Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلْکَتْبُ:کے اصل معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملاکر سی دینے کے ہیں چنانچہ کہا جاتا ہے:کَتَبْتُ السِّقَائَ ’’میں نے مشکیزہ کو سی دیا کَتَبْتُ الْبَغْلَۃَ:میں نے خچری کی شرمگاہ کے دونوں کنارے بند کرکے ان پر (لوہے) کا حلقہ چڑھادیاٗٗ عرف میں اس کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعہ باہم ملادینے پر بھی بولا جاتا ہے الغرض کِتَابَۃ کے اصل معنی تو تحریر کے ذریعہ حروف کو باہم ملادینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی معنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا ہے اس بناء پر کلام الہیٰ کو کتاب کہا گیا ہے گو (اس وقت) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی۔قرآن پاک میں ہے: (الٓـمّٓ … ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ ) (۲۔۱) یہ کتاب (قرآن مجید) اس میں کچھ شک نہیں۔ (اِنِّیۡ عَبۡدُ اللّٰہِ اٰتٰنِیَ الۡکِتٰبَ ) (۱۹۔۳۰) میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے۔ اَلْکِتَابُ:اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ یعنی جس چیز میں کچھ لکھا گیا ہو کو کتاب کہا جانے لگا ہے دراصل اَلْکِتَابُ اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو۔چنانچہ آیت: (یَسۡـَٔلُکَ اَہۡلُ الۡکِتٰبِ اَنۡ تُنَزِّلَ عَلَیۡہِمۡ کِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ) (۴۔۱۵۳) (اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتارلاؤ۔میں ’’کتابٗٗسے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو اسی لئے دوسری جگہ فرمایا: (وَ لَوۡ نَزَّلۡنَا عَلَیۡکَ کِتٰبًا فِیۡ قِرۡطَاسٍ) (۶۔۷) اور اگر ہم تم پر کاغذوں پر لکھی ہوئی کتاب نازل کرتے۔نیز کسی چیز کے ثابت کردینے،اندازہ کرنے،فرض یا واجب کردینے اور عزم کرنے کو کَتَابَۃ سے تعبیر کرلیتے ہیں اس لئے کہ پہلے پہل تو کسی چیز کے متعلق دل میں خیال پیدا ہوتا ہے پھر زبان سے ادا کی جاتی ہے اور آخر میں لکھ لی جاتی ہے لہذا ارادہ کی حیثیت مبدأ اور کتابت کی حیثیت منتھی کی ہے پھر جس چیز کا بھی ارادہ کیا گیا ہو تاکید کے طور پر اسے کَتَسبَ سے تعبیر کرلیتے ہیں جو کہ دراصل ارادہ کا منتبیٰ ہے۔چنانچہ فرمایا: (کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیۡ) (۵۸۔۲۱) خدا کا حکم ناطق ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ضرور غالب رہیں گے۔ (قُلۡ لَّنۡ یُّصِیۡبَنَاۤ اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا) (۹۔۵۱) کہہ دو کہ ہم کو کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی بجز اس کے کہ جو خدا نے ہمارے لئے مقدر کردی ہے۔ (لَبَرَزَ الَّذِیۡنَ کُتِبَ عَلَیۡہِمُ الۡقَتۡلُ) (۳۔۱۵۴) تو جن کی تقدیر میں مارا جانا لکھا تھا وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرور نکل آتے۔اور آیت: (وَ اُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلٰی بِبَعۡضٍ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ) (۸۔