Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلْقَوْلُ اور اَلْقِیْلَ:کے معنی بات کے ہیں قرآن پاک میں ہے: (وَ مَنۡ اَصۡدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیۡلًا) (۴۔۱۲۲) اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے۔قول کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ (۱) عام طور پر حروف کے اس مجموعہ پر قول کا لفظ بولا جاتا ہے جو بذریعہ نطق کے زبان سے ظاہر ہوتے ہیں خواہ وہ الفاظ مفرد ہوں یا جملہ کی صورت میں مفرد۔ جیسے زَیْدٌ خَرَجَ اور مرکب جیسے (زَیْدمُنْطَلِقٌ وَھَلْ خَرَج عَمْرٌووَنَحْوذَالِکَ) کبھی انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف میں ہر ایک کو قول کہا جاتا ہے جس طرح کہ قصیدہ اور خطبہ وغیرہ کو قول کہہ دیتے ہیں۔ (۲) جو بات ابھی ذہن میں ہو اور زبان تک نہ لائی گئی ہو اسے بھی قول کہتے ہیں اس بنا پر قرآن پاک میں آیت کریمہ: (وَ یَقُوۡلُوۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ لَوۡ لَا یُعَذِّبُنَا اللّٰہُ ) (۵۸۔۸) اور اپنے دل میں کہتے ہیں (اگر یہ واقعی پیغمبر ہیں تو) جو کچھ ہم کہتے ہیں خدا ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا۔یعنی دل میں خیال کرنے کو قول سے تعبیر کیا ہے۔ (۳) رائے خیال اور عقیدہ پر بھی قول کا لفظ بولا جاتا ہے۔جیسے (فُلَانٌ یَّقُوْلُ بِقَوْلِ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ) (فلاں ابو حنیفہؓ کی رائے کا قائل ہے) ۔ (۴) کسی چیز پر دلالت کرنے کو قول سے تعبیر کرلیتے ہیں جیسا کہ شاعر نے کہا ہے: (1) (الرجز) (۳۶۴) (اِمْتَلَأَ الْحَوْضُ وَقَالَ قَطْنِیْ) حوض بھرگیا اور اس نے کہا بس مجھے کافی ہے۔ (۵) کسی چیز کا صدق دل سے اعتبار کرنا اور اس کی طرف متوجہ ہونا جیسے (فُلَانٌ یَّقُوْلُ بِکَذَا فلاں اسکا صدق دل سے خیال رکھنا۔ (۶) اہل منطق کے نزدیک قول بمعنی حد کے آتا ہے جیسے (قَوْلُ الْجَوْہَرِ کَذَا) یعنی جوہر کی تعریف یہ ہے اور عرض کی یہ۔ (۷) الہام کرنا یعنی کسی کے دل میں کوئی بات ڈال دینا جیسے فرمایا: (قُلۡنَا یٰذَا الۡقَرۡنَیۡنِ اِمَّاۤ اَنۡ تُعَذِّبَ) (۱۸۔۸۶) ہم نے کہا ذوالقرنین!تم ان کو خواہ تکلیف دو۔ (یہاں قول بمعنی الہام اور القا کے ہے) کیونکہ تاریخ اور روایت سے ثابت ہوتاہے کہ ذوالقرنین کو (انبیاء کی طرح) مخاطب نہیں کیا گیا بلکہ یہ بات ان کے دل میں القا کردی گئی تھی چنانچہ اس الہام کو قول سے تعبیر کردیا ہے۔اور بعض نے کہا ہے کہ آیت کریمہ: (قَالَتَاۤ اَتَیۡنَا طَآئِعِیۡنَ) (۴۱۔۱۱) انہوں نے کہا ہم خوشی سے آتے ہیں۔میں خطاب ظاہری نہیں تھا بلکہ ان کایہ امتثال اور اظہار اطاعت تسخیری طریقہ سے تھا اور یہی معنی آیت کریمہ: (قُلۡنَا یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرۡدًا وَّ سَلٰمًا ) (۲۱۔