اَلْکُفْرُ:اصل میں کفر کے معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپالیتی ہے۔اسی طرح کاشتکار چونکہ زمین کے اندر بیج کو چھپاتا ہے۔اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے اور یہ رات یا کسان کے ناموں میں سے نہیں ہے جیسا کہ بعض اہل لغت نے بطور دلیل مندرجہ ذیل شعر پیش کہا ہے (1) (الکامل) (۳۷۴) (اَلْقَتْ ذُکَائُ یَمِیْنَھَا فِیْ کَافِرٍ) سورج نے اپنا دایاں ہاتھ رات کے اندر ڈال دیا۔یعنی غروب ہوگیا۔ اَلْکَافُوْرُ:اس غلاف کو کہتے ہیں جو پھل کو اپنے آغوش میں چھپائے رکھتا ہے۔شاعر نے کہا ہے (2) (الرجز) (۳۷۵) (کَالْکَرْمِ اِذْنَادٰی مِنَ الکَافُوْرِ) جیسے انگور غلاف سے ظاہر ہوتا ہے۔کُفْرٌ یا کفران نعمت کے معنی نعمت کی ناشکری کرکے اسے چھپانے کے ہیں۔قرآن پاک میں ہے: (فَلَا کُفۡرَانَ لِسَعۡیِہٖ ) (۲۱۔۹۴) تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی۔اور سب سے بڑا کفر اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت،شریعت حقہ یا نبوت کا انکار ہے۔پھر ان کا لفظ زیادہ تر نعمت کا انکار کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کفر کا لفظ انکار دین کے معنی میں اور کَفُوْرٌ کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے۔چنانچہ قرآن پاک میں ہے۔ (فَاَبٰۤی اَکۡثَرُ النَّاسِ اِلَّا کُفُوۡرًا) (۱۷۔۸۹) تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا (فَاَبٰۤی اَکۡثَرُ النَّاسِ اِلَّا کُفُوۡرًا) (۱۷۔۸۹) مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا۔اور فعل کَفَرَ فَھُوَ کَافِرٌ ہر دو معانی کے لئے آتا ہے۔چنانچہ معنی کفران کے متعلق فرمایا: (لِیَبۡلُوَنِیۡۤ ءَاَشۡکُرُ اَمۡ اَکۡفُرُ ؕ وَ مَنۡ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشۡکُرُ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیۡ غَنِیٌّ کَرِیۡمٌ ) (۲۷۔۴۰) تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوں۔اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کیلئے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا پروردگار بے پروا (اور) کرم کرنے والا ہے۔ (وَ اشۡکُرُوۡا لِیۡ وَ لَا تَکۡفُرُوۡنِ) (۲۔۱۵۲) اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا۔اور آیت کریمہ: (وَ فَعَلۡتَ فَعۡلَتَکَ الَّتِیۡ فَعَلۡتَ وَ اَنۡتَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ ) (۲۶۔۱۹) اور تم نے ایک اور کام کیا تھا جو کیا تم ناشکرے معلوم ہوتے ہو۔کے معنی یہ ہیں کہ تم نے قصدا میری نعمت کی ناشکری کی ہے۔ (لَئِنۡ کَفَرۡتُمۡ اِنَّ عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ) (۱۴۔۷) اگر شکر کروگے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا۔اور اگر ناشکری کروگے تو (یاد رکھو کہ) میرا عذاب بھی سخت ہے۔اور کفران نعمت چونکہ انکار نعمت کا متقضی ہے اس لئے یہ مطلقا انکار کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے۔چنانچہ قرآن پاک میں ہے۔ (وَ لَا تَکُوۡنُوۡۤا اَوَّلَ کَافِرٍۭ بِہٖ) (۲۔۴۱) اور اس سے منکر اول نہ بنو۔تو یہاں کافر بمعنی جاحد (منکر) کے ہے اور کافر علی الاطلاق یعنی بلاتقیید عرف میں اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت،شریعت اور نبوت میں سے کسی ایک یا تینوں کا منکر ہو۔اور کبھی کفر کا لفظ اس شخص کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے جو شریعت کے کسی حکم میں خلل اندازی کرتا ہو یا اﷲ تعالیٰ کی اس طرح شکرگزاری نہ کرتا ہو جیسے کرنا چاہیئے۔چنانچہ آیت: (مَنۡ کَفَرَ فَعَلَیۡہِ کُفۡرُہٗ ) (۳۰۔۴۴) تو جس نے کفر کیا،اس کے کفر کا ضرر اسی پر ہے۔میں کفر کے معنی شریعت کے حکم میں خلل اندازی کرنے کے ہیں۔جیسا کہ اس کے بالمقابل آیت: (وَ مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا فَلِاَنۡفُسِہِمۡ یَمۡہَدُوۡنَ) (۳۰۔۴۴) اور جس نے نیک عمل کیے تو ایسے لوگ اپنے ہی لیئے آرام گاہ درست کرتے ہیں۔سے معلوم ہوتا ہے نیز فرمایا: (وَاَکْثَرُھُمُ الْکٰفِرُوْنَ) (۸۶۔۸۳) اور یہ اکثر ناشکرے ہیں اور آیت کریمہ: (وَ لَا تَکُوۡنُوۡۤا اَوَّلَ کَافِرٍۭ بِہٖ) (۲۔۴۱) اور اس سے منکر اول نہ بنو۔