۷۵) اور رشتے دار خدا کے حکم کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں میں کتاب اﷲ سے مراد قانون خداوندی ہے اور آیت: (وَ کَتَبۡنَا عَلَیۡہِمۡ فِیۡہَاۤ اَنَّ النَّفۡسَ بِالنَّفۡسِ) (۵۔۴۵) اور ہم نے ان لوگوں کے لئے توراۃ میں یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان۔میں کَتَبْنَا بمعنی اَوْحَیْنَا وَفَرَضْنَا ہے یعنی ہم نے وحی بھیجی یا فرض کردیا اور اسی معنیہ میں فرمایا: (کُتِبَ عَلَیۡکُمۡ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ ) (۲۔۱۸۰) تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے۔ (کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ ) (۲۔۱۸۳) مومنو!تم پر روزے فرض کیے گئے۔ (لِمَ کَتَبۡتَ عَلَیۡنَا الۡقِتَالَ) (۴۔۷۷) تو نے ہم پر جہاد (جلد) کیوں فرض کردیا۔ (ما …… علیھم) (۵۔۲۷) ہم نے ان کو اس کا حکم نہیںدیا تھا۔اور آیت: (وَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ کَتَبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمُ الۡجَلَآءَ ) (۵۹۔۳) اور اگر خدا نے ان کے بارے میں جلاوطن کرنا نہ لکھ رکھا ہوتا۔کے معنی یہ ہیں کہ اگر اﷲ تعالیٰ نے گھروں کو چھوڑنا ان پر ضروری نہ کیا ہوتا (تو ان کو کوئی دوسری سزا دی جاتی) اور کبھی کتابت سے تقدیر حتمی یا حتمی کی مثل مراد ہوتی ہے۔چنانچہ آیت: (بَلٰی وَ رُسُلُنَا لَدَیۡہِمۡ یَکۡتُبُوۡنَ) (۴۳۔۸۰) ہاں ہاں (سب سنتے ہیں) اور ہمارے فرشتے ان کے پاس (ان کی) سب باتیں لکھ لیتے ہیں میں بعض تقدیر کے نوپسندے مراد لیے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ آیت۔ (یَمۡحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثۡبِتُ) (۱۳۔۳۹) میں بھی تقدیر کی دونوں اقسام مراد ہیں اور آیت: (اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡاِیۡمَانَ وَ اَیَّدَہُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡہُ) (۵۸۔۲۲) یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں خدا نے ایمان (پتھر پر لکیر کی طرح) تحریر کردیا ہے اور فیض غیبی سے ان کی مدد کی ہے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان لوگوں کی حالت ان کفار کے برعکس ہے جن کے متعلق ارشاد ہے۔ (وَ لَا تُطِعۡ مَنۡ اَغۡفَلۡنَا قَلۡبَہٗ عَنۡ ذِکۡرِنَا) (۱۸۔۲۸) اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اس کا کہا نہ ماننا۔کیونکہ اَغْفَلْنَا کا لفظ اَغْفَلْتُ الْکِتَابَ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کتاب کو مہمل یعنی اعراب و نقاط سے معری چھوڑدینا کے ہیں اور آیت (فَلَا کُفۡرَانَ لِسَعۡیِہٖ ۚ وَ اِنَّا لَہٗ کٰتِبُوۡنَ ) (۲۱۔۹۴) تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی۔اور ہم اس کے لئے (ثواب اعمال) لکھ رہے ہیں۔میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اعمال کو ثابت رکھا جارہا ہے اور ان کی ضروری ہی جزا دی جائے گی اور آیت: (فَاکۡتُبۡنَا مَعَ الشّٰہِدِیۡنَ) (۳۔۵۳) تو ہم کو ماننے والوں میں لکھ رکھ۔کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں ان کے زمرہ میں داخل فرما اور یہ آیت کریمہ: (فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ ) (۴۔۶۹) وہ (قیامت کے روز) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر خدا نے بڑا فضل کیا،کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور آیت: (مَالِ ہٰذَا الۡکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیۡرَۃً وَّ لَا کَبِیۡرَۃً اِلَّاۤ اَحۡصٰہَا) (۱۸۔۴۹) ہائے شامت!یہ کیسی کتاب ہے نہ چھوٹی بات کو چھوڑتی ہے اور نہ بڑی کو (کوئی بات بھی نہیں) مگر اسے لکھ رکھا ہے میں الکتاب سے لوگوں کے اعمال نامے مراد ہیں اور آیت کریمہ: (اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡرَاَہَا) (۵۷۔۲۲) مگر پیشتر اس کے کہ ہم اس کو پیدا کریں ایک کتاب میں (لکھی ہوئی ہے) ۔میں بعض نے کہا ہے کہ ’’کتابٗٗسے لوح محفوظ کی طرف اشارہ ہے۔چنانچہ اسی معنی میں فرمایا: (ااِنَّ ذٰلِکَ فِیۡ کِتٰبٍ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ ) (۲۲۔۷۰) یہ سب کچھ کتاب میں لکھا ہوا ہے بے شک یہ سب خدا کو آسان ہے۔ (وَ لَا رَطۡبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ ) (۶۔۵۹) کوئی تر یا خشک چیز نہیں مگر کتاب روشن میں لکھی ہوئی ہے۔ (فِی الۡکِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا) (۱۷۔۵۸) یہ کتاب (یعنی تقدیر میں ) لکھا جاچکا ہے۔اور آیت: (لَوۡ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ) (۸۔۶۸) اگر خدا کا حکم پہلے نہ ہوچکا ہوتا۔کے معنی یہ ہیں کہ اگر یہ بات حکمت الہیٰ میں مقدر نہ ہوچکی ہوتی لہذا یہ آیت۔ (کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ) (۶۔۵۴) خدا نے اپنی ذات پاک پر رحمت کو لازم کرلیا کی طرف اشارہ ہوگا اور بعض نے کہا ہے کہ یہ۔ (وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَ اَنۡتَ فِیۡہِمۡ) (۸۔۳۳) اور خدا ایسا نہ تھا کہ جب تک تم ان میں سے تھے انہیں عذاب دیتا۔کی طرف اشارہ ہے اور آیت: (قُلۡ لَّنۡ یُّصِیۡبَنَاۤ اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا) (۹۔۵۱) کہہ دو کہ ہم کو کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی بجز اس کے جو خدا نے ہمارے لئے لکھ دی ہو۔میں کَتَبَ کے معنی مقدر اور فیصلہ کرنا کے ہیں اور یہاں عَلَیْنَا کی بجائے لنا کہنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ جو مصیبت بھی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں پہنچتی ہے اسے ہم اپنے لئے نعمت سمجھتے ہیں اور نقمت خیال نہیں کرتے اور آیت: (ادۡخُلُوا الۡاَرۡضَ الۡمُقَدَّسَۃَ الَّتِیۡ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمۡ) (۵۔۲۱) (تو بھائیو) تم ارض مقدس (یعنی ملک شام) جسے خدا نے تمہارے لئے لکھ رکھا ہے۔چل داخل ہو۔میں بعض نے کَتَبَ اﷲُ کے معنی وَھَبَھَالَکُمْ کئے ہیں یعنی جوکہ اﷲ تعالیٰ نے تمہیں عطا کی تھی۔اور پھر تمہارے وہاں نہ جانے اور اس عطا الہیٰ کو قبول نہ کرنے کے باعث اﷲ تعالیٰ نے وہ زمین ان پر حرام کردی۔