۶۹) ہم نے حکم دیا اے آگ!سردہوجا اور …… (موجب سلامتی بن جا۔) میں مراد ہے اور آیت کریمہ: (یَقُوۡلُوۡنَ بِاَفۡوَاہِہِمۡ مَّا لَیۡسَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ) (۳۔۱۶۷) منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہیں۔میں اَفْوَاھِھِمْ کے لفظ سے اس بات پر تنبیہ کی ہے کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں اور جو کچھ کہتے ہیں ان دل اس کی تائید نہیں کرتے اور یہ محاورہ ایسے ہی ہے جس طرح کتابت کے ساتھ ید کا لفظ ذکر کرکے اس کے جھوٹا ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (فَوَیۡلٌ لِّلَّذِیۡنَ یَکۡتُبُوۡنَ الۡکِتٰبَ بِاَیۡدِیۡہِمۡ ٭ ثُمَّ یَقُوۡلُوۡنَ ہٰذَا مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ) (۲۔۷۹) تو ان لوگوں پر افسوس ہے جو اپنے ہاتھ سے تو کتاب لکھتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ یہ خدا کے پاس سے آئی ہے۔اور آیت کریمہ: (لَقَدۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ عَلٰۤی اَکۡثَرِہِمۡ فَہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ) (۳۶۔۷) ان میں سے اکثر پر خدا کی کسی بات پوری ہوچکی،سو وہ ایمان نہیں لائیں گے۔میں قول سے اﷲ کا علم اور اسکا حکم مراد ہے۔ (وَ تَمَّتۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ) (۶۔۱۱۵) اور تمہارے پروردگار کی باتیں پوری ہوگئیں۔ (اِنَّ الَّذِیۡنَ حَقَّتۡ عَلَیۡہِمۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ) (۱۰۔۹۶) جن لوگوں کے بارے میں خدا کا حکم (عذاب) قرار پاچکا ہے وہ ایمان نہیں لانے کے۔حکم عذاب کو کلمۃ سے تعبیر فرمایا ہے اور آیت کریمہ: (ذٰلِکَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ ۚ قَوۡلَ الۡحَقِّ الَّذِیۡ فِیۡہِ یَمۡتَرُوۡنَ) (۱۹۔۳۴) یہ مریم علیہ السلام کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام ہیں (اور یہ) سچی بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں میں عیسیٰ علیہ السلام کو قول الحق کہہ کر آیت کریمہ: (اِنَّ مَثَلَ عِیۡسٰی عِنۡدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ؕ خَلَقَہٗ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ) (۳۔۵۹) اﷲ کے ہاں عیسیٰ علیہ السلام کی مثال …… ۔پھر فرمایا کہ (انسان) ہوجا تو وہ (انسان) ہوگئے۔کے مضمون پر تنبیہ کی ہے اور عیسیٰ علیہ السلام کو قول کہنا ایسے ہی ہے جس طرح کہ آیت کریمہ: (وَ کَلِمَتُہٗ ۚ اَلۡقٰہَاۤ اِلٰی مَرۡیَمَ) (۴۔۱۷۱) اور یہ کلمہ (بشارت) تھا جو اس نے مریم علیہ السلام کی طرف بھیجا تھا۔میں انہیں کلمہ کہا گیا ہے اور آیت کریمہ: (اِنَّکُمۡ لَفِیۡ قَوۡلٍ مُّخۡتَلِفٍ ) (۵۱۔۸) تم ایک متناقض بات میں پڑے ہوئے ہو۔کے معنی یہ ہیں کہ بعث (موت کے بعد زندگی) کے معاملہ میں تمہارے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔اور بعث کو جو درحقیقت مقول فیہ ہے (مجازاً) قول کہہ دیا ہے جیسا کہ مذکور چیز کو ذکر کہہ دیا جاتا ہے۔اور آیت کریمہ: (اِنَّہٗ لَقَوۡلُ رَسُوۡلٍ کَرِیۡمٍ … وَّ مَا ہُوَ بِقَوۡلِ شَاعِرٍ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تُؤۡمِنُوۡنَ) (۶۹۔۴۰،۴۱) یہ قرآن پاک فرشتے عالی مقام کی زبان کا پیغام ہے اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں ہے۔لیکن تم لوگ بہت ہی کم ایمان لاتے ہو۔میں قرآن پاک کو قول رسول یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام کا قول کہنا بنا برمجاز ہے کیونکہ جو پیغام کسی رسول کے ذریعہ پہنچایا جاتا ہے اس کی نسبت رسول اور مرسل دونون کی طرف صحیح ہوتی ہے یعنی کبھی مجازا اسے قول رسول کہہ دیتے ہیں اور کبھی بنابر حقیقت مرسل کی طرف نسبت کردیتے ہیں اگر اس پر یہ شبہ وارد ہو کہ اس اصل کی بنا پر تو شعر یا خطبہ کی نسبت بھی انکے راوی کی طرف صحیح ہونی چاہیئے جس طرح کہ ان کی نسبت قائل کی طرف ہوتی ہے تو ہم کہیں گے کہ بے شک آپ شعر یا خطبہ کو قول راوی کہہ سکتے ہیں لیکن اسے شعر راوی یا خطبۂِ راوی نہیں کہہ سکتے۔کیونکہ شعر کا اطلاق قول کی خاص شکل و صورت پر ہوتا ہے اور اس شکل و صورت کے ڈھالنے میں راوی کا کوئی دخل نہیں ہے مگر قول کی نسبت راوی اور مروی عنہ دونوں کی طرف ہوسکتی ہے اور آیت کریمہ: (اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ) (۲۔۱۵۶) جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اﷲ کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔میں صرف زبان کے ساتھ اِنَّاﷲ الخ کہنا مراد نہیں بلکہ اس کے ساتھ اعتقاد و عمل کا ہونا بھی ضروری ہے۔اَلْمِقْوَلُ کے معنی زبان کے ہیں اور محاورہ میں رَجُلٌ مِقْوَلٌ وَمِنْطِیْقٌ وَقَوَّال وَقَوَّالَۃُ کے معنی زبان دراز آدمی کے ہیں۔ اَلْقِیْلُ:حمیری بادشاہوں کا لقب ہوتا تھا اور انہیں قیل یا تو اس لئے کہا جاتا تھا کہ ان کی ہر ایک بات پر اعتماد کیا جاتا تھا اور اس کی اقتداء کی جاتی تھیں اور یا اس لئے کہ ان میں ہر ایک اپنے آباء کی روش پر چلتا تھا اور یہ (تَقَبَّلَ فُلَانٌ) (گفتار میں اپنے باپ کے مشابہ ہونا) کے محاورہ سے مشتق ہے جس طرح کہ (یمن کے ہر) بادشاہ کو تبع کہا جاتا تھا کیونکہ ہر بادشاہ اپنے فیصلوں میں اپنے سے پیشرو کی اقتداء کرتا تھا۔اصل میں یہ وادی ہے کیونکہ اس کی جمع اقوال آتی ہے جیسے مَیْتٌ کی جمع اَمْوَاتٌ آتی ہے۔