کے معنی یہ ہیں کہ تم ائمہ کفر نہ بنو کہ دوسرے لوگ اس میں تمہاری اقتداء کریں اور آیت کریمہ: (وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ) (۲۴۔۵۵) اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بدکردار ہیں۔میں مَنْ کَفَرَ سے حقوق الہیٰ کو چھپانے والے لوگ مراد ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انہیں فاسق کہا ہے کیونکہ کفر مطلق فسق سے اعم ہے پس آیت کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص حق باری تعالیٰ میں جحود سے کام لے گا تو وہ اپنے اس ظلم کے سبب اطاعت الہیٰ سے خارج سمجھا جائے گا۔پھر جس طرح ہر اچھے کام کو ایمان قرار دیا گیا ہے اسی طرح ہر برے کام کو کفر شمار کیا گیا ہے۔چنانچہ سحر کے متعلق فرمایا: (وَ مَا کَفَرَ سُلَیۡمٰنُ وَ لٰکِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ کَفَرُوۡا یُعَلِّمُوۡنَ النَّاسَ السِّحۡرَ) (۲۔۱۰۲) اور سلیمان نے مطلق کفر کی بات نہیں کی بلکہ شیطان ہی کفر کرتے تھے۔اور آیت (اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبَا کے بعد فرمایا (وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیۡمٍ) (۲۔۲۷۶) کہ اﷲ کسی ناشکرے گنہگار کو دوست نہیں رکھتا۔ اور اسی طرح آیت (وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ کے آخر میں فرمایا: (وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ) (۳۔۹۷) اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو خدا بھی اہل عالم سے بے نیاز ہے۔ اَلْکَفُوْرُ: (مبالغہ) کے معنی انتہائی درجہ کے ناسپاس کے ہیں۔چنانچہ فرمایا: (اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَکَفُوۡرٌ) (۲۲۔۶۶) اور انسان تو بہت ناشکرا ہے۔ (ذٰلِکَ جَزَیۡنٰہُمۡ بِمَا کَفَرُوۡا ؕ وَ ہَلۡ نُجٰزِیۡۤ اِلَّا الۡکَفُوۡرَ) (۳۴۔۱۷) یہ ہم نے ان کی ناشکری کی ان کو سزادی۔اور ہم سزا ناشکرے ہی کو دیا کرتے ہیں۔یہاں یہ شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ آیت مذکورہ میں انسان کو کَفُوْرٌ بصیغہ مبالغہ کہا ہے اور پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ’’اِنَّٗٗولام توکید لاکر کلام کو اور بھی زوردار بنادیا گیا ہے حالانکہ دوسرے مقام پر آیت: (وَ کَرَّہَ اِلَیۡکُمُ الۡکُفۡرَ ) (۴۹۔۷) اور کفر سے تم کو بیزار کردیا۔سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو کفر سے طبعی نفرت ہے تو اسکا جواب یہ ہے کہ آیت اِنَّ الْاِنْسَانَ لَکَفُوْرٌ میں ’’کَفُوْرٌٗٗ کفر سے نہیں ہے بلکہ کفران نعمت سے ہے پس آیت میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ ناسپاسی اور شکر گزاری سے غفلت برتنا انسان کا فطرتی خاصہ ہے اور آیت (قُتِلَ الۡاِنۡسَانُ مَاۤ اَکۡفَرَہٗ ) (۸۰۔۱۷) انسان ہلاک ہوجائے کیسا ناشکرا ہے بھی اسی معنی پر محمول ہے۔اسی لیئے دوسرے مقام پر فرمایا (وَ قَلِیۡلٌ مِّنۡ عِبَادِیَ الشَّکُوۡرُ) (۳۴۔۱۳) اور میرے بندوں سے شکرگزار تھوڑے ہیں اور آیت کریمہ: (اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا) (۷۶۔۳) اور اسے رستہ بھی دکھایا دیا (اب) وہ خواہ وہ شکرگزار ہو خواہ ناشکرا۔میں بھی تنبیہ کیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو (ہدایت اور گمراہی کے) راستے بتادیئے ہیں جیسا کہ آیت: (وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ ) (۹۰۔۱۰) اور اس کو (خیر و شرکے) دونوں رستے بھی دکھادیئے۔سے معلوم ہوتا ہے اب کوئی شکرگزاری کے رستہ پر گامزن ہے اور کوئی ناشکری کی راہ پر اور آیت: (وَ کَانَ الشَّیۡطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوۡرًا) (۱۷۔۲۷) اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوںں کا کفران کرنے والا (یعنی) ناشکرا ہے میں کَفُوْرٌ کفر سے ہے اور آیت میں کَانَ کے لفظ سے اس بات پر تنبیہ کی ہے کہ اس نے جنم ہی کفر پر لیا ہے۔اَلْکُفَّارُ:اس میں کفور سے بھی زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے۔جیساکہ مندرجہ ذیل آیات سے معلوم ہوتا ہے چنانچہ فرمایا: (کُلَّ کَفَّارِ عَنِیْدِ) (۵۰۔۲۴) ہر سرکش ناشکرے کو (اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِیۡ مَنۡ ہُوَ کٰذِبٌ کَفَّارٌ) (۳۹۔۳) بے شک خدا اس شخص کو جو جھوٹا ناشکرا ہے،ہدایت نہیں دیتا۔ (وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیۡمٍ) (۲۔۲۷۶) اور خدا کسی ناشکرے گنہگار کو دوست نہیں رکھتا۔ (اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا) (۷۱۔۲۷) وہ بھی بدکار اور ناشکرگزار ہوگی۔اور کبھی کَفَّار بمعنی کفور بھی آجاتا ہے جیسے فرمایا (اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَظَلُوۡمٌ کَفَّارٌ ) (۱۴۔۳۴) بے شک انسان بڑا بے انصاف اور ناشکرا ہے۔کُفَّارٌ اور کَفَرَۃٌ دونوں کافِرٌ کی جمع ہیں لیکن پہلی جمع تو عام طور پر مومنین کے بالمقابل استعمال ہوتی ہے جیسے فرمایا: (اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ ) (۴۸۔۲۹) وہ کافروں کے حق میں سخت ہیں۔ (لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ) (۴۸۔۲۹) تاکہ کافروں کا جی جلائے۔اور دوسری بمعنی کفران نعمت کے آتی ہے چنانچہ آیت: (اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکَفَرَۃُ الۡفَجَرَۃُ ) (۸۰۔۴۲) یہ لوگ کفار بد کردار ہیں۔میں آپ نہیں دیکھتے کہ کَفَرَۃٌ کی صفت فَجَرَۃٌ لائی گئی ہے اور فَجَرَۃٌ فاسق مسلمان کو بھی کہا جاتا ہے تو معلوم ہوا کہ یہاں کَفَرَۃٌ سے مراد نہ شکرے ہی ہیں اور آیت: (جَزَآءً لِّمَنۡ کَانَ کُفِرَ) (۵۴۔۱۴) یہ سب کچھ اس شخص کے انتقام کے لئے کیا گیا ہے جس کو کافر مانتے نہ تھے۔میں لِمَنْ کَانَ کُفِرَ سے انبیاء علیہم السلام اور ان کے خلفاء مراد ہیں جنہوں نے اﷲ تعالیٰ کے بارے میں لوگوں کو نصیحت کی لیکن ان کی دعوت پر کسی نے بھی کان نہ دھرا۔اور آیت کریمہ: (اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا ثُمَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا ) (۴۔۱۳۷) جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے۔پھر ایمان لائے پھر کافر ہوگئے۔کے بعض نے یہ معنی بیان کیے ہیں کہ اولاً موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے پھر اس کے بعد دوسرے پیغمبروں کے ساتھ کفر کیا پھر عیسائی عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے مگر ان کے بعد آنے والے پیغمبر کے ساتھ کفر کیا۔اور بعض نے کہا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانا پھر انہی کے ساتھ کفر کرنا مراد ہے۔کیونکہ ان کا کسی دوسرے پر تو ایمان لانا ثابت نہیں ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت۔ (وَ قَالَتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اٰمِنُوۡا بِالَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَجۡہَ النَّہَارِ وَ اکۡفُرُوۡۤا اٰخِرَہٗ ) (۳۔۷۲) اور اہل کتاب ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ جو کتاب مومنوں پر نازل ہوئی اس پر دن کے شروع میں تو ایمان لے آیا کرو اور اس کے آخر میں انکار کردیا کرو۔کی طرح ہے اور اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ دو دفعہ ایمان لائے اور پھر دوبار ہی کفر کیا بلکہ اس سے ان کی مختلف حالتوں کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے بعض نے کہا ہے کہ جس طرح فضائل میں ترقی کے تین درجات ہیں اسی طرح رذائل میں بھی انحطاط کے تین درجے ہیں۔اور آیت کریمہ میں انہی درجات کی طرف اشارہ ہے ۔اس مفہوم کو ہم نے اپنی کتاب ’’الذریعۃٗٗمیں خوب وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔کَفَرَ فُلَانٌ کے معنی اعتقاد کفر کے بھی ہوتے ہیں اور محض زبان سے اظہار کفر کے بھی ۔خواہ وہ دل سے اس کا معتقد نہ ہو۔اسی لئے فرمایا: (مَنۡ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اِیۡمَانِہٖۤ اِلَّا مَنۡ اُکۡرِہَ وَ قَلۡبُہٗ مُطۡمَئِنٌّۢ بِالۡاِیۡمَانِ) (۱۶۔۱۰۶) جو شخص ایمان کے بعد خدا کے ساتھ کفر کرے وہ نہیں جو (کفر پر زبردستی) مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو۔ (کَفَرَ فُلَان با لشَّیطَانِ) کے معنی شیطان کے ساتھ کفر کرنا بھی آجاتے ہیں۔چنانچہ فرمایا: (فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ ) (۲۔۲۵۶) تو جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور خدا پر ایمان لائے۔