Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلْاُمُّ یہ اَب کا بالمقابل ہے او رماں قریبی حقیقی ماں اور بعیدہ یعنی نانی پرنانی وغیرہ سب کو اُمٌّ کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت حواء علیہا السلام کو اُمُّنًا کہا گیا ہے اگرچہ ہمارا ان سے بہت دور کا تعلق ہے۔ پھر ہر اس چیز کو اُمٌّ کہا جاتا ہے، جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح و تربیت کا سبب ہو یا اس کے آغاز کا مبداء بنے۔ خلیل کا قول ہے کہ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات منضم ہوجائیں یا سما جائیں۔۔ وہ ان کی اُمٌّ کہلاتی ہے۔ چنانچہ آیت کریمہ : (وَ اِنَّہٗ فِیۡۤ اُمِّ الۡکِتٰبِ ) (۴۳:۴) او ریہ اصلی نوشتہ (یعنی لوح محفوظ) میں ہے۔ میں اُمِّ الْکِتَابِ سے مراد لوح محفوظ ہے کیونکہ وہ تمام علوم کا منبع ہے اور اسی کی طرف تمام علوم منسوب ہوتے ہیں اور مکہ مکرمہ کو اُمَّ الْقُرٰی کہا گیا ہے (کیونکہ وہ خطہ عرب کا مرکز تھا) اور بموجب روایت تمام روئے زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی ہے (اور یہ ساری دنیا کا دینی مرکز ہے) قرآن پاک میں ہے : (لِّتُنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰی وَ مَنۡ حَوۡلَہَا ) (۴۲:۷) تاکہ تو مکہ کے رہنے والوں کو اور جو لوگ اس کے اردگرد رہتے ہیں۔ بدعملی کے انجام سے ڈرائے۔ اُمُّ النَّجوم۔ کہکشاں۔ شاعر نے کہا ہے(1) (طویل) (۲۳) بحیث اھدَتْ ام النَّجوم الشوابک۔ یعنی جہاں کہ کہکشاں راہ پاتی ہے۔ اُمّ الاضیاف۔ مہمان وناز۔ اُمّ المساکین۔ مسکین نواز۔ مسکینوں کا سہارا۔ ایسے ہی جیسے بہت زیادہ مہمان نواز کو ’’ابوالاضیاف‘‘ کہا جاتا ہے اور رئیس جیش کو ام الجیش۔ شاعر نے کہا ہے(2) (طویل) (۲۴) وام عیال قَدْ شَھِدْتُ تقوتُھُمْ اور وہ اپنی قوم کے لیے بمنزلہ ام عیال ہے جو ان کو رزق دیتا ہے۔ (اُمُّ الکتاب۔ سورۃ فاتحہ کا نام ہے، کیونکہ وہ قرآن پاک کے لیے بمنزل دیباچہ اور مقدمہ ہے۔ او رآیت کریمہ : (فَاُمُّہٗ ہَاوِیَۃٌ ؕ) (۱۰۱:۹) مثویٔ یعنی رہنے کی جگہ کے ہیں۔ جیسے دوسری جگہ دوزخ کے متعلق مَاْوَاکُمُ النَّارُ (۲۹:۲۵) فرمایا ہے (او ریہ بھی ہوسکتا ہے کہ اُمُّہٗ ھَاوِیَۃٌ ایک محاروہ ہو) جس طرح کہ وَیْلُ اُمِّہٖ وَھَوَتْ اُمُّہٗ ہے یعنی اس کے لیے ہلاکت ہو۔ اور اﷲ تعالیٰ نے آیت کریمہ : (وَ اَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ ) (۳۳:۶) میں ازواجِ مطہرات کو امہات المؤمنین قرار دیا ہے جس کی وجہ بحث (اَبٌ) میں گزر چکی ہے۔ نیز فرمایا : (یَابْنَ اُمَّ) (۲۰:۹۴) کہ بھائی۔ اُمٌّ (کی اصل میں اختلاف پایا جاتا ہے) بعض نے کہا ہے کہ اُمٌّ اصل میں اُمَّھَۃٌ ہے کیونکہ اس کی جمع اُمَّھَاتٌ اور تصغیر اُمَیْھَۃٌ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مضاعف ہی ہے کیونکہ اس کی جمع اُمَّاتٌ اور تصغیر اُمَیْمَۃٌ آتی ہے۔ بعض کا قول ہے کہ عام طور پر حیوانات وغیرہ کے لیے اُمَّاتٌ اور انسان کے لیے اُمَّھَاتٌ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ اَلْاُمَّۃُ : ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری ہو یا غیراختیاری اس کی جمع اُمَمٌ آتی ہے اور آیت کریمہ : (وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا طٰٓئِرٍ یَّطِیۡرُ بِجَنَاحَیۡہِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمۡثَالُکُمۡ ) (۶:۳۸) اور زمین پر جو چلنے پھرنے والے (حیوان) دو پروں سے اُڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں۔ میں اُمَمٌ سے ہر وہ نوع حیوان مراد ہے جو فطری اور تسخیری طور پر خاص قسم کی زندگی بسر کررہی ہو۔ مثلاً : مکڑی جالا بنتی ہے اور سرفتہ (امور سپید تنکوں سے) اپنا گھر بناتی ہے اور چیونٹی ذخیرہ اندوزی میں لگی رہتی ہے اور چڑیا کبوتر وغیرہ وقتی غذا پر بھروسہ کرتے ہیں الغرض ہر نوع حیوان اپنی طبیعت اور فطرت کے مطابق ایک خاص قسم کی زندگی بسر کررہی ہے اور آیت کریمہ : (کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً) (۲:۲۱۳) (پہلے توسب) لوگ ایک اُمت تھے۔ کے معنی یہ ہیں کہ تمام لوگ صنف واحد اور صلالت و کفر کے ہی مسلک پر گامزن تھے اور آیت کریمہ : (وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمۡ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ) (۵:۴۸) اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ہی شریعت پر کردیتا۔ میں اُمَّۃً وَّاحِدَۃً سے وحدۃ بلحاظ ایمان مراد ہے۔ او رآیت کریمہ : (وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ ) (۳:۱۰۴) کے معنی یہ ہیں کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہونی چاہیے جو علم اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرے اور دوسروں کے لیے اسوہ بنے او رآیت کریمہ : (اِنَّا وَجَدۡنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤی اُمَّۃٍ ) (۴۳:۲۲) ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک متفقہ دین پر پایا ہے میں اُمَّۃٍ کے معنی دین کے ہیں چنانچہ شاعر نے کہا ہے(3) (۲۵) وَھَلْ یَأثَمَنْ ذُوْ اُمَّۃٍ وَھُوَ طَائِعٗ (طویل) بھلا کوئی متدین آدمی رضا اور رغبت سے گناہ کرسکتا ہے او رآیت کریمہ : (وَ ادَّکَرَ بَعۡدَ اُمَّۃٍ ) (۱۲:۴۵) میں اُمَّۃ کے معنی حین، یعنی عرصہ دراز کے ہیں او رایک قرأت میں بعد اُمَہٍ (بِالْھَاء) ہے(4) یعنی نسیان کے بعد جب اسے یاد آیا۔ اصل میں بَعْدَ اُمَّۃٍ کے معنی ہیں ایک دور کسی ایک مذہب کے متبعین کا دور گزر جانے کے بعد او رآیت کریمہ: (اِنَّ اِبۡرٰہِیۡمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ ) (۱۶:۱۲۰) کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) عبادت الٰہی میں ایک جماعت اور قوم کے بمنزلہ تھے۔ جس طرح کہ محاورہ ہے : فَلَانٌ فِیْ نَفْسِہٖ قَبِیْلَۃٌ کہ فلاں بذاتِ خود ایک قبیلہ ہے۔ یعنی ایک قبیلہ کے قائم مقام ہے۔ (۱۳) وروی انہ یحشر زید بن عمر بن نفیل امۃ واحدَہ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ حشر کے دن زید بن عمرو بن نفیل اکیلا ہی امت ہوگا۔ (5) او رآیت کریمہ : (لیسوا سواء من اھل الکتاب امۃ قائمۃ) (۳:۱۳) وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں ان اہل کتاب میں کچھ لوگ (حکم خدا پر) قائم بھی ہیں۔ میں اُمَّۃٌ بمعنی جماعت ہے زجاج(6) کے نزدیک یہاں قَائِمَۃ بمعنی استقامت ہے یعنی ذو وطریقۃٍ وَاحِدَۃٍ تو یہاں مضمر متروک ہے۔ اَلاُمِّیُّ وہ ہے جو نہ لکھ سکتا ہو اور نہ ہی کتاب میں سے پڑھ سکتا ہو۔ چنانچہ آیت کریمہ : (ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ ) (۶۲:۲) وہی تو ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے (محمد کو) پیغمبر بنا کر بھیجا۔ میں اُمِّیِّیْنَ سے یہی مراد ہے۔ قطرب(7) نے کہا ہے کہ اُمِّیَّۃٌ بمعنی غفلت و جہالت کے ہے او راسی سے امی ہے کیونکہ اسے بھی معرفت نہیں ہوتی، چنانچہ فرمایا: (وَ مِنۡہُمۡ اُمِّیُّوۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ الۡکِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ ) (۲:۷۸) اور بعض ان میں سے اَن پڑھ ہیں کہ اپنے خیالات باطل کے سوا (خدا کی کتاب سے) واقف ہی نہیں ہیں۔ یہاں اِلَّا اَمَانِیَّ کے معنی اِلَّا اَنْ یُّتْلٰی عَلَیْھِمْ کے ہیں یعنی مگر یہ کہ انہیں پڑھ کر سنایا جائے۔ فَرَّائَ (8) نے کہا ہے کہ اُمِّیُّوْنَ سے مراد ہیں جو اہل کتاب نہ تھے اور آیت کریمہ : (الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ مَکۡتُوۡبًا عِنۡدَہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ ) (۷:۱۵۷) اور وہ جو (محمد) رسول (ا۱) نبی امی کی پیروی کرتی ہیں جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں توراۃ اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اُمِّیٌّ اس امت یعنی قوم کی طرف منسوب ہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتی ہو جس طرح کہ عَامِیٌّ اسے کہتے ہیں جو عوام جیسی صفات رکھتا ہو۔ بعض نے کہا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اُمِّیٌّ کہنا اس بنا پر ہے کہ آپؐ نے لکھنا جانتے تھے او رنہ ہی کوئی کتاب پڑھتے تھے۔ بلکہ وحی الٰہی کے بارے میں اپنے حافظہ اور خدا کی اس ضمانت پر کہ (سَنُقۡرِئُکَ فَلَا تَنۡسٰۤی ۙ) (۸۷:۶) ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کروگے۔ اعتماد کرتے تھے یہ صفت آپ کے لیے باعث فضیلت تھی۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ ام القریٰ یعنی مکہ مکرمہ کی طرف نسبت ہے۔ (9) اَلْاِمَامُ وہ ہے جس کی اقتداء کی جائے خواہ وہ انسان ہو یا اس کے قول و فعل کی اقتداء کی جائے یا کتاب وغیرہ ہو اور خواہ وہ شخص جس کی پیروی کی جائے حق پر ہو یا باطل پر ہو اس کی جمع اَئِمَّۃٌ (اَفْعِلَۃ) ہے او رآیت : (یَوۡمَ نَدۡعُوۡا کُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِہِمۡ ) (۱۷:۷۱) جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے پیشواؤں کے ساتھ بلائیں گے۔ میں امام سے وہ شخص مراد ہے جس کی وہ اقتداء کرتے تھے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ امام بمعنی کتاب ہے۔ (10) او رآیت کریمہ : (وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا ) (۲۵:۷۴) او رہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا۔