہ لے کر اترا۔نیز فرمایا: (تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ) (۹۷۔۴) اس میں روح الامین اور فرشتے ہر کام کے انتظام کے لئے اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں۔ (وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمۡرِ رَبِّکَ ) (۱۹۔۶۴) کہ ہم تمہارے پروردگار کے حکم کے سوا اترنہیں سکتے۔ (َتَنَزَّلُ الۡاَمۡرُ بَیۡنَہُنَّ ) (۶۵۔۱۲) ان میں خدا کے حکم اترتے رہتے ہیں۔اور جو کلام افتراء اور جھوٹ ہو یا شیاطین کی طرف سے القاء کیا گیا ہو اس کے متعلق صرف تَنَزُّلٌ کا لفظ استعمال ہوتا ہے چنانچہ فرمایا: (وَ مَا تَنَزَّلَتۡ بِہِ الشَّیٰطِیۡنُ ) (۲۶۔۲۱۰) اور اس قرآن کو شیطان لے کر نازل نہیں ہوا (عَلٰی مَنۡ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیۡنُ ) (الایۃ (۲۶۔۲۲۱) کہ شیطان کس پر اترتے ہیں (ہر گنہگار جھوٹے پر) ۔ اَلنُّزُلُ: (طعام مہمانی) وہ کھانا جو آنے والے مہمان کے لئے تیار کیا جائے چنانچہ قرآن پاک میں ہے۔ (فَلَہُمۡ جَنّٰتُ الۡمَاۡوٰی ۫ نُزُلًۢا) (۳۲۔۱۹) ان کے رہنے کیلئے باغ میں یہ مہمانی۔ (نُزُلًا مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ) (۳۔۱۹۸) یہ خدا کے ہاں سے ان کی مہمانی ہے۔اور دو زخیوں کے متعلق فرمایا: (لَاٰکِلُوۡنَ مِنۡ شَجَرٍ مِّنۡ زَقُّوۡمٍ) (۵۶۔۵۲) جزا کے دن یہ ان کی ضیافت ہوگی۔ (فَنُزُلٌ مِّنۡ حَمِیۡمٍ ) (۵۶۔۹۳) تو اس کے لئے کھولتے پانی کی ضیافت ہے۔اَنْزَلْتُ فُلَانًا:کے معنی کی کی مہمانی کرنے کے ہیں اور نَازِلَۃٌ مصیبت اور سختی کو کہتے ہیں اس کی جمع نَوَازِلٌ آتی ہے۔ اَلنِّزَالُ: (مصدر مفاعلہ) کے معنی دو گروہوں کا باہم لڑنے کے لئے میدان جنگ میں اترنے کے ہیں ارو نَزَلَ فُلَانٌ کے معنی مقام منیٰ میں اترنا بھی آتے ہیں چنانچہ شاعر نے کہا ہے (2) (الطویل) (۲۴۱) اَنَازِلَۃُ اَسْمَائُ اَمْ غَیْرُ نَازِلَۃِ کیا اسماء میدان منیٰ میں فروکش ہوگی یا نہیں۔ اَلنُّزَالَۃُ وَالنُّزْل:کنایۃ مرد کے مادہ منویہ کو کہتے ہیں جبکہ وہ خارج ہوچکا ہو اور طَعَامُ نُزُلِِ یا ذُوْنُزُلِِ کے معنی پاکیزہ اور بابرکت طعام کے ہیں پھر طعام نُزُلِِ کے ساتھ تشبیہ کے طور پر نَزِلٌ کے معنی جمع ہونے کی جگہ فرودگاہ کے بھی آتے ہیں۔

Words
Words Surah_No Verse_No
ءَاُنْزِلَ سورة ص(38) 8
الْمُنْزِلُوْنَ سورة الواقعة(56) 69
الْمُنْزِلِيْنَ سورة يوسف(12) 59
الْمُنْزِلِيْنَ سورة المؤمنون(23) 29
اَنْزَلَ سورة البقرة(2) 90
اَنْزَلَ سورة البقرة(2) 91
اَنْزَلَ سورة البقرة(2) 164
اَنْزَلَ سورة البقرة(2) 170
اَنْزَلَ سورة البقرة(2) 174
اَنْزَلَ سورة البقرة(2) 231
اَنْزَلَ سورة آل عمران(3) 7
اَنْزَلَ سورة آل عمران(3) 154
اَنْزَلَ سورة النساء(4) 61
اَنْزَلَ سورة النساء(4) 136
اَنْزَلَ سورة النساء(4) 166
اَنْزَلَ سورة المائدة(5) 44
اَنْزَلَ سورة المائدة(5) 45
اَنْزَلَ سورة المائدة(5) 47
اَنْزَلَ سورة المائدة(5) 47
اَنْزَلَ سورة المائدة(5) 48
اَنْزَلَ سورة المائدة(5) 49
اَنْزَلَ سورة المائدة(5) 49
اَنْزَلَ سورة المائدة(5) 104
اَنْزَلَ سورة الأنعام(6) 91
اَنْزَلَ سورة الأنعام(6) 91
اَنْزَلَ سورة الأنعام(6) 93
اَنْزَلَ سورة الأنعام(6) 99
اَنْزَلَ سورة الأنعام(6) 114
اَنْزَلَ سورة التوبة(9) 26
اَنْزَلَ سورة التوبة(9) 97
اَنْزَلَ سورة يونس(10) 59
اَنْزَلَ سورة يوسف(12) 40
اَنْزَلَ سورة الرعد(13) 17
اَنْزَلَ سورة النحل(16) 10
اَنْزَلَ سورة النحل(16) 24
اَنْزَلَ سورة النحل(16) 30
اَنْزَلَ سورة النحل(16) 65
اَنْزَلَ سورة بنی اسراءیل(17) 102
اَنْزَلَ سورة الكهف(18) 1
اَنْزَلَ سورة طه(20) 53
اَنْزَلَ سورة الحج(22) 63
اَنْزَلَ سورة لقمان(31) 21
اَنْزَلَ سورة فاطر(35) 27
اَنْزَلَ سورة يس(36) 15
اَنْزَلَ سورة الزمر(39) 21
اَنْزَلَ سورة الشورى(42) 15
اَنْزَلَ سورة الشورى(42) 17
اَنْزَلَ سورة الجاثية(45) 5
اَنْزَلَ سورة محمد(47) 9
اَنْزَلَ سورة الفتح(48) 4