اَکْفَرَہٗ اِکْفَارَا کے معنی کسی پر کفر کا فتوی لگانے کے ہیں اور کبھی کفر کے معنی کسی سے بیزار ہونا بھی آجاتے ہیں۔چنانچہ فرمایا: (ثُمَّ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یَکۡفُرُ بَعۡضُکُمۡ بِبَعۡضٍ) (۲۹۔۲۵) پھر قیامت کے دن ایک دوسرے کی دوستی سے انکار کردوگے۔ (اِنِّیۡ کَفَرۡتُ بِمَاۤ اَشۡرَکۡتُمُوۡنِ مِنۡ قَبۡلُ) (۱۴۔۲۲) میں تو اس بات سے انکار کرتا ہوں کہ تم پہلے مجھے شریک بناتے تھے اور آیت کریمہ: (کَمَثَلِ غَیۡثٍ اَعۡجَبَ الۡکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ) (۵۷۔۲۰) اس کی مثال ایسی ہے جیسے بارش کہ اس سے کھیتی (اگتی اور) کسانوں کو بھی بھلی لگتی ہے۔میں بعض نے کہا ہے کہ کفار سے کسان مراد ہیں کیونکہ وہ بیج کو مٹی میں چھپادیتے ہیں جیسا کہ کافر اﷲ تعالیٰ کے حق کو چھپاتا ہے چنانچہ آیت: (یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ) (۴۸۔۲۹) اور لگی کھیتی والوں کو خوش کرنے تاکہ کافروں کا جی جلائے۔بھی اس معنی پر دلالت کرتی ہے کیونکہ بارش کی روئیدگی سے خوش ہونا کافر کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ ہر کاشتکار کو اس سے خوشی حاصل ہوتی ہے خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر بعض نے کہا ہے کہ یہاں بھی کفار سے کافر ہی مراد ہیں اور ان کی تخصیص اس لئے کہ ہے کہ وہ دنیا اور اس کے سازوسامان پر خوش اور اس کی طرف مائل رہتے ہیں۔اَلْکَفَّارَۃُ:جو چیز گناہ دور کردے اور اسے ڈھانپ لے اسے کفارۃ کہا جاتا ہے اسی سے کَفَّارَۃُ الْیَمِیْنِ ہے چنانچہ اسکا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: (ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیۡمَانِکُمۡ اِذَا حَلَفۡتُمۡ) (۵۔۸۹) یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسمیں کھالو۔ (فَکَفَّارَتُہٗۤ اِطۡعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیۡنَ ) (۵۔۸۹) تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا کھلانا ہے۔اسی طرح دوسرے گناہ جیسے قتل،ظہار وغیرہ کے تاوان پر بھی کفارہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اَلتَّکْفِیْرُ:اس کے معنی بھی گناہ کو چھپانے اور اسے اس طرح مٹادینے کے ہیں جیسے اس کا ارتکاب ہی نہیں کیا اور ہوسکتا ہے کہ یہ اصل میں ازالہ کفر یا کفران سے ہو جیسے تمریض کے معنی ازالہ مرض کے آتے ہیں اور تَقْذِیَۃٌ کے معنی ازالہ قذی یعنی تنکا دور کرنے کے۔چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (وَ لَوۡ اَنَّ اَہۡلَ الۡکِتٰبِ اٰمَنُوۡا وَ اتَّقَوۡا لَکَفَّرۡنَا عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ ) (۵۔۶۵) اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو ہم ان سے ان کے گناہ محو کردیتے۔ (نُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ ) (۴۔۳۱) تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کردیں گے۔چنانچہ آیت کریمہ: (اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ) (۱۱۔۱۱۴) کچھ شک نہیں کہ نیکیاں گناہوں کو دور کردیتی ہیں میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے مگر بعض نے کہا ہے کہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں بڑے گناہوں کا کفارہ نہیں بن سکتیں۔ (لَاُکَفِّرَنَّ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ ) (۳۔۱۹۵) میں ان کے گناہ دور کردوں گا۔ (لِیُکَفِّرَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ اَسۡوَاَ الَّذِیۡ عَمِلُوۡا) (۳۹۔۳۵) تاکہ خدا ان سے برائیوں کو جو انہوں نے کیں،دور کردے۔محاورہ ہے۔ (کَفَرتِ الشَّمْسُ النُّجُوْمَ:سورج نے ستاروں کو چھپا دیا اور اس بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے جو سورج کو چھپالیتا ہے۔تَکَفَّرَ فِی السَّلَاح:اس نے ہتھیار پہن لیے۔ اَلْکَافُوْرُ:اصل میں پھلوں کے غلاف کو کہتے ہیں جو ان کو اپنے اندر چھپائے رکھتا ہے۔شاعر نے کہا ہے (3) (الرجز) (۳۷۵) (کَاالْکَرْمِ اِذْنَادیٰ مِنَ الْکَافُوْرِ۔جیسے انگور شگوفہ کے غلاف سے ظاہر ہوتے ہیں۔لیکن کافورایک مشہور خوشبو …… ۔کا بھی نام ہے۔چنانچہ فرمایا: (کَانَ مِزَاجُہَا کَافُوۡرًا ) (۷۶۔۵) جس میں کافور کی آمیزش ہوگی۔
