لَا۔یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے جیسے: (زَیْدٌ لَاعَالِمٌ) :یعنی زید جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفیہ کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلاً اگر کوئی ہَلْ خَرَجْتَ کہے تو اس کے جواب میں صرف ’’لَاٗٗکہ دینا کافی ہے یعنی لَاخَرَجْتُ اور اگر فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نادر اور وہ بھی اس وقت (۱) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاصل آجائے جیسے (لَا رَجُلًا ضَرَبْتُ وَلَا اِمْرَائَ ۃً) (۲) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے: (لاَ خَرَجْتُ وَلَا ضَرَبْتُ اور یا (۳) لا مکرر ہو جیسے: فَلاَ صَدَّقَ وَلاَ صَلّٰی (۷۵۔۳۱) اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی اور یا (۴) جملہ دعائیہ میں جیسے لَاکَانَ (خدا کرے ایسا نہ ہو) (لَااَفْلَحَ (وہ کامیاب نہ ہو) وغیرہ۔اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا: (لَا یَعۡزُبُ عَنۡہُ مِثۡقَالُ ذَرَّۃٍ ) ۳۴۔۳) ذرہ بھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں۔اور کبھی ’’لاٗٗکلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام مخدوف کی نفی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا: (وَ مَا یَعۡزُبُ عَنۡ رَّبِّکَ مِنۡ مِّثۡقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ) (۱۰۔۶۱) اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں …… اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے۔ (لَاۤ اُقۡسِمُ بِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ) (۷۵۔۱) ہم کو روز قیامت کی قسم۔ (فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِرَبِّ الۡمَشٰرِقِ ) (۷۰۔۴۰) میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں۔ (فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ) (۴۔۶۵) تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے۔ (فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوۡمِ) (۵۶۔۷۵) ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم (1) اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے (2) (المتقارب) (۳۸۸) (لَاوَاَبِیْکَ اِبْنَۃَ الْعَامِرِیِّ) نہیں تیرے باپ کی قسم!اے عامری کی بیٹی۔اور مروی ہے (3) (۱۰۵) ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا: (لَانَقْضِیْہ مَاتَجَانَفْنَا الْاِثْمَ فِیْہِ اس میں بھی لاکلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطیہ پر جب لوگوں نے کہا ہے کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب لیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لَا فرمایا یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں اس کے بعد نَقْضِیْہِ سے ازسرنو جملہ شروع کیا ہے۔اور کبھی یہ لانہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا: (لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ ) (۴۹۔۱۱) کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے۔ (وَلاَتَنَابَزُوابِالْاَلْقَابِ (اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو اور آیت: (یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ لَا یَفۡتِنَنَّکُمُ الشَّیۡطٰنُ ) (۷۔۴۷) اے بنی آدم! دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکانہ دے اور نیز (لَا یَحۡطِمَنَّکُمۡ سُلَیۡمٰنُ وَ جُنُوۡدُہٗ ) (۲۷۔۱۸) ایسا نہ ہو کہ سلیمان علیہ السلام اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں۔میں بھی لانہی کے لئے ہے اور آیت کریمہ: ( وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ لَا تَعۡبُدُوۡنَ اِلَّا اللّٰہَہ) (۲۔۸۳) اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا۔کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لَانافیہ بمعنی خبر ہے یعنی وہ اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گیے اسی طرح آیت کریمہ: (وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَکُمۡ لَا تَسۡفِکُوۡنَ دِمَآءَکُمۡ ) (۲۔۸۴) اور جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ تم آپس میں کشت و خون نہیں کروگے۔میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ: (وَ مَا لَکُمۡ لَا تُقَاتِلُوۡنَ ) (۴۔۷۵) تمہیںکیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے۔میں ہوسکتا ہے کہ لَاتُقَاتِلُوْنَ موضع حال میں ہو اور معنی یہ ہو: (مَالَکُمْ غَیْرَ مُقَاتِلِیْنَ یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ تم لڑنے والے نہیں ہو۔اور لا کے بعد اگر اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی برفتحہ ہوتا ہے اور لانفی کے معنی دیتا ہے۔جیسے فرمایا: (فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوۡقَ ) (۲۔۱۹۷) نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے۔اور کبھی متضاد معنوں کے درمیان لامکرر آجاتا ہے اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے: (لَازَیْدٌ بِمُقِیْمٍ وَّلاَ ظَاعِنٍ نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعنی کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی دو متضاد معنون کی نفی سے ایک درمیانی حالت کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے (لَیْسَ اَبْیَضَ وَلاَ اَسْوَدَ سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چنانچہ آیت کریمہ: (لَّا شَرۡقِیَّۃٍ وَّ لَا غَرۡبِیَّۃٍ ) (۲۴۔۳۵) یعنی زیتون کی نہ مشرق کی صرف منسوب ہے اور نہ مغرب کی طرف۔کے بعض نے یہ معنی کیئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے۔کبھی لامحض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفیہ کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلاً لَااِنْسَانَ کہہ کر صرف انسانیت کی نفیہ کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لَاحِدٌّ بھی اس معنی پر محمول ہے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
لَا | سورة النساء(4) | 144 |
لَا | سورة النساء(4) | 148 |
لَا | سورة النساء(4) | 154 |
لَا | سورة النساء(4) | 171 |
لَا | سورة المائدة(5) | 2 |
لَا | سورة المائدة(5) | 41 |
لَا | سورة المائدة(5) | 51 |
لَا | سورة المائدة(5) | 51 |
لَا | سورة المائدة(5) | 57 |
لَا | سورة المائدة(5) | 64 |
لَا | سورة المائدة(5) | 67 |
لَا | سورة المائدة(5) | 70 |
لَا | سورة المائدة(5) | 76 |
لَا | سورة المائدة(5) | 77 |
لَا | سورة المائدة(5) | 79 |
لَا | سورة المائدة(5) | 82 |
لَا | سورة المائدة(5) | 84 |
لَا | سورة المائدة(5) | 87 |
لَا | سورة المائدة(5) | 87 |
لَا | سورة المائدة(5) | 89 |
لَا | سورة المائدة(5) | 95 |
لَا | سورة المائدة(5) | 101 |
لَا | سورة المائدة(5) | 103 |
لَا | سورة المائدة(5) | 104 |
لَا | سورة المائدة(5) | 105 |
لَا | سورة المائدة(5) | 106 |
لَا | سورة المائدة(5) | 108 |
لَا | سورة المائدة(5) | 109 |
لَا | سورة الأنعام(6) | 8 |
لَا | سورة الأنعام(6) | 12 |
لَا | سورة الأنعام(6) | 12 |
لَا | سورة الأنعام(6) | 20 |
لَا | سورة الأنعام(6) | 21 |
لَا | سورة الأنعام(6) | 33 |
لَا | سورة الأنعام(6) | 37 |
لَا | سورة الأنعام(6) | 59 |
لَا | سورة الأنعام(6) | 61 |
لَا | سورة الأنعام(6) | 71 |
لَا | سورة الأنعام(6) | 103 |
لَا | سورة الأنعام(6) | 109 |
لَا | سورة الأنعام(6) | 113 |
لَا | سورة الأنعام(6) | 115 |
لَا | سورة الأنعام(6) | 125 |
لَا | سورة الأنعام(6) | 135 |
لَا | سورة الأنعام(6) | 141 |
لَا | سورة الأنعام(6) | 144 |
لَا | سورة الأنعام(6) | 150 |
لَا | سورة الأنعام(6) | 152 |
لَا | سورة الأنعام(6) | 158 |
لَا | سورة الأنعام(6) | 160 |