اَلظُّلْمَۃُ: کے معنی روشنی کا معدوم ہونا ہیں سا کی جمع ظُلُمَاتٌ ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (اَوۡ کَظُلُمٰتٍ فِیۡ بَحۡرٍ لُّجِّیٍّ ) (۲۴:۴۰) یا (ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے) جیسے دریائے عمیق میں اندھیرے۔ (ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ) (۲۴:۴۰) (غرض) اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھایا ہوا۔ (اَمَّنۡ یَّہۡدِیۡکُمۡ فِیۡ ظُلُمٰتِ الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ ) (۲۷:۶۳) بتاؤ بروبحر کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے۔ (وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوۡرَ) (۶:۱) اور تاریکیوں اور روشنی بنائی۔ اور کبھی ظُلْمَۃٌ کا لفظ بول کر جہالت، شرک اور فسق و فجور کے معنی مراد لیے جاتے ہیں جس طرح کہ نورٌ کا لفظ ان کے اضداد یعنی علم و ایمان اور عمل صالح پر بولا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے۔ (یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ) (۲:۲۵۷) ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے۔ (اَنۡ اَخۡرِجۡ قَوۡمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ) (۱۴:۵) کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ۔ (فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ ) (۲۱:۸۷) آخر تاریکیوں میں خدا کو پکارنے لگے۔ اور آیت کریمہ: (کَمَنۡ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ) (۶:۱۲۲) کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جو اندھیرے میں ہو۔ (کَمَنۡ ہُوَ اَعۡمٰی) (۱۳:۱۹) کے ہم معنی ہے اور آیت سورۃ الانعام: (وَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا صُمٌّ وَّ بُکۡمٌ فِی الظُّلُمٰتِ) (۶:۳۹) اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ بہرے اور گونگے ہیں اور تاریکیوں میں پڑے رہتے ہیں، میں فِی الظُّلُمَاتِ کا لفظ آیت (صُمٌّ بُکْمٌ وَّعُمْیٌ) (۲:۱۸) میں عُمْیٌ کی جگہ پر استعمال ہوا ہے اور آیت کریمہ ہے: (فِیۡ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ) (۳۹:۶) تین اندھیروں میں ۔ تین تاریکیوں سے مراد پیٹ، رحم، اور بچہ دانی کی تاریکی مراد ہے۔ اَظْلَمَ کے معنی ہیں تاریکی میں ہوجانا قرآن پاک میں ہے: (فَاِذَا ہُمۡ مُّظۡلِمُوۡنَ ) (۳۶:۳۷) پھر اچانک وہ تاریکی میں رہ جاتے ہیں۔ اَلظُّلْمُ: اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی یا زیادتی کرکے یا اسے اس کے صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر۔ اسی سے ظَلَمْتُ السِّقَائَ کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں: مشکیزے میں دودھ جمنے کے لیے رکھا اور دہی بننے سے پہلے ہی پی لیا۔(1) اور ایسے دودھ کو … ظَلِیْمٌ کہتے ہیں۔ ظَلَمْتُ الْاَرْضَ: میں نے زمین کو ایسے مقام سے کھودا جہاں سے کھودنا نہیں چاہتا تھا۔ اس قسم کی زمین کو ’’مَظْلُوْمَۃٌ‘‘ کہا جاتا ہے اور اس سے کھود کر جو مٹی نکالی جاتی ہے اس مