Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلْفَتْنُ: (1) دراصل فَتَنَ کے معنی سونے کو آگ میں پگھلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا معلوم ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں آڈالنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (یَوۡمَ ہُمۡ عَلَی النَّارِ یُفۡتَنُوۡنَ ) (۵۱:۱۳) جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا۔ اور اس کا اطلاق نفس عذاب پر بھی ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا: (ذُوۡقُوۡا فِتۡنَتَکُمۡ) (۵۱:۱۴) اپنی شرارت کا مزہ چکھو۔ یعنی عذاب کا مزہ چکھو۔ جیسے آیت کریمہ: (کُلَّمَا نَضِجَتۡ جُلُوۡدُہُمۡ بَدَّلۡنٰہُمۡ جُلُوۡدًا غَیۡرَہَا لِیَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ) (۴:۵۶) جب ان کی کھالیں گل (اور جل) جائیں گی تو ہم اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ (ہمیشہ) عذاب کا مزہ) چکھتے رہیں۔ میں لِیَذُوْقُوا الْعَذَاب سے تعبیر فرمایا ہے اور آیت: (اَلنَّارُ یُعۡرَضُوۡنَ عَلَیۡہَا ) (۴۰:۴۶) یعنی آتش جہنم پر پیش کیے جاتے ہیں۔ میں اسی عذاب کو عرض علی النار کہا ہے۔ اور کبھی فتنہ کا لفظ اس چیز پر بھی بولا جاتا ہے جو عذاب کا باعب بنتی ہو جیسے فرمایا: (اَلَا فِی الۡفِتۡنَۃِ سَقَطُوۡا) (۹:۴۹) دیکھو! یہ آفت میں پڑگئے ہیں۔ اور کبھی اس کے معنی امتحان اور آزمائش کرنے کے آتے ہیں۔ جیسے فرمایا: (وَ فَتَنّٰکَ فُتُوۡنًا) (۲۰:۴۰) اور ہم نے تمہاری کئی بار آزمائش کی۔ اور بلاء کی طرح فتنہ کا لفظ بھی تکلیف اور آزمائش دونوں قسم کی حالت پر بولا جاتا ہے۔ جن میں انسان کو مبتلا کرکے اس کی آزمائش کی جاتی ہے (اور اس کے صبر و شکر کا امتحان کیا جاتا ہے۔) لیکن شدت کے معنی میں اس کا ستعمال زیادہ ظاہر اور اکثر ہے چنانچہ قرآن پاک نے دونوں قسم کے فتنہ کے متعلق فرمایا ہے۔ (وَ نَبۡلُوۡکُمۡ بِالشَّرِّ وَ الۡخَیۡرِ فِتۡنَۃً) (۲۱:۳۵) اور ہم تم لوگوں کو سختی اور آسودگی میں آزمائش کے طور پر مبتلا کرتے ہیں۔ اور تکلیف کے متعلق فرمایا: (اِنَّمَا نَحۡنُ فِتۡنَۃٌ ) (۲:۱۰۲) ہم تو ذریعہ آزمائش ہیں۔ (وَ الۡفِتۡنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الۡقَتۡلِ) (۲:۱۹۱) اور (دین سے گمراہ کرنے کا) فساد قتل و خون ریزی سے کہیں بڑھ کر ہے۔ (وَ قٰتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ ) (۲:۱۹۳) اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہو حتیٰ کہ فساد نابود ہوجائے۔ (وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ ائۡذَنۡ لِّیۡ وَ لَا تَفۡتِنِّیۡ ؕ اَلَا فِی الۡفِتۡنَۃِ سَقَطُوۡا) (۹:۴۹) اور ان میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ مجھے تو اجازت ہی دیجیے اور آفت میں نہ ڈالیے دیکھو یہ آفت میں پڑے ہیں۔ یعنی مجھے بلا اور تکلیف میں نہ ڈالیے حالانکہ وہ بات کہنے کی وجہ سے مصیبت اور عذاب میں گرفتار ہورہے ہیں۔ (فَمَاۤ اٰمَنَ لِمُوۡسٰۤی اِلَّا ذُرِّیَّۃٌ مِّنۡ قَوۡمِہٖ عَلٰی خَوۡفٍ مِّنۡ فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَا۠ئِہِمۡ اَنۡ یَّفۡتِنَہُمۡ ) (۱۰:۸۳) تو موسیٰ علیہ السلام پر کوئی ایمان نہ لایا مگر اس کی قوم میں سے چند لڑکے اور بھی فرعون اور اس کے اہل دربار سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں وہ ان کو آفت میں نہ پھنسادے۔ یعنی ایسا نہ ہوکہ انہیں مصیبت اور عذاب میں ڈال دے۔ (وَ احۡذَرۡہُمۡ اَنۡ یَّفۡتِنُوۡکَ ) (۵:۴۹) اور ان سے بچتے رہنا کہ … یہ کہیں تم کو بہکا نہ دیں۔ (وَ اِنۡ کَادُوۡا لَیَفۡتِنُوۡنَکَ ) (۱۷:۷۳) قریب تھا کہ یہ (کافر) لوگ تم کو اس سے بچلاویں۔ یعنی تجھے وحی کے احکام سے برگشتہ کرکے مصیبت اور شدت میں مبتلا نہ کردیں۔ (فَتَنۡتُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ ) (۵۷:۱۴) تم نے خود اپنے تئیں بلا میں ڈالا۔ یعنی اپنے آپ کو بلا اور عذاب میں مبتلا کردیا۔ اور اسی معنی میں فرمایا: (وَ اتَّقُوۡا فِتۡنَۃً لَّا تُصِیۡبَنَّ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡکُمۡ خَآصَّۃً) (۸:۲۵) اور اس فتنے سے ڈرو جو خصوصیت کے ساتھ انہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں گنہگار ہیں۔ اور آیت کریمہ: (وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ اَوۡلَادُکُمۡ فِتۡنَۃٌ) (۸:۲۸) اور جان رکھو کہ تمہارا مال اور اولاد بڑی آزمائش ہے۔ میں اموال و اولاد کو فتنہ قرار دیا ہے کیونکہ ان کے سبب سے انسان مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے اور آیت کریمہ: (اِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ وَ اَوۡلَادِکُمۡ عَدُوًّا لَّکُمۡ ) (۶۴:۱۴) تمہاری عورتوں اور اولادوں میں سے بعض تمہارے دشمن بھی ہیں۔ میں بعض ازواج اور اولاد کو دشمن قرار دیا ہے کیونکہ بعض اوقات ان سے اس طرح اذیت پہنچتی ہے جس طرح کہ دشمن سے پہنچتی ہے اور آیت کریمہ: (زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الۡبَنِیۡنَ) (۳:۱۴) لوگوں کو ان کی خواہشوں کی چیزیں یعنی عورتیں اور بیٹے … بڑی زینت دار معلوم ہوتی ہیں۔ میں عورتوں اور بیٹوں کو زینت قرار دیا ہے۔ کیونکہ لوگ ان کو باعث زینت خیال کرتے ہیں نیز قرآن پاک میں ہے: (الٓـمّٓ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ ) (۲۹:۱) کیا لوگ یہ خیال کیے ہوئے ہیں کہ صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے۔ چھوڑدئیے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی۔ یعنی انہیں آزمائش میں ڈال کر اچھے اور برے کو الگ الگ نہیں کیا جائے گا جیسے دوسرے مقام پر فرمایا: (لِیَمِیۡزَ اللّٰہُ الۡخَبِیۡثَ مِنَ الطَّیِّبِ) (۸:۳۷) تاکہ خدا، ناپاک کو پاک سے الگ کردے۔ اور آیت کریمہ: (اَوَ لَا یَرَوۡنَ اَنَّہُمۡ یُفۡتَنُوۡنَ فِیۡ کُلِّ عَامٍ مَّرَّۃً اَوۡ مَرَّتَیۡنِ ثُمَّ لَا یَتُوۡبُوۡنَ وَ لَا ہُمۡ یَذَّکَّرُوۡنَ ) (۹:۱۲۶) کیا یہ دیکھتے نہیں؟ کہ یہ ہر سال ایک یا دو بار بلا میں پھنسا دیے جاتے ہیں۔ پھر بھی توبہ نہیں کرتے اور نہ نصیحت پکڑتے ہیں۔ میں اس ابتلا کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر کہ آیت (وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ) (۲:۱۵۵) الآیۃ اور ہم کسی قدر خوف … سے تمہاری آزمائش کریں گے۔ میں پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ: (وَ حَسِبُوۡۤا اَلَّا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ ) (۵:۷۱) اور یہ خیال کرتے تھے کہ (اس سے ان پر) کوئی آفت نہیں آئے گی۔ میں بھی فِتْنَۃٌ اسی معنی پر محمول ہے۔ فِتْنَۃٌ کا لفظ بلا، مصیبت قتل اور عذاب وغیرہ، افعال کریہہ پر بولا جاتا ہے اور یہ ان افعال سے ہے جن کا اسناد، اﷲ تعالیٰ اور بندے دونوں کی طرف ہوتا ہے۔ لیکن جب اس کا اسناد اﷲ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے مقتضائے حکمت کے مطابق آزمائش و امتحان مراد ہوتا ہے۔ اور جب اس کا اسناد انسان کی طرف ہو تو اس کے برعکس معنی مراد ہوتے ہیں اس لیے مختلف انواع کے فتنوں کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے جابجا انسان کی مذمت کی یہ چنانچہ فرمایا: (وَ الۡفِتۡنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الۡقَتۡلِ) (۲:۱۹۱) اور (دین سے گمراہ کرنے کا فساد) قتل و خونریزی سے کہیں بڑھ کر ہے۔ (اِنَّ الَّذِیۡنَ فَتَنُوا الۡمُؤۡمِنِیۡنَ) (۸۵:۱۰) جن لوگوں نے مومن مردوں … کو تکلیفیں دیں۔ (مَاۤ اَنۡتُمۡ عَلَیۡہِ بِفٰتِنِیۡنَ ) (۳۷:۱۶۲) خدا کے خلاف بہکا نہیں سکتے۔ یعنی گمراہ کرنے والے نہیں ہو۔ اور آیت کریمہ: (بِاَىیِّکُمُ الۡمَفۡتُوۡنُ ) (۶۸:۶) کہ تم میں سے کون دیوانہ ہے۔ میں بقول اخفش مَفْتُوْنَ بمعنی فتنہ ہے جس طرح کہ لَیْسَ لَہٗ مَعْقُوْلٌ وَخُذْ مَیْسُوْرَہٗ وَدَعْ مَعْسُوْرَہٗ میں معقول مَیْسُوْرٌ وَمَعْسُوْرٌ بمعنی عقل، یُسْر اور عُسْر ہیں تو آیت کی اصل بِاَیِّکُمُ الْفُتُوْنُ ہے۔ بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ بِاَیِّکُم میں باوزائد ہے جیساکہ آیت وَکَفٰی بِاﷲِ شَھِیْدًا میں ہے لہٰذا یہ اصل میں اَیُّکُمُ الْمُفْتُوْنُ ہے۔ اور آیت کریمہ: (وَ احۡذَرۡہُمۡ اَنۡ یَّفۡتِنُوۡکَ عَنۡۢ بَعۡضِ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ اِلَیۡکَ) (۵:۴۹) اور ان سے بچتے رہنا کہ کسی حکم سے جو خدا نے تم پر نازل فرمایا ہے یہ کہیں تم کو بہکادیں۔ میں اَنْ یَفْتِنُوْکَ کے معنی ہیں: خَدَعُوْکَ اس لیے عَنْ (صلہ) کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔

Words
Words Surah_No Verse_No
الْفِتْنَةَ سورة التوبة(9) 47
الْفِتْنَةَ سورة التوبة(9) 48
الْفِتْنَةَ سورة الأحزاب(33) 14
الْفِتْنَةِ سورة آل عمران(3) 7
الْفِتْنَةِ سورة النساء(4) 91
الْفِتْنَةِ سورة التوبة(9) 49
الْمَفْتُوْنُ سورة القلم(68) 6
بِفٰتِـنِيْنَ سورة الصافات(37) 162
تَفْتِنِّىْ سورة التوبة(9) 49
تُفْتَنُوْنَ سورة النمل(27) 47
فَتَنُوا سورة البروج(85) 10
فَتَنَّا سورة الأنعام(6) 53
فَتَنَّا سورة طه(20) 85
فَتَنَّا سورة العنكبوت(29) 3
فَتَنَّا سورة ص(38) 34
فَتَنَّا سورة الدخان(44) 17
فَتَنّٰهُ سورة ص(38) 24
فَتَنْتُمْ سورة الحديد(57) 14
فُتُوْنًا سورة طه(20) 40
فُتِنُوْا سورة النحل(16) 110
فُتِنْتُمْ سورة طه(20) 90
فِتْنَةً سورة الأنفال(8) 25
فِتْنَةً سورة يونس(10) 85
فِتْنَةً سورة بنی اسراءیل(17) 60
فِتْنَةً سورة الأنبياء(21) 35
فِتْنَةً سورة الحج(22) 53
فِتْنَةً سورة الفرقان(25) 20
فِتْنَةً سورة الصافات(37) 63
فِتْنَةً سورة القمر(54) 27
فِتْنَةً سورة الممتحنة(60) 5
فِتْنَةً سورة المدثر(74) 31
فِتْنَةٌ سورة البقرة(2) 102
فِتْنَةٌ سورة البقرة(2) 193
فِتْنَةٌ سورة المائدة(5) 71
فِتْنَةٌ سورة الأنفال(8) 28
فِتْنَةٌ سورة الأنفال(8) 39
فِتْنَةٌ سورة الأنفال(8) 73
فِتْنَةٌ سورة الأنبياء(21) 111
فِتْنَةٌ سورة النور(24) 63
فِتْنَةٌ سورة الزمر(39) 49
فِتْنَةٌ سورة التغابن(64) 15
فِتْنَةَ سورة العنكبوت(29) 10
فِتْنَةُۨ سورة الحج(22) 11
فِتْنَتَكُمْ سورة الذاريات(51) 14
فِتْنَتَهٗ سورة المائدة(5) 41
فِتْنَتُكَ سورة الأعراف(7) 155
فِتْنَتُهُمْ سورة الأنعام(6) 23
لَيَفْتِنُوْنَكَ سورة بنی اسراءیل(17) 73
لِنَفْتِنَهُمْ سورة طه(20) 131
لِّنَفْتِنَهُمْ سورة الجن(72) 17