نیز یہ قَیّلٌ کا مخفف ہے جیسے مَیْتٌ وَمَیّتٌ اور جو لوگ اس کی جمع اَقْبَالٌ بناتے ہیں تو یہ (اقوال جمع قول سے،فرق کرنے کیلئے ہے جو) جس طرح کہ (عید کی جمع) اَعْیَادٌ ہے پھر اس سے فعل مشتق کرکے تَقَیَّلَ اَبَاہُ کہہ دیتے ہیں جس طرح کہ (عید کے لفظ سے) تعید کہا جاتا ہے۔ اِقْتَالَ قَوْلَا:ایسی بات کہنا جو فائدہ یا نقصان کا باعث بنے اور کبھی اِقْتَالَ بھی اِحْتَکَمَ آتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے۔ (2) قالہ الاعشی فی قصیدۃ لہ فی ۷۵ بیتا یمدح فیھا الاسود بن المذر اللخمی وصدرہ:والمثل الذی جمعت لریب فی المراجع وفی دیوانہ (۱۶۸) من العدۃ بدل لریب الدھر۔ (الخفیف) (۳۶۵) (یَأْبٰی حَکُوْمَۃَ الْمُقْتَالٖ) کسی زبردستی حاکم بننے والے کی حکومت کو نہیں مانتا۔اَلْقَالُ وَالْقَالَُ:وہ بات جو نشر ہوجائے۔خلیل نے کہا ہے کہ کبھی قَالَ بمعنی قَاتِلٌ بھی آجاتا ہے۔چنانچہ محاورہ ہے۔اَنَا قَالَ کَذَا یعنی میں اس کا قائل ہوں۔ (3) وایضا (وَ لَوۡ تَقَوَّلَ عَلَیۡنَا بَعۡضَ الۡاَقَاوِیۡلِ) (۶۹۔۴۴) معناہ النسبۃ الی احد القول کذبا وزورا۔

Words
Words Surah_No Verse_No
الْاَقَاوِيْلِ سورة الحاقة(69) 44
الْـقَوْلِ سورة محمد(47) 30
الْقَوْلَ سورة الرعد(13) 10
الْقَوْلَ سورة النحل(16) 86
الْقَوْلَ سورة الأنبياء(21) 4
الْقَوْلَ سورة المؤمنون(23) 68
الْقَوْلَ سورة القصص(28) 51
الْقَوْلَ سورة سبأ(34) 31
الْقَوْلَ سورة الزمر(39) 18
الْقَوْلُ سورة هود(11) 40
الْقَوْلُ سورة بنی اسراءیل(17) 16
الْقَوْلُ سورة المؤمنون(23) 27
الْقَوْلُ سورة النمل(27) 82
الْقَوْلُ سورة النمل(27) 85
الْقَوْلُ سورة القصص(28) 63
الْقَوْلُ سورة السجدة(32) 13
الْقَوْلُ سورة يس(36) 7
الْقَوْلُ سورة يس(36) 70
الْقَوْلُ سورة حم السجدہ(41) 25
الْقَوْلُ سورة الأحقاف(46) 18
الْقَوْلُ سورة ق(50) 29
الْقَوْلِ سورة النساء(4) 108
الْقَوْلِ سورة النساء(4) 148
الْقَوْلِ سورة الأنعام(6) 112
الْقَوْلِ سورة الأعراف(7) 205
الْقَوْلِ سورة الرعد(13) 33
الْقَوْلِ سورة الأنبياء(21) 110
الْقَوْلِ سورة الحج(22) 24
الْقَوْلِ سورة المجادلة(58) 2
اَتَقُوْلُوْنَ سورة الأعراف(7) 28
اَتَقُوْلُوْنَ سورة يونس(10) 68
اَتَقُوْلُوْنَ سورة يونس(10) 77
اَقُلْ سورة البقرة(2) 33
اَقُلْ سورة يوسف(12) 96
اَقُلْ سورة الكهف(18) 72
اَقُلْ سورة الكهف(18) 75
اَقُلْ سورة القلم(68) 28
اَقُوْلَ سورة المائدة(5) 116
اَقُوْلَ سورة الأعراف(7) 105
اَقُوْلُ سورة الأنعام(6) 50
اَقُوْلُ سورة الأنعام(6) 50
اَقُوْلُ سورة هود(11) 31
اَقُوْلُ سورة هود(11) 31
اَقُوْلُ سورة هود(11) 31
اَقُوْلُ سورة ص(38) 84
اَقُوْلُ سورة مومن(40) 44
بِالْقَوْلِ سورة إبراهيم(14) 27
بِالْقَوْلِ سورة طه(20) 7
بِالْقَوْلِ سورة الأنبياء(21) 27
بِالْقَوْلِ سورة الأحزاب(33) 32