اور بعض نے کہا ہے کہ کَتَبَ اللہُ لکُمْ کے معنی یہ ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے تمہارے حق میں اس کا فیصلہ کردیا تھا۔بشرطیکہ تم وہاں چلے جاتے اور بعض نے کتب کے معنی اوجب کیے ہیں یعنی اﷲ تعالیٰ نے وہاں چلے جانا تم پر واجب کردیا تھا اور پھر عَلَیْکُمْ کی بجائے لَکُمْ اس لئے کہا ہے کہ وہاں چلے جانے میں ان کے دنیوی اور اخروی دونوں قسم کے فوائد مضمر تھے اس لئے وہاں چلے جانا لَکُمْ ہوگا نہ کہ عَلَیْکُمْ جیسا کہ مثلاً کوئی شخص کسی بات کو نقصان دہ خیال کرتا ہو مگر مال کے اعتبار سے جو فوائد اس میں پنہاں ہیں اس سے غافل اور بے خبر ہو تو اس سے کہا جائے گا (ہٰذَا الْکَلَامُ لَکَ لَاعَلَیْکَ (یعنی اس میں ) تمہارا فائدہ ہے نہ کہ نقصان اور آیت۔ (وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ وَ الۡاِیۡمَانَ لَقَدۡ لَبِثۡتُمۡ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ اِلٰی یَوۡمِ الۡبَعۡثِ) (۳۰۔۵۶) اور جن لوگوں کو علم اور ایمان دیا گیا تھا وہ کہیں گے خدا کی کتاب کے مطابق تم قیامت تک رہوگے۔میں کتاب اﷲ سے اﷲ کا حکم،فیصلہ اور علم مراد ہے اور یہی معنی آیت۔ (لِکُلِّ اَجَلٍ کِتَابٌ) (۱۳۔۳۸) ہر حکم قضا (کتاب میں ) مرقوم ہے کے ہیں اور آیت: (اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰہِ اثۡنَا عَشَرَ شَہۡرًا فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ ) (۹۔۳۶) خدا کے نزدیک مہینے گنتی میں بارہ ہیں یعنی کتاب خدا میں ،میں کتاب اﷲ کے معنی بھی حکم الہیٰ ہی ہیں اور کبھی کتاب سے وہ حجت الہیٰ مراد ہوتی ہے جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ثابت ہوچکی ہو چنانچہ فرمایا (وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ وَّ لَا ہُدًی وَّ لَا کِتٰبٍ مُّنِیۡرٍ) (۲۲۔۸) اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو خدا کی شان میں بغیر علم (و دانش) کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر کتاب روشن کے جھگڑتا ہے۔ (اَمْ اٰتَیْنَھُمْ کِتَابًا مِّنْ قَبْلِہ :یا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی تھی۔ (فَاْتُوْا بِکِتٰبِکُمْ) (۳۷۔۵۷) تو اپنی حجت پیش کرو۔ (اُوْتُوا الْکِتَابَ) (۲۔۴۵) جنہیں الکتاب یعنی حجت دی (کَتَابَ اﷲِ) (۲۔۱۰۱) خدا کی کتاب کو اور آیت: (اَمْ اَتَیْنَاھُمْ کَتٰبًا) (۴۳۔۲۱) یا ہم نے انکو (اس سے پہلے) کوئی کتاب دی تھی اور آیت کریمہ: (فَھُمْ یَکْتُبُوْنَ) (۶۸۔۴۷) کہ وہ اسے لکھ لیتے ہیں میں یَکْتُبُوْنَ سے ان کے علم و تحقیق اور عقیدہ کی طرف اشارہ ہے اور آیت۔ (وَ ابۡتَغُوۡا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمۡ ) (۲۔۱۸۷) اور خدا نے جو تمہاری چیز تمہارے لئے لکھ رکھی ہے (یعنی اولاد) اس کو (خدا سے) طلب کرو۔