میں ابوالحسن نے کہا ہے کہ یہ امام (مفرد) کی جمع ہے(11) اور دوسرے علماء کے نزدیک یہ دِرْعٌ دِلاص ودروع دِلاصٌ کے باب سے ہے(12) (یعنی فِعَال مفرد اور جمع دونوں پر بولا جاتا ہے) اور آیات : (ونجلھم ائمۃ) (۲۸:۵) اور ان کو پیشوا بنائیں (وَ جَعَلۡنٰہُمۡ اَئِمَّۃً یَّدۡعُوۡنَ اِلَی النَّارِ ) (۲۸:۴۱) او رہم نے ان کو پیشوا بنایا تھا وہ لوگوں کو دوزخ کی طرف بلاتے تھے۔ میں اَئِمَّۃٌ کا واحد امام ہے او رآیت : (وَ کُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰہُ فِیۡۤ اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ ) (۳۶:۱۲) اور ہر چیز کو ہم نے کتاب روشن یعنی لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لوحِ محفوظ کی طرف اشارہ ہے۔ اَلْاَمُّ (ن) کے معنی ہیں سیدھا مقصد کی جانب متوجہ ہونا (او رکسی طرف مائل نہ ہونا) او رآیت کریمہ : (وَ لَاۤ آٰمِّیۡنَ الۡبَیۡتَ الۡحَرَامَ ) (۵:۲) اور نہ ان لوگوں کی جو عزت والے گھر (یعنی بیت اﷲ) کو جارہے ہوں۔ میں اٰمِّیْنَ اسی پر محمول ہے : اَمَّہٗ بمعنی شَجَّہٗ کسی کا سر پھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، لیکن اس کے اصل معنی ام دماغ پر مارنا کے ہیں۔ جیساکہ اہل عرب کسی عضو پر مارنے کے لیے اس سے فَعَلْتُ کا صیغہ بنا لیتے ہیں رَأسْتُہٗ، رَجَلْتُہٗ، کَبَدْتُہٗ، بَطَنْتُہٗ۔

Words
Words Surah_No Verse_No
الْاُمَمِ سورة فاطر(35) 42
الْاُمِّيَّ سورة الأعراف(7) 157
الْاُمِّيِّ سورة الأعراف(7) 158
الْاُمِّيّٖنَ سورة آل عمران(3) 75
الْاُمِّيّٖنَ سورة الجمعة(62) 2
اَمَامَهٗ سورة القيامة(75) 5
اَىِٕمَّةً سورة الأنبياء(21) 73
اَىِٕمَّةً سورة القصص(28) 5
اَىِٕمَّةً سورة القصص(28) 41
اَىِٕمَّةً سورة السجدة(32) 24
اَىِٕمَّةَ سورة التوبة(9) 12
اُمَمًا سورة الأعراف(7) 160
اُمَمًا سورة الأعراف(7) 168
اُمَمٌ سورة الأنعام(6) 38
اُمَمٌ سورة الرعد(13) 30
اُمَمٌ سورة العنكبوت(29) 18
اُمَمٍ سورة الأنعام(6) 42
اُمَمٍ سورة الأعراف(7) 38
اُمَمٍ سورة هود(11) 48
اُمَمٍ سورة النحل(16) 63
اُمَمٍ سورة حم السجدہ(41) 25
اُمَمٍ سورة الأحقاف(46) 18
اُمَّ سورة الأنعام(6) 92
اُمَّ سورة الأعراف(7) 150
اُمَّ سورة الشورى(42) 7
اُمَّةً سورة البقرة(2) 128
اُمَّةً سورة البقرة(2) 143
اُمَّةً سورة البقرة(2) 213
اُمَّةً سورة المائدة(5) 48
اُمَّةً سورة يونس(10) 19
اُمَّةً سورة هود(11) 118
اُمَّةً سورة النحل(16) 93
اُمَّةً سورة النحل(16) 120
اُمَّةً سورة الأنبياء(21) 92
اُمَّةً سورة المؤمنون(23) 44
اُمَّةً سورة المؤمنون(23) 52
اُمَّةً سورة القصص(28) 23
اُمَّةً سورة الشورى(42) 8
اُمَّةً سورة الزخرف(43) 33
اُمَّةٌ سورة البقرة(2) 134
اُمَّةٌ سورة البقرة(2) 141
اُمَّةٌ سورة آل عمران(3) 104
اُمَّةٌ سورة آل عمران(3) 113
اُمَّةٌ سورة المائدة(5) 66
اُمَّةٌ سورة الأعراف(7) 38
اُمَّةٌ سورة الأعراف(7) 159
اُمَّةٌ سورة الأعراف(7) 164
اُمَّةٌ سورة الأعراف(7) 181
اُمَّةٌ سورة النحل(16) 92
اُمَّةٍ سورة آل عمران(3) 110