Words | Surah_No | Verse_No |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة البقرة(2) | 250 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة البقرة(2) | 264 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة البقرة(2) | 286 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة آل عمران(3) | 28 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة آل عمران(3) | 32 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة آل عمران(3) | 141 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة آل عمران(3) | 147 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة النساء(4) | 101 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة النساء(4) | 139 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة النساء(4) | 144 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة المائدة(5) | 54 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة المائدة(5) | 67 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة المائدة(5) | 68 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة الأعراف(7) | 50 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة الأعراف(7) | 101 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة الأنفال(8) | 7 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة الأنفال(8) | 18 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة التوبة(9) | 2 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة التوبة(9) | 26 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة التوبة(9) | 37 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة يونس(10) | 86 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة هود(11) | 42 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة الرعد(13) | 14 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة الرعد(13) | 35 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة النحل(16) | 27 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة النحل(16) | 107 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة مريم(19) | 83 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة الفرقان(25) | 26 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة الفرقان(25) | 52 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة الشعراء(26) | 19 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة الروم(30) | 45 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة الأحزاب(33) | 1 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة الأحزاب(33) | 48 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة الأحزاب(33) | 64 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة فاطر(35) | 39 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة فاطر(35) | 39 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة يس(36) | 70 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة ص(38) | 74 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة الزمر(39) | 59 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة الزمر(39) | 71 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة مومن(40) | 25 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة مومن(40) | 50 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة مومن(40) | 74 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة محمد(47) | 11 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة الملك(67) | 28 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة الحاقة(69) | 50 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة نوح(71) | 26 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة المدثر(74) | 10 |
الْكٰفِرِيْنَ | سورة الطارق(86) | 17 |
اَكَفَرْتَ | سورة الكهف(18) | 37 |