Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلْھِدَایَۃُ کے معنی لطف و کرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں اور اسی سے ھَدِیَّۃٌ (فعلۃ) ہے جس کے معنی اس تحفہ کے ہیں۔ جو بغیر معاوصہ کے دیا جائے۔ اور ھَوَادِی الْوَحْشِ جنگلی جانوروں کے پیش رو دستے کو کہتے ہیں جو لگے کا رہنما ہوتا ہے۔ عرف میں دلالت اور رہنمائی کے لیے ھَدَیْتُ (افعال) استعمال ہوتا ہے۔ جیسے اَھْدَیْتُ الْھَدِیَّۃَ: میں نے ہدیہ بھیجا اور اَھْدَیْتُ اِلیَ الْبَیْتِ: میں نے بیت اﷲ کی طرف ہدی بھیجی۔ یہاں پر شبہ ہوسکتا ہے۔ کہ اگر ھَدَایَہ کے معنی لطف و کرم کے ساتھ رہنمائی کرنے کے ہیں تو پھر کفار کو دوزخ کی طرف دھکیلنے کے لیے یہ لفظ کیوں استعمال ہوا ہے جیساکہ ارشاد ہے: (فَاہۡدُوۡہُمۡ اِلٰی صِرَاطِ الۡجَحِیۡمِ ) (۳۷:۲۳) پھر ان کو جہنم کے راستے پر چلادو۔ (وَ یَہۡدِیۡہِ اِلٰی عَذَابِ السَّعِیۡرِ) (۲۲:۴) اور دوزح کے عذاب کا رستہ دکھائے گا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک ہدایت کے اصل معنی تو لطف و کرم کے ساتھ رہنمائی کے ہیں۔ لیکن یہاں کفار کے متعلق مبالغہ کے لیے بطور تہکم یہ لفط استعمال ہوا ہے۔ جیساکہ آیت: (فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ) (۸۴:۲۴) تو (اے پیغمبر! انہیں عذاب الیم کی خوشخبری سنا دو۔) میں عذاب کے متعلق لفط بشارت استعمال کیا ہے اور اشعر نے اپنے کلام (1) (۲۵۲) تَحِیَّۃٌ بَیْنَھُمْ ضَرَبٌ وَجِیْعٌ ان کا باہمی تحیہ تلوار کی دردناک ضرب ہے۔ میں ضرب وجیع کے متعلق تحیّہ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ انسان کو اﷲ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کی ہے۔ (۱) وہ ہدایت ہے جو عقل و فطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے سے کی ہے اور اسی معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمیع مکلفین کو شامل ہے بلکہ ہر جاندار چیز کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: (رَبُّنَا الَّذِیۡۤ اَعۡطٰی کُلَّ شَیۡءٍ خَلۡقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی) (۲۰:۵۰) ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کو اس کی (خاص طرح کی) بناوٹ عطا فرمائی پھر (ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی) راہ دکھائی۔ (۲) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اﷲ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کترابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ نجات کی طرف دعوت دی ہے چنانچہ آیت: (وَ جَعَلۡنَا مِنۡہُمۡ اَئِمَّۃً یَّہۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا لَمَّا صَبَرُوۡا) (۳۲:۲۴) اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے (دین کے) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے (لوگوں کو) ہدایت کرتے تھے، میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں۔ (۳) سوم ہدایت بمعنی توفیق خاص آیا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے۔ چنانچہ فرمایا: (وَ الَّذِیۡنَ اہۡتَدَوۡا زَادَہُمۡ ہُدًی) (۴۷:۱۷) جو لوگ روبراہ ہیں (قرآن کے سننے سے) خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے۔ (وَ مَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ یَہۡدِ قَلۡبَہٗ) (۶۴:۱۱) اور جو شخص خدا پر ایمان لاتا ہے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔ (اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَہۡدِیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ بِاِیۡمَانِہِمۡ) (۱۰:۹) جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل (بھی) کیے ان کے ایمان کی برکت سے ان کو ان کا پروردگار (نجات کا) رستہ دکھائے گا۔ (وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا) (۲۹:۶۹) اور جن لوگوں نے ہمارے دین (کے کام) میں کوشش کی۔ ہم (بھی) ان کو ضرور اپنے رستے دکھائیں گے۔ (وَ یَزِیۡدُ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اہۡتَدَوۡا ہُدًی) (۱۹:۷۶) اور جو لوگ راہ راست پر ہیں اﷲ ان کو (روزبروز) زیادہ ہدایت دیتا چلا جاتا ہے۔ (فَہَدَی اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا) (۲:۲۱۳) تو خدا نے (اپنی عنایت سے) مسلمانوں کو راہ دکھا دی۔ (یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ) (۲:۱۴۲) جس کو چاہتا ہے (دین کا) سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔ (۴) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمایا: (سَیَہۡدِیۡہِمۡ وَ یُصۡلِحُ بَالَہُمۡ ) (۴۷:۵) (بلکہ) وہ انہیں (منزل) مقصود تک پہنچا دے گا۔ اور آیت (وَ نَزَعۡنَا مَا فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ) میں فرمایا: (الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ ہَدٰىنَا لِہٰذَا ۟ وَ مَا کُنَّا لِنَہۡتَدِیَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ ہَدٰىنَا اللّٰہُ) (۷:۴۳) خدا کا شکر ہے جس نے ہم کو یہاں کا رستہ دکھایا اور اگر خدا ہم کو رستہ نہ دکھاتا تو ہم رستہ نہ پاسکتے۔ ہدایت کے یہ چاروں اقسام تربیتی درجات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یعنی جسے پہلے درجہ کی ہدایت حاصل نہ ہو۔ وہ دوسرے درجہ ہدایت پر فائز نہیں ہوسکتا۔ بلکہ وہ تو شرعا مکلّف ہی نہیں رہتا۔ علی ہٰذا القیاس جسے دوسرے درجہ کی ہدایت حاصل نہ ہو وہ تیسرے اور چوتھے درہ کی ہدایت سے بہرہ یاب نہیں ہوسکتا اور جسے چوتھے درجہ کی ہدایت حاصل ہو تو اسے پہلے تینوں درجات لازماً حاصل ہوں گے۔ اسی طرح تیسرے درجہ کی ہدایت کا حصول پہلے دو درجوں کی ہدایت کو مستلزم ہے اور اس کے برعکس درجہ والٰی کا حصول درجہ ثانیہ کو اور ثانیہ کا حصول ثالثہ کو مستلزم نہیں ہے۔ ایک انسان کسی دوسرے کو صرف دعوت الی الخیر اور رہنمائی کے ذریعہ ہی ہدایت کرسکتا ہے باقی اقسام ہدایت اﷲ تعالیٰ کے قبصہ قدرت میں ہیں۔ لہٰذا جن آیات میں ہدایت کی نسبت پیغمبر یا کتاب یا دوسرے انسانوں کی طرف کی گئی ہے وہاں صرف راہ حق کی طرف رہنمائی کرنا مراد ہے۔ چنانچہ فرمایا: (وَ اِنَّکَ لَتَہۡدِیۡۤ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ) (۴۲:۵۲) اور بے شک (محمد ﷺ) سیدھا رستہ دکھاتے ہیں۔ (یَّہۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا) (۳۲:۲۴) جو ہمارے حکم سے ہدایت کیا کرتے تھے۔ (وَلِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ) (۱۳:۷) اور ہر ایک قوم کے لیے رہنما ہوا کرتے ہیں۔ اور جن آیات میں پیغمبروں یا دوسرے لوگوں سے ہدایت کی نفی کی گئی ہے وہاں باقی اقسام ہدایت مراد ہیں۔ چناچنہ فرمایا: (اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ ) (۲۸:۵۶) (اے محمد ﷺ) تم جس کو دوست رکھتے ہو اسے ہدایت نہیں کرسکتے ۔ اور قرآن پاک میں جہاں کہیں ظالموں اور کافروں کو ہدایت سے روک دینے کا ذکر آیا ہے۔ وہاں یا تو ہدایت بمعنی ثالث ہے یعنی وہ توفیق خاص جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا ہوتی ہے ان سے سلب کرلی جاتی ہے اور یا ہدایت بمعنی رابع ہے کہ اﷲ انہیں آخرت میں ثواب کی طرف ہدایت نہیں دے گا اور نہ ہی انہیں جنت میں داخل کرے گا۔ چنانچہ آیت یَھْدِیْ اﷲِ قَوْمًا: کے آخر میں فرمایا۔ (وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ) (۹:۱۹) اور خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ (ذٰلِکَ بِاَنَّہُمُ اسۡتَحَبُّوا الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا عَلَی الۡاٰخِرَۃِ ۙ وَ اَنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ) (۱۶:۱۰۷) یہ اس لیے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلہ میں عزیز رکھا اور اس لیے کہ خدا کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ جہاں کہیں اﷲ تعالیٰ نے پیغمبر یا کسی انسان کے متعلق یہ کہا ہے کہ وہ کسی کو ہدایت دینے پر قدرت نہیں رکھتے بلکہ ہدایت اﷲ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ تو وہاں دعوت الی الحق اور صحیح رہنمائی کے علاوہ باقی اقسام ہدایت مراد ہیں یعنی کسی کو عقل اور توفیق بخشنا یا جنت میں داخل کرنا اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کی قدرت میں نہیں ہے۔ چنانچہ فرمایا: (لَیۡسَ عَلَیۡکَ ہُدٰىہُمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ) (۲:۲۷۲) (اے محمد ﷺ) تم ان لوگوں کو ہدایت کے ذمہ دار نہیں ہو۔ بلکہ خدا ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے۔ (وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَجَمَعَہُمۡ عَلَی الۡہُدٰی) (۶:۳۵) اور اگر خدا چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع کردیتا۔ (وَ مَاۤ اَنۡتَ بِہٰدِی الۡعُمۡیِ عَنۡ ضَلٰلَتِہِمۡ ) (۲۷:۸۱) اور نہ اندھوں کو گمراہی سے (نکال کر) رستہ دکھا سکتے ہو۔ (اِنۡ تَحۡرِصۡ عَلٰی ہُدٰىہُمۡ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِیۡ مَنۡ یُّضِلُّ) (۱۶:۳۷) اگر تم ان (کفار) کی ہدایت کے لیے للچاؤ تو جس کو خدا گمراہ کردیتا ہے اس کو وہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔ (وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ ہَادٍ ) (۳۹:۳۶) اور جس کو خدا گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ (وَ مَنۡ یَّہۡدِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ مُّضِلٍّ) (۳۹:۳۷) اور جس کو خدا ہدایت دے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں۔ (اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ) (۲۸:۵۶) (اے محمد ﷺ) تم جس کو دوست رکھتے ہو اس کو ہدایت نہیں کرسکتے۔ بلکہ خدا ہی جس کو چاہتا ہے۔ ہدایت کرتا ہے۔ اور اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: (اَفَاَنۡتَ تُکۡرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ) (۱۰:۹۹) تو کیا تم لوگوں پر زبردستی کرتا چاہتے ہو کہ وہ مومن ہوجائیں۔ اور آیت: (مَنۡ یَّہۡدِ اللّٰہُ فَہُوَ الۡمُہۡتَدِ) (۱۸:۱۷) جس کو خدا ہدایت دے وہ ہدایت یاب ہے۔ کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص ہدایت کا طلبگار اور متلاشی ہو اسی کو اﷲ تعالیٰ ہدایت یاب ہونے کی توفیق بخشتا۔ اور راہ جنت کی طرف رہنمائی کرتا ہے اس کے برعکس جو شخص کفر و ضلالت کا خواہاں رہتا ہے وہ توفیق الٰہی سے محروم ہوجاتا ہے۔ چنانچہ فرمایا: (وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ) (۲:۲۶۴) اور خدا ایسے ناشکروں کو ہدایت نہیں کرتا۔ اور دوسری آیت میں کَجُشرِیْنَ کی جگہ ظُلِمِیْنَ ہے۔ اور آیت: (اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِیۡ مَنۡ ہُوَ کٰذِبٌ کَفَّارٌ) (۳۹:۳) بے شک خدا اس شخص کو جو جھوٹا ناشکرا ہے۔ ہدایت نہیں دیتا۔ میں کَاذِبٌ کَفَّارٌ سے مراد وہ شخص ہے جو ہدایت الٰہی کے قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے اور یہ اگرچہ اس کے وضعی معنی نہیں ہیں لیکن حاصل مطلب یہی ہے۔ لہٰذا آیت کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص اﷲ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت قبول نہیں کرتا اسے اﷲ تعالؑج بھی ہدایت نہیں بخشتا۔ جیسے محاورہ ہے: مَنْ لَمْ یَقْبَلْ ھَدِیَّتِیْ لَمْ اُھْدِلَہٗ وَمَنْ لَّمْ یَقْبَلْ عَطِیَّتِیْ لَمْ اُعْطِہٖ … یعنی جو شخص میرے ہدیہ یا عطیہ کو قبول نہیں کرے گا میں بھی اسے ہدیہ نہں دوں گا۔ یا آپ کہیں: مَنْ رَغِبَ عَنِّیْ لَمْ اَرْغَبْ فِیْہِ کہ جو شخص مجھ سے اعراض کرتا ہے مجھے بھی اس کی ضرورت نہیں پس آیت: (وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ) (۲:۲۵۸) اور خڈا بے انصافوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ اور دوسری آیت میں اَلْفَاسِقِیْنَ بھی اسی معنی پر محمول ہے۔ اور آیت: (اَفَمَنۡ یَّہۡدِیۡۤ اِلَی الۡحَقِّ اَحَقُّ اَنۡ یُّتَّبَعَ اَمَّنۡ لَّا یَہِدِّیۡۤ) (۱۰:۳۵) بھلا جو حق کا رستہ دکھائے وہ اس قابل ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ یا وہ کہ جب تک کوئی اسے رستہ نہ بتائے رستہ نہ پائے۔ میں ایک قرأت لَایَھْدِیْ اِلَّا اَنْ یُّھْدٰی ہے۔ یعنی وہ دوسرے کی رہنمائی نہیں کرسکتا بلکہ وہ خود رہنمائی کا محتاج ہے مطلب یہ ہے کہ ان میںع لمو معرفت حاصل کرنے اور ہدایت پانے کی صلاحیت ہی نہیں ہے اور اگر انہیں کوئی شخص ہدایت دے بھی تو بیکار ہے۔ کیونکہ وہ بت (پتھر وغیرہ کی) بے جان مورتیاں ہیں پس اَلَّا اَنْ یُّھْدٰی سے بظاہر اگرچہ یہ معلوم ہوتا ہے۔ کہ ہدایت دینے سے وہ ہدایت پاسکتے ہیں۔ لیکن یہ مجاز پر محمول ہے۔ جیساکہ محض صوری مشابہت کی وجہ سے ان بتوں کو آیت: (اِنَّ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ عِبَادٌ اَمۡثَالُکُمۡ) (۷:۱۹۴) (مشرکو!) جن کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو، تمہاری طرح کے بندے ہی ہیں۔ میں عِبَادٌ اَمْنَالُکُمْ کہہ دیا ہے حالانکہ وہ بے جان مجسمے ہیں۔ جیساکہ دوسری جگہ ان کے متعلق فرمایا: (وَ یَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَمۡلِکُ لَہُمۡ رِزۡقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ شَیۡئًا وَّ لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ) (۱۶:۷۳) اور خدا کے سوا ان کو پوجتے ہیں جو ان کو آسمانوں اور زمینوں میں روزی دینے کا ذرہ بھر بھی اختیار نہیں رکھتے اور نہ (کسی اور طرح کا) مقدور رکھتے ہیں۔ اور آیات کریمہ: (اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ ) (۷۶:۳) اور اسے رستہ بھی دکھادیا۔ (وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ) (۹۰:۱۰) اور اس کو (خیر، شر کے) دونوں رستے بھی دکھا دئیے۔ (وَ ہَدَیۡنٰہُمَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ) (۳۷:۱۱۸) اور ان کو سیدھا رستہ دکھایا۔ میں خیر و شر اور ثواب و عقاب کا رستہ مراد ہے۔ جس کی طرف اﷲ تعالیٰ نے عقل و شریعت کے ذریعہ انسان کو ہدایت فرمائی اور یہی معنی آیت: (فَرِیۡقًا ہَدٰی وَ فَرِیۡقًا حَقَّ عَلَیۡہِمُ الضَّلٰلَۃُ) (۷:۳۰) ایک فریق کو تو اس نے ہدایت دی اور ایک فریق پر گمراہی ثابت ہوچکی۔ میں مراد ہیں اور آیت : (وَ مَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ یَہۡدِ قَلۡبَہٗ) (۶۴:۱۱) اور جو شخص خدا پر ایمان لاتا ہے۔ وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔ میں ہدایت سے توفیق الٰہی مراد ہے جوکہ مومن کے دل میں القاء کی جاتی ہے اور وہ اپنے مشاغل میں اس سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ جیساکہ دوسری جگہ فرمایا: (وَ الَّذِیۡنَ اہۡتَدَوۡا زَادَہُمۡ ہُدًی) (۴۷:۱۷) اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں ان کو وہ ہدایت مزید بخشتا ہے۔ لفظ ہدایت کبھی متعدی بنفسہٖ ہوتا ہے اور کبھی بواسطہ لام یا الٰی کے متعدی ہوتا ہے، چنانچہ تعدیہ بواسطہ الٰی کے متعلق فرمایا: (فَقَدۡ ہُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ) (۳:۱۰۱) اور جس نے خدا (کی ہدایت کی رسی) کو مضبوط پکڑ لیا وہ سیدھے رستے لگ گیا۔ (وَ اجۡتَبَیۡنٰہُمۡ وَ ہَدَیۡنٰہُمۡ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ) (۶:۸۷) اور ان کو برگزیدہ بھی کیا تھا اور سیدھا رستہ بھی دکھایا تھا۔ اور نیز فرمایا: (اَفَمَنۡ یَّہۡدِیۡۤ اِلَی الۡحَقِّ اَحَقُّ اَنۡ یُّتَّبَعَ ) (۱۰:۳۵) بھلا جو شخص حق کا رستہ دکھائے وہ اس قابل ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ (فَقُلۡ ہَلۡ لَّکَ اِلٰۤی اَنۡ تَزَکّٰی وَ اَہۡدِیَکَ اِلٰی رَبِّکَ فَتَخۡشٰی) (۷۹:۱۸،۱۹) کیا تو چاہتا ہے کہ پاک ہوجائے اور میں تمہیں تمہارے پروردگار کا رستہ بتاؤں تاکہ تجھ میں خوف پیدا ہو۔ اور تعدیہ بنفسہٖ کے متعلق فرمایا: (وَّ لَہَدَیۡنٰہُمۡ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا) (۴:۶۸) اور سیدھا رستہ بھی دکھاتے۔ (وَ ہَدَیۡنٰہُمَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ) (۳۷:۱۱۸) اور ہم نے انہیں سیدھا رستہ دکھایا۔ (اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ) (۱:۵) ہم کو سیدھے رستے پر چلا۔ (اَتُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَہۡدُوۡا مَنۡ اَضَلَّ اللّٰہُ) (۴:۸۸) کیا تم چاہتے ہو کہ جس شخص کو خدا نے گمراہ کردیا اس کو رستے پر لے آؤ۔ (وَ لَا لِیَہۡدِیَہُمۡ طَرِیۡقًا) (۴:۱۶۸) اور نہ انہیں رستہ ہی دکھائے گا۔ (اَفَاَنۡتَ تَہۡدِی الۡعُمۡیَ ) (۱۰:۴۳) تو کیا تم اندھوں کو رستہ دکھاؤگے۔ (وَّ یَہۡدِیۡہِمۡ اِلَیۡہِ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا) (۴:۱۷۵) اور اپنی طرف (پہنچنے کا) سیدھا رستہ دکھائے گا۔ پھر ہدایت و تعلیم دو باتوں کے بغیر نتیجہ خیز نہیں ہوسکتی ایک یہ کہ معلم اپنی طرف سے کماحقہ سمجھانے کی کوشش کرے اور دوسرے یہ کہ متعلم استفادہ کرنے کی کوتاہی سے کام نہ لے اگر ہادی یا معلم اپنی طرف سے تعلیم میں پوری کوشش کرے لیکن متعلم میں قبولیت کی صلاحیت نہ ہو تو اس کے عدم قبول کے لحاظ سے آپ (مجازاً) یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے ہدایت نہیں کی اور ہادی کے اپنی کوشش صرف کرنے کے لحاظ سے یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ اس نے ہدایت اور تعلیم دی پس جب عدم قبولیت کی صورت میں (نفی اور اثبات کے ساتھ) دونوں طرح کہنا صحیح ہے تو کفار کے ہدایت الٰہی کو قبول نہ کرنے کے لحاظ سے یہ کہنا بھی بجا ہوگا کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں ہدایت نہیں دی کیونکہ ہدایت و تعلیم پر قبولیت کا ثمرہ مرتب نہیں ہوا اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں ہدایت دی۔ کیونکہ انہی مبداء ہدایت یعنی (عقل و حواس) عطا فرمائے۔ پس آیت: (وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ) (۹:۱۹) اور خدا ظالم یا ناشکروں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ میں نفی معنی اول (یعنی عدم قبولیت) پر محمول ہوگی اور آیت: (وَ اَمَّا ثَمُوۡدُ فَہَدَیۡنٰہُمۡ فَاسۡتَحَبُّوا الۡعَمٰی عَلَی الۡہُدٰی) (۴۱:۱۷) اور جو ثمود تھے ان کو ہم نے سیدھا رستہ دکھا دیا تھا۔ مگر انہوں نے ہدایت کے مقابلہ میں اندھا رہنا پسند کیا۔ میں اثبات ہدایت دوسرے معنی بَذْلُ السَّعْیِ یعنی کوشش کرنے کے لحاظ سے ہوگا۔ لیکن جہاں قبولیت حاصل نہ ہو وہاں یہ کہنا زیادہ اولی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اسے ہدایت کی لیکن اس نے ہدایت الٰہی کو قبول نہ کیا۔ جیساکہ آیت (واما ثمود الایۃ) میں ہے اور آیت: (لِّلّٰہِ الۡمَشۡرِقُ وَ الۡمَغۡرِبُ ؕ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ … اِلَّا عَلَی الَّذِیۡنَ ہَدَی اللّٰہُ ) (۲:۱۴۲) (تم کہہ دو) کہ مشرق اور مغرب سب خدا ہی کا ہے وہ جس کو چاہتا ہے۔ سیدھے رستے پر چلاتا ہے۔ الخ … اور یہ بات (یعنی تحویل قبلہ لوگوں کو) گراں معلوم ہوئی مگر جن کو خدا نے ہدایت بخشی۔ میں اِلَّا عَلَی الَّذِیْنَ ھَدَی اﷲُ وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے ہدایت الٰہی کو قبول کیا اور اس سے رہنمائی حاصل کی اور آیت: (اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ) (۱:۵) ہم کو سیدھے رستے پر چلا۔ اور آیت: (وَّ لَہَدَیۡنٰہُمۡ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا ) (۴:۶۸) اور سیدھا رستہ بھی دکھا دیا۔ میں بعض نے کہا ہے کہ ہدایت سے ہدایت عامہ یعنی قرآن پاک اور انبیاء کرام کے ذریعہ ہدایت کرنا مراد ہے۔ اور یہ اگرچہ ہمیں حاصل ہے۔ لیکن ہمیں حصول ثواب کے لیے ان کلمات کے زبان سے ادا کرنے کا حکم فرمایا گیا ہے۔ جس طرح کہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ الخ پڑھنے یعنی آپ ﷺ پر درود بھیجنے کے ہم مکلّف ہیں۔ اگرچہ اﷲ تعالٰی اور ملائکہ آپ پر رحمت بھیجتے اور آپ ﷺ کے لیے دعا اور استغفار کرتے ہیں۔ جیساکہ آیت: (اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ) (۳۳:۵۶) خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پروردگار پر درود بھیجتے ہیں۔ سے ثابت ہوتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ (اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ) (۱:۵) گمراہی اور شہوات نفسانیہ کے پنجہ میں گرفتار ہونے سے حفاظت کی دعا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اس میں توفیق الٰہی کی طلب کی طرف اشارہ ہے جس کا کہ آیت: (وَ الَّذِیۡنَ اہۡتَدَوۡا زَادَہُمۡ ہُدًی) (۴۷:۱۷) اور جو ہدایت یافتہ ہیں وہ ان کو مزید ہدایت بخشتا ہے۔ میں وعدہ فرمایا ہے۔ اور بعض نے آخرت میں ہدایت الی الجنۃ مراد لی ہے۔ اسی طرح آیت: (وَ اِنۡ کَانَتۡ لَکَبِیۡرَۃً اِلَّا عَلَی الَّذِیۡنَ ہَدَی اللّٰہُ ) (۲:۱۴۳) اور یہ بات (یعنی تحویل قبلہ لوگوں کو) گراں معلوم ہوئی مگر جن کو خدا نے ہدایت بخشی۔ میں بھی ہدایت سے۔ توفیق الٰہی مراد ہے۔ جس کا ذکر کہ آیت: (وَالَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ھُدیً) (میں پایا جاتا ہے۔ اَلْھُدٰی اور ھَدایۃً اگرچہ لغۃً ہم معنی ہیں۔ لیکن قرآن پاک نہ ھُدیً کا لفظ خاص کر ہدایت الٰہی کے لیے استعمال کیا ہے اور کسی انسان کی طرف اس کی نسبت نہیں کی، چنانچہ فرمایا: (ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ) (۲:۲) خدا سے ڈرنے والوں کی رہنما ہے۔ (اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ ) (۲:۵) یہی لوگ اپنے پروردگار (کی طرف) سے ہدایت پر ہیں۔ (ہُدًی لِّلنَّاسِ) (۲:۱۸۵) لوگوں کے لیے رہنما ہے۔ (فَاِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ مِّنِّیۡ ہُدًی فَمَنۡ تَبِعَ ہُدَایَ) (۲:۳۸) جب تمہارے پاس میری طرف سے ہداتی پہنچے (تو اس کی پیروی کرنا کہ) جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی۔ (قُلۡ اِنَّ ہُدَی اللّٰہِ ہُوَ الۡہُدٰی) (۲:۱۲۰) کہہ دو کہ خدا کی ہدایت (یعنی دین اسلام) ہی ہدایت ہے۔ (اِنۡ تَحۡرِصۡ عَلٰی ہُدٰىہُمۡ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِیۡ مَنۡ یُّضِلُّ) (۱۶:۳۷) اگر تم ان (کفار) کی ہدایت کے لیے للچاؤ تو جس کو خدا گمراہ کردیتا ہے۔ اس کو وہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔ (اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اشۡتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالۡہُدٰی) (۲:۱۶) یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت چھوڑ کر گمراہی خریدی۔ اَلْاِھْتِدَائُ: (ہدایت پانا) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو امور دنیوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ النُّجُوۡمَ لِتَہۡتَدُوۡا بِہَا) (۶:۹۷) اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے ستارے بنائے تاکہ (جنگلوں اور دریاؤں کے اندھیروں میں) ان سے رستہ معلوم کرو۔ (اِلَّا الۡمُسۡتَضۡعَفِیۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الۡوِلۡدَانِ لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ حِیۡلَۃً وَّ لَا یَہۡتَدُوۡنَ سَبِیۡلًا) (۴:۹۸) اور عورتیں اور بچے بے بس ہیں۔ کہ نہ تو کوئی چارہ کرسکتے ہیں اور نہ رستہ جانتے ہیں۔ لیکن کبھی اِھْتِدَائَ کے معنی طلبِ ہدایت بھی آتے ہیں، چنانچہ فرمایا: (وَ اِذۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ الۡفُرۡقَانَ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ) (۲:۵۳) اور جب ہم نے موسیٰ ؑ کو کتاب اور معجزے عنایت کیے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔ (فَلَا تَخۡشَوۡہُمۡ وَ اخۡشَوۡنِیۡ ٭ وَ لِاُتِمَّ نِعۡمَتِیۡ عَلَیۡکُمۡ وَ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ ) (۲:۱۵۰) سو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تم کو اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہ راست پر چلو۔ (فَاِنۡ اَسۡلَمُوۡا فَقَدِ اہۡتَدَوۡا) (۳:۲۰) اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بے شک ہدایت پالیں۔ (فَاِنۡ اٰمَنُوۡا بِمِثۡلِ مَاۤ اٰمَنۡتُمۡ بِہٖ فَقَدِ اہۡتَدَوۡا) (۲:۱۳۷) تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں۔ اَلْمُھْتَدِیْ: اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی عالم کی اقتداء کررہا ہو چنانچہ آیت: (اَوَ لَوۡ کَانَ اٰبَآؤُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ شَیۡئًا وَّ لَا یَہۡتَدُوۡنَ) (۵:۱۰۴) بھلا اگر ان کے باپ دادا نہ تو کچھ جانتے ہوں اور نہ کسی کی پیروی کرتے ہوں۔ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ وہ خود عالم تھے اور نہ ہی کسی عالم کی اقتداء کرتے تھے۔ اور آیت: (فَمَنِ اہۡتَدٰی فَاِنَّمَا یَہۡتَدِیۡ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیۡہَا) (۱۰:۱۰۸) تو جو کوئی ہداتی حاصل کرے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ میں اِھْتِدَائَ کا لفظ طلبِ ہدایت، اقتداء اور تحری ہدایت تینوں کو شامل ہے۔ اسی طرح آیت: (وَ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ اَعۡمَالَہُمۡ فَصَدَّہُمۡ عَنِ السَّبِیۡلِ فَہُمۡ لَا یَہۡتَدُوۡنَ ) (۲۷:۲۴) اور شیطان نے ان کے اعمال انہیں آراستہ کرکے دکھائے ہیں۔ اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے پس وہ رستے پر نہیں آتے۔ میں بھی لَایَھْتَدُوْنَ سے تینوں قسم کی ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور آیت: (وَ اِنِّیۡ لَغَفَّارٌ لِّمَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہۡتَدٰی) (۲۰:۸۲) اور جو توبہ کرلے اور ایمان لائے اور عمل نیک کرے۔ پھر سیدھے راستہ پر چلے اس کو میں بخش دینے والا ہوں۔ میں اِھْتَدٰی کے معنی لگاتار ہدایت طلب کرنے اور اس میں سستی نہ کرنے اور دوبارہ معصیت کی طرف رجوع نہ کرنے کے ہیں۔ اور آیت: (الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ) کے بعد فرمایا: (وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ) (۲:۱۵۷) اور یہی سیدھے راستے پر ہیں۔ میں مُھْتَدُوْنَ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت الٰہی کو قبول کیا اور اس کے حصول کے لیے کوشش کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا چنانچہ انہی لوگوں کے متعلق فرمایا: (یٰۤاَیُّہَ السّٰحِرُ ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِنۡدَکَ ۚ اِنَّنَا لَمُہۡتَدُوۡنَ ) (۴۳:۴۹) اے جادوگر! اس عہد کے مطابق جو تیرے پروردگار نے تجھ سے کررکھا ہے، اس سے دعا کر۔ بے شک ہم ہدایت یاب ہوں گے۔ اور ھَدْیٌ کا لفظ خاص کر اس جانور پر بولا جاتا ہے جو بیت اﷲ کی طرف (ذبح کے لیے) بھیجا جائے۔ اخفش نے اس کا واحد ھَدْیَۃٌ لکھا ہے نَر کی طرح مادہ جانور پر بھی ہدی کا لفظ بولا جاتا ہے کیونکہ یہ مصدر ہے۔ جو بطور صفت کے استعمال ہوتا ہے جو بطور صفت کے استعمال ہوتا ہے قرآن پاک میں ہے: (فَاِنۡ اُحۡصِرۡتُمۡ فَمَا اسۡتَیۡسَرَ مِنَ الۡہَدۡیِ) (۲۔۱۹۲) اور اگر (رستے میں) روک لیے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کردو) (ہَدۡیًۢا بٰلِغَ الۡکَعۡبَۃِ) (۵۔۹۵) قربانی کعبے پہنچائی جائے (وَ الۡہَدۡیَ وَ الۡقَلَآئِدَ) (۵۔۹۷) اور قربانی کو ان جانوروں کو جن کے گلے میں پٹے بندھے ہوں۔ (وَ الۡہَدۡیَ مَعۡکُوۡفًا) (۴۸۔۲۵) اور قربانیوں کو بھی کہ اپنی جگہ پہنچنے سے رکی رہیں۔ اَلْھَدِیَّۃُ: ان تحائف کو کہا جاتا ہے جو ہم ایک دوسرے کو پیش کرتے ہیں چنانچہ قرآن پاک میں ہے: ۔ (وَ اِنِّیۡ مُرۡسِلَۃٌ اِلَیۡہِمۡ بِہَدِیَّۃٍ) (۲۷۔۳۵) اور میں ان کی طرف کچھ تحفہ بھیجتی ہوں۔ (بَلۡ اَنۡتُمۡ بِہَدِیَّتِکُمۡ تَفۡرَحُوۡنَ ) (۲۷۔۳۶) بلکہ اپنے تحفے سے تم ہی خوش ہوتے ہوں گے۔ اَلْمِھْدَیٰ: طباق وغیرہ جس میں ہدیہ بھیجا جاتا ہے اور اس شخص کو جو بہت زیادہ تحائف پیش کرنے کا عادی ہو اسے مِھْدَائٌ کہا جاتا ہے۔شاعر نے کہا ہے (2) (الطویل) وَاِنَّکَ مِھْدَائُ الْخَنَانَطِفُ الْحَشَا بے شک تو فحش گو اور بدباطن ہے۔اَلْھَدِیُّ کے معنی قربانی کا جانور اور دلہن اور سیرت کے آتے ہیں چنانچہ اسی سے محاورہ ہے۔ھَدَیْتُ الْعَرُوْسَ اِلٰی زَوْجِھَا: دلہن کو شوہر کے پاس بھیجا۔مَااَحْسَنَ ہَدِیَّۃَ فُلَان وَھَدْیَہ‘: یعنی اس کی سیرت کتنی اچھی ہے۔فُلَانٌ یُھَادٰی بَیْنَ اثْنَیْنِ: فلاں دو آدمیوں پر سہارا لے کر ان کے درمیان چلتا ہے۔تَھَادَتِ الْمَرْئَ ۃُ: عورت کا قربانی کے جانور کی طرح لڑکھڑاکر چلنا۔

Words
Words Surah_No Verse_No
الْمُهْتَدُوْنَ سورة البقرة(2) 157
الْمُهْتَدِ سورة بنی اسراءیل(17) 97
الْمُهْتَدِ سورة الكهف(18) 17
الْمُهْتَدِيْ سورة الأعراف(7) 178
الْمُهْتَدِيْنَ سورة الأنعام(6) 56
الْمُهْتَدِيْنَ سورة التوبة(9) 18
الْهَدْيَ سورة المائدة(5) 2
الْهَدْيُ سورة البقرة(2) 196
الْهَدْيِ سورة البقرة(2) 196
الْهَدْيِ سورة البقرة(2) 196
الْهُدَى سورة الأنعام(6) 71
الْهُدَى سورة محمد(47) 25
الْهُدٰى سورة البقرة(2) 120
الْهُدٰى سورة البقرة(2) 185
الْهُدٰى سورة آل عمران(3) 73
الْهُدٰى سورة النساء(4) 115
الْهُدٰى سورة الأعراف(7) 193
الْهُدٰى سورة الأعراف(7) 198
الْهُدٰى سورة الكهف(18) 55
الْهُدٰى سورة الكهف(18) 57
الْهُدٰى سورة طه(20) 47
الْهُدٰى سورة القصص(28) 57
الْهُدٰى سورة سبأ(34) 32
الْهُدٰى سورة مومن(40) 53
الْهُدٰى سورة حم السجدہ(41) 17
الْهُدٰى سورة محمد(47) 32
الْهُدٰى سورة النجم(53) 23
الْهُدٰي سورة الأنعام(6) 35
الْهُدٰي سورة الأنعام(6) 71
الْهُدٰٓى سورة بنی اسراءیل(17) 94
الْهُدٰٓى سورة الجن(72) 13
الْهُدٰٓى سورة العلق(96) 11
اهْتَدَوْا سورة مريم(19) 76
اهْتَدَوْا سورة محمد(47) 17
اهْتَدَيْتُ سورة سبأ(34) 50
اهْتَدَيْتُمْ سورة المائدة(5) 105
اهْتَدٰى سورة يونس(10) 108
اهْتَدٰى سورة بنی اسراءیل(17) 15
اهْتَدٰى سورة طه(20) 82
اهْتَدٰى سورة طه(20) 135
اهْتَدٰى سورة النمل(27) 92
اهْتَدٰى سورة الزمر(39) 41
اهْتَدٰى سورة النجم(53) 30
اَتَهْتَدِيْٓ سورة النمل(27) 41
اَهْدِكَ سورة مريم(19) 43
اَهْدِكُمْ سورة مومن(40) 38
اَهْدِيْكُمْ سورة مومن(40) 29
اَهْدٰى سورة النساء(4) 51
اَهْدٰى سورة بنی اسراءیل(17) 84
اَهْدٰى سورة القصص(28) 49