لِقِیَہ (س) یَلْقَاہُ لِقَائً کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک پر الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے ( وَ لَقَدۡ کُنۡتُمۡ تَمَنَّوۡنَ الۡمَوۡتَ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَلۡقَوۡہُ) (۳۔۱۴۳) اور تم موت ( شہادت) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے۔ ( لَقَدۡ لَقِیۡنَا مِنۡ سَفَرِنَا ہٰذَا نَصَبًا) (۱۸۔۶۲) اس سفر سے ہم کو بہت تکان ہوگئی ہے۔ اور ملاقات الٰہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اﷲ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: ( وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّکُمۡ مُّلٰقُوۡہُ ) (۲۔۲۲۳) اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے روبرو حاضر ہونا ہے۔ (قَالَ الَّذِیۡنَ یَظُنُّوۡنَ اَنَّہُمۡ مُّلٰقُوا اللّٰہِ ) (۲۔۲۴۹) جو لوگ یقین رکھتے تھے کہ ان کو خدا کے روبرو حاضر ہونا ہے وہ کہنے لگے اور لِقائٌ (مصدر) ملاقات کے ہم معنی ہے۔ چنانچہ فرمایا: (وَ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا) (۲۵۔۲۱) اور جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے۔ (اِلٰی رَبِّکَ کَدۡحًا فَمُلٰقِیۡہِ ) (۸۴۔۶) اپنے پروردگار کی طرف پہنچنے میں خوب کوشش کرتا ہے سو اس سے جا ملے گا۔ اور آیت کریمہ: (فَذُوْقُوْا بِمَانَسِیْتُمْ لِقَائَ یَوْمِکُمْ ہذا) (۲۳۔۱۴) کے معنی یہ ہیں کہ تم نے قیامت کے دن اور حشر و نشر کو بھلا رکھا تھا اور ( یَوْمَ التَّلاَقِ) (۴۰:۱۵) سے قیامت کا دن مراد ہے اور قیامت کے دن کو یَوْمَ التَّلَاقِ اس لیے کہا گیا ہے کہ اس روز سب سے اگلے اور پچھلے یا اہل سماء اور اہل ارض ایک دوسرے کے سامنے آجائیں گے۔ نیز اس روز ہر شخص اپنے اعمال کے نتائج کو پالے گا۔ لَقِیَ فُلَانٌ خَیْرًا اَوْشَرَّا فلاں نے خیر یا شر کو پالیا ۔ شاعر نے کہا ہے (1) (الویل) (۳۹۸) فَمَنْ یَّلْقَ خَیْراً یَّحْمَدِ النَّاسُ اَمْرَہ جو شخص خیر کو پالیتا ہے لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں دوسرے شاعر نے کہا ہے۔ (۳۹۹) وَتَلْقَی السَّمَاحَۃَ مِنْہُ وَالنَّدیٰ خُلُقًا سخاوت اور بخشش کرنا اس کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہے۔ لَقَّیْتُہ بِکَذَا : میں فلاں چیز کے ساتھ اس کے سامنے پہنچا۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ یُلَقَّوۡنَ فِیۡہَا تَحِیَّۃً وَّ سَلٰمًا) (۲۵۔۷۵) اور وہاں ان کا استقبال دعاو سلام کے ساتھ کیا جائے گا۔ (وَ لَقّٰہُمۡ نَضۡرَۃً وَّ سُرُوۡرًا) (۷۶۔۱۱) اور تازگی اور شادمانی سے ہمکنار فرمائے گا۔ تَلَقَّاہُ کے معنی کسی چیز کو پالینے یا اس کے سامنے آنے کے ہیں۔ جیسے فرمایا: (وَ تَتَلَقّٰہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ) (۲۱۔۱۰۳) اور فرشتے ان کو لینے آئیں گے۔ (وَ اِنَّکَ لَتُلَقَّی الۡقُرۡاٰنَ ) (۲۷۔۶) اور تم کو قرآن عطا کیا جاتا ہے۔ اَلِابْقَائُ: (افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دینا کے ہیں کہ وہ دوسرے کو سامنے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کسی چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے۔ قرآن میں ہے: (فَکَذٰلِکَ اَلۡقَی السَّامِرِیُّ ) (۲۰۔۸۷) اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا۔ (قالو القوا) (۷۔۱۱۵۔۱۱۶) تو جادوں گروں نے کہا کہ موسی یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ (قَالَ اَلۡقِہَا) (۲۰۔۱۹) فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام اسے ڈال دو تو انھوں نے اس کو ڈال دیا۔ (فَلۡیُلۡقِہِ الۡیَمُّ بِالسَّاحِلِ ) (۲۰۔۳۹) تو دریا اس کو کنارے پر ڈال دے گا۔ (اِذَا اُلْقُوْافِیْھَا) (۶۷۔۷) جب وہ اس میں ڈالے جائیں گے۔ (کُلَّمَاۤ اُلۡقِیَ فِیۡہَا فَوۡجٌ ) (۶۷۔۸) جب اس میں .... کوئی جماعت ڈالی جائے گی۔ اور آیت: (وَ اَلۡقَتۡ مَا فِیۡہَا وَ تَخَلَّتۡ ) (۸۴۔۴) اور جو کچھ اس میں ہے اسے نکال کر باہر ڈال دے گی۔ اور بالکل خالی ہوجائے گی۔ دوسری آیت ( وَ اِذَا الۡقُبُوۡرُ بُعۡثِرَتۡ) (۸۲۔۴) اور جب قبریں الٹ پلٹ کردی جائیں گی۔ کے ہم معنی ہے۔ اَلْقَیْتُ اِلَیْکَ قَوْلَا وَّسَلَامًا وَکَلَامًا وَّمَوَدَّۃً کے معنی ہیں۔ تجھ سے کوئی بات کی یا سلام و کلام کیا یا دوستی بڑھائی۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (تُلۡقُوۡنَ اِلَیۡہِمۡ بِالۡمَوَدَّۃِ ) (۶۰۔۱) تم ان کو دوستی کے پیغام بھیجتے ہو ( فَاَلۡقَوۡا اِلَیۡہِمُ الۡقَوۡلَ ) (۱۶۔۸۶) تو وہ ان سے کہیں گے۔ (وَ اَلۡقَوۡا اِلَی اللّٰہِ یَوۡمَئِذِۣ السَّلَمَ) (۱۶۔۸۷) اور اس دن خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے اور آیت کریمہ: (اِنَّا سَنُلۡقِیۡ عَلَیۡکَ قَوۡلًا ثَقِیۡلًا) (۷۳۔۵) ہم عنقیب تم پر ایک بھاری فرمان نازل کریں گے۔ میں وحی اور نبوت کے اس بوجھ کی طرف اشارہ ہے ۔ جو آپ ڈالا گیا تھا۔ اور آیت کریمہ: (اَوۡ اَلۡقَی السَّمۡعَ وَ ہُوَ شَہِیۡدٌ) (۵۰۔۳۷) یا دل سے متوجہ ہوکر سنتا ہے۔ میں اِلْقَائِ سَمْع سے کان لگاکر سننا مراد ہے۔ اور آیت کریمہ: (فَاُلۡقِیَ السَّحَرَۃُ سُجَّدًا) (۲۰۔۷۰) تو جادوگر سجدے میں گر پڑے۔ میں فعل مجہول لاکر اس بات پر متنبہ کیا گیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے غلبہ کو دیکھ کر وہ سجدہ ریز ہونے پر مجبور ہوگئے تھے۔ اور انہیں اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آتا تھا۔
Words | Surah_No | Verse_No |
سَنُلْقِيْ | سورة المزمل(73) | 5 |
فَالْتَقَى | سورة القمر(54) | 12 |
فَالْمُلْقِيٰتِ | سورة المرسلات(77) | 5 |
فَاَلْـقَوْا | سورة الشعراء(26) | 44 |
فَاَلْقَوُا | سورة النحل(16) | 28 |
فَاَلْقَوْا | سورة النحل(16) | 86 |
فَاَلْقُوْهُ | سورة يوسف(12) | 93 |
فَاَلْقُوْهُ | سورة الصافات(37) | 97 |
فَاَلْقِهْ | سورة النمل(27) | 28 |
فَاَلْقِيْهِ | سورة القصص(28) | 7 |
فَاَلْقِيٰهُ | سورة ق(50) | 26 |
فَاَلْقٰى | سورة الأعراف(7) | 107 |
فَاَلْقٰى | سورة الشعراء(26) | 32 |
فَاَلْقٰى | سورة الشعراء(26) | 45 |
فَاَلْقٰىهَا | سورة طه(20) | 20 |
فَاُلْقِيَ | سورة طه(20) | 70 |
فَاُلْقِيَ | سورة الشعراء(26) | 46 |
فَتَلَـقّيٰٓ | سورة البقرة(2) | 37 |
فَتُلْقٰى | سورة بنی اسراءیل(17) | 39 |
فَلْيُلْقِهِ | سورة طه(20) | 39 |
فَمُلٰقِيْهِ | سورة الانشقاق(84) | 6 |
لَاقِيْهِ | سورة القصص(28) | 61 |
لَتُلَقَّى | سورة النمل(27) | 6 |
لَقُوا | سورة البقرة(2) | 14 |
لَقُوا | سورة البقرة(2) | 76 |
لَقُوْكُمْ | سورة آل عمران(3) | 119 |
لَقِيَا | سورة الكهف(18) | 74 |
لَقِيْتُمُ | سورة الأنفال(8) | 15 |
لَقِيْتُمُ | سورة محمد(47) | 4 |
لَقِيْتُمْ | سورة الأنفال(8) | 45 |
لَقِيْنَا | سورة الكهف(18) | 62 |
لِقَاۗءَ | سورة الأنعام(6) | 130 |
لِقَاۗءَ | سورة الأعراف(7) | 51 |
لِقَاۗءَ | سورة الكهف(18) | 110 |
لِقَاۗءَ | سورة العنكبوت(29) | 5 |
لِقَاۗءَ | سورة السجدة(32) | 14 |
لِقَاۗءَ | سورة الزمر(39) | 71 |
لِقَاۗءَ | سورة الجاثية(45) | 34 |
لِقَاۗءَنَا | سورة يونس(10) | 7 |
لِقَاۗءَنَا | سورة يونس(10) | 11 |
لِقَاۗءَنَا | سورة يونس(10) | 15 |
لِقَاۗءَنَا | سورة الفرقان(25) | 21 |
لِّــقَاۗىِٕهٖ | سورة السجدة(32) | 23 |
لِّقَاۗءِ | سورة حم السجدہ(41) | 54 |
مُلٰقٍ | سورة الحاقة(69) | 20 |
مُلٰقِيْكُمْ | سورة الجمعة(62) | 8 |
مُّلْقُوْنَ | سورة الشعراء(26) | 43 |
مُّلٰقُوا | سورة البقرة(2) | 249 |
مُّلْقُوْنَ | سورة يونس(10) | 80 |
مُّلٰقُوْا | سورة البقرة(2) | 46 |