میں ایک لطیف نقطہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان میں نکاح کی خواہش اس لئے رکھی ہے کہ وہ اس سے طلب نسل کرے جو نوع انسانی کے بقاء کا موجب ہے لہذا انسان کو چاہیئے کہ وہ نکاح سے اسی چیز کا قصد کرے جو کہ عقل و دیانت کے تقاضا کے مطابق اﷲ تعالیٰ نے اس کے لئے مقرر کردی ہے یعنی حفظ نسل اور عفت نفس اور بعض نے جو یہ لکھا ہے کہ ماکتب اﷲ سے مراد اولاد ہے تو انہوں نے بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیاہے اور کبھی کتابت سے کسی چیز کا وجود میں لانا۔اورمحو سے کسی چیز کا زائل اور فنا کرنا مراد ہوتا ہے۔چنانچہ آیت: (لِکُلِّ اَجَلٍ کِتَابٌ … یَمۡحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثۡبِتُ) (۱۳۔۳۸،۳۹) میں تنبیہ ہے کہ کائنات میں ہر لمحہ ایجاد ہوتی رہتی ہے اور ذات باری تعالیٰ مقتضائے حکمت کے مطابق اشیاء کو وجود میں لاتی اور فنا کرتی رہتی ہے لہذا اس آیت کا وہی مفہوم ہے جو کہ آیت (کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ ) (۵۵۔۲۹) میں وَعِنْدَہٗ اُمُّ الْکِتَابِ (اور اس کے پاس اصل کتاب ہے) کا ہے اور آیت: (وَ اِنَّ مِنۡہُمۡ لَفَرِیۡقًا یَّلۡوٗنَ اَلۡسِنَتَہُمۡ بِالۡکِتٰبِ لِتَحۡسَبُوۡہُ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ مَا ہُوَ مِنَ الۡکِتٰبِ) (۳۔۷۸) اور ان (اہل کتاب) میں سے بعض ایسے ہیں کہ کتاب کو زبان مروڑکر پڑھتے ہیں تاکہ تم سمجھو کہ جو کچھ وہ پڑھتے ہیں کتاب (توراہ) میں سے ہے حالانکہ وہ (کسی سماوی) کتاب سے نہیں ہوتا۔میں (لفظ الکتاب تین مرتبہ آیا ہے چنانچہ) پہلی جگہ الکتاب سے وہ چھوٹی تحریریں مراد ہیں جن کا تذکرہ آیت: (فَوَیۡلٌ لِّلَّذِیۡنَ یَکۡتُبُوۡنَ الۡکِتٰبَ بِاَیۡدِیۡہِمۡ ) (۲۔۷۹) میں کیا گیا ہے اور دوسری الکتاب سے توراۃ مراد ہے اور تیسری الکتاب میں الف لام جنس کا ہے اور اس سے ہر آسمانی کتاب اور کلام الہیٰ مراد ہوسکتی ہے پس آیت کے معنی یہ ہیں کہ وہ حکم نہ تو کسی آسمانی کتاب میں موجود ہے اور نہ ہی کلام الہیٰ ہوسکتا ہے اور آیت کریمہ: (وَ اِذۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ الۡفُرۡقَانَ ) (۲۔۵۳) اور جب ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب اور معجزے عنایت کیے۔میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں کتاب اور فرقان دونوں سے توراۃ مراد ہے اس لحاظ سے کہ توراۃ میں احکام الہیٰ ثبت ہیں اسے الکتاب کہا گیا ہے اور اس لحاظ سے کہ اس میں حق کو باطل سے جدا کرنے والے احکام مذکور ہیں اسے الفرقان کہا گیا ہے اور آیت: (وَ مَا کَانَ لِنَفۡسٍ اَنۡ تَمُوۡتَ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ کِتٰبًا مُّؤَجَّلًا) (۳۔۱۴۵) اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر مرجائے (اس نے موت کا) وقت مقرر کرکے لکھ رکھا ہے میں کتابا مؤجلا سے حکم الہیٰ مراد ہے چنانچہ آیات (لَوۡ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمۡ) (۸۔۶۸) اگر خدا کا حکم پہلے نہ ہوچکا ہوتا تو تم پر نازل ہو۔ (اِنَّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اﷲِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتٰبِ اﷲِ) میں کتاب سے مراد حکم ہی ہے اور آیت: (فَوَیۡلٌ لِّلَّذِیۡنَ یَکۡتُبُوۡنَ الۡکِتٰبَ بِاَیۡدِیۡہِمۡ ) (۲۔۷۹) تو ان لوگوں پر افسوس ہے جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھتے ہیں۔میں تنبیہ کی ہے کہ ازخود جھوٹی باتیں گھڑ کر لکھ لیتے ہیں اور یہاں جھوٹی تحریروں کو ان کے ہاتھوں کی طرف منسوب کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت (ذٰلِکَ قَوۡلُہُمۡ بِاَفۡوَاہِہِمۡ ) (۹۔۳۰) میں ان کی من گھڑت باتوں کو ان کے مونہوں کی طرف منسوب کیا ہے۔اَلْاِکْتِسَابُ (افتعال) کا لفظ عموماً جھوٹی اور جعلی تحریر کے متعلق استعمال ہوتا ہے۔چنانچہ فرمایا: (اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ اکۡتَتَبَہَا) (۲۵۔۵) پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جن کو اس نے جمع کررکھا ہے اور قرآن پاک میں جہاں کہیں بھی اہل کتاب کا لفظ آیا ہے وہاں الکتاب سے توراۃ،انجیل یا دونوں مراد ہیں۔اور آیت: (وَ مَا کَانَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ اَنۡ یُّفۡتَرٰی مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ لٰکِنۡ تَصۡدِیۡقَ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ تَفۡصِیۡلَ الۡکِتٰبِ) (۱۰۔۳۷) اور یہ قرآن پاک ایسا نہیں کہ خدا کے سوا کوئی اس کو اپنی طرف سے بنالائے۔اور (ان ہی) کتابوں کی (اس میں ) تفصیل ہے۔میں الکتاب سے قرآن پاک سے پہلے کی تمام کتب سماویہ مراد ہیں کیونکہ زیربحث آیت میں قرآن پاک کو ان کا مصدق ٹھہرایا گیا ہے لہذا وہ خود ان میں شامل نہیں ہوسکتا اور آیت کریمہ: (وَّ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ اِلَیۡکُمُ الۡکِتٰبَ مُفَصَّلًا) (۶۔۱۱۴) حالانکہ اس نے تمہاری طرف واضح المطالب کتاب بھیجی ہے۔میں بعض نے کہا ہے کہ الکتاب سے مراد قرآن پاک ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ لفظ قرآن پاک کے علاوہ دوسرے دلائل حقہ اور علم و عقل کو بھی شامل ہے۔اسی طرح آیت: (فَالَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ) (۲۹۔۴۷) تو جن لوگوں کو ہم نے کتابیں دی تھیں وہ اس پر ایمان لے آتے ہیں میں بھی الکتاب کا مفہوم عام ہے اور آیت: (قَالَ الَّذِیۡ عِنۡدَہٗ عِلۡمٌ مِّنَ الۡکِتٰبِ) (۲۷۔۴۰) ایک شخص جس کو کتاب الہیٰ کا علم تھا کہنے لگا،میں بعض نے کہا ہے کہ عَلْمٌ مِّنَ الْکِتَابِ یعنی کتاب کا علم کے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ منجملہ ان علوم کے ایک علم مراد ہے جو اﷲ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو ان کی خاص کتاب میں عطا فرمائے تھے اور انہی کے ذریعے سے ہر چیز حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع ہوگئی تھی اور آیت۔ (وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡکِتٰبِ کُلِّہٖ) (۳۔۱۱۹) اور تم سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہو۔میں الکتاب سے تمام کتب سماویہ مراد ہیں اور جمع کی بجائے مفرد کا لفظ یا تو اس لئے لایا گیا ہے کہ یہ اسم جنس ہے۔جیسا کہ (کَثُرَ الدِّرْھَمُ فِیْ اَیْدِی النَّاسِ) میں اَلدِرْھَمُ سے جنس درہم مراد ہے اور یا اس لئے کہ یہ اصل میں عدل کی طرح مصدر ہے (جو مفرد و جمع دونوں کے لئے آتا ہے) جیسا کہ آیت: (یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ) (۲۔۴) جو کتاب تم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تم سے پہلے پیغمبروں پر نازل ہوئیں سب پر ایمان لاتے ہیں میں ہے مگر بعض نے کہا ہے۔کہ الکتاب سے قرآن پاک مراد ہے اور کُلِّہ کہہ کر اس معنی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ تم ان لوگوں کی طرح ہو جن کے حق میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے: (وَ یَقُوۡلُوۡنَ نُؤۡمِنُ بِبَعۡضٍ وَّ نَکۡفُرُ بِبَعۡضٍ) (۴۔۱۵۰) اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کومانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے۔کِتَابِۃُ الْعَبْدِ کے معنی غلام کے خود کو اپنے آقا سے اس (مقررہ) مال کے عوض خرید لینے کے ہیں جو وہ کماکر اسے (بالاقساط) ادا کرے گا۔چنانچہ آیت کریمہ: (وَ الَّذِیۡنَ یَبۡتَغُوۡنَ الۡکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ فَکَاتِبُوۡہُمۡ ) (۲۴۔۳۳) اور جو غلام تم سے مکاتب چاہیں۔تو ان سے مکاتبت کرلو۔میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کَاتِبُوْھُمْ کتابت بمعنی ایجاب سے مشتق ہو اور یہ بھی کہ اَلْکَتَب بمعنی نظم یعنی تحریر سے ہو کیونکہ ان دونوں کی نسبت انسان کی طرف ہوسکتی ہے۔

Words
Words Surah_No Verse_No
الْكِتٰبَ سورة البقرة(2) 44
الْكِتٰبَ سورة البقرة(2) 53
الْكِتٰبَ سورة البقرة(2) 78
الْكِتٰبَ سورة البقرة(2) 79
الْكِتٰبَ سورة البقرة(2) 87
الْكِتٰبَ سورة البقرة(2) 101
الْكِتٰبَ سورة البقرة(2) 113
الْكِتٰبَ سورة البقرة(2) 121
الْكِتٰبَ سورة البقرة(2) 129
الْكِتٰبَ سورة البقرة(2) 144
الْكِتٰبَ سورة البقرة(2) 145
الْكِتٰبَ سورة البقرة(2) 146
الْكِتٰبَ سورة البقرة(2) 151
الْكِتٰبَ سورة البقرة(2) 176
الْكِتٰبَ سورة البقرة(2) 213
الْكِتٰبَ سورة آل عمران(3) 3
الْكِتٰبَ سورة آل عمران(3) 7
الْكِتٰبَ سورة آل عمران(3) 19
الْكِتٰبَ سورة آل عمران(3) 20
الْكِتٰبَ سورة آل عمران(3) 48
الْكِتٰبَ سورة آل عمران(3) 79
الْكِتٰبَ سورة آل عمران(3) 79
الْكِتٰبَ سورة آل عمران(3) 100
الْكِتٰبَ سورة آل عمران(3) 164
الْكِتٰبَ سورة آل عمران(3) 186
الْكِتٰبَ سورة آل عمران(3) 187
الْكِتٰبَ سورة النساء(4) 47
الْكِتٰبَ سورة النساء(4) 54
الْكِتٰبَ سورة النساء(4) 105
الْكِتٰبَ سورة النساء(4) 113
الْكِتٰبَ سورة النساء(4) 131
الْكِتٰبَ سورة المائدة(5) 5
الْكِتٰبَ سورة المائدة(5) 5
الْكِتٰبَ سورة المائدة(5) 48
الْكِتٰبَ سورة المائدة(5) 57
الْكِتٰبَ سورة المائدة(5) 110
الْكِتٰبَ سورة الأنعام(6) 20
الْكِتٰبَ سورة الأنعام(6) 89
الْكِتٰبَ سورة الأنعام(6) 91
الْكِتٰبَ سورة الأنعام(6) 114
الْكِتٰبَ سورة الأنعام(6) 114
الْكِتٰبَ سورة الأنعام(6) 154
الْكِتٰبَ سورة الأعراف(7) 169
الْكِتٰبَ سورة الأعراف(7) 196
الْكِتٰبَ سورة التوبة(9) 29
الْكِتٰبَ سورة يونس(10) 94
الْكِتٰبَ سورة هود(11) 110
الْكِتٰبَ سورة الرعد(13) 36
الْكِتٰبَ سورة النحل(16) 64
الْكِتٰبَ سورة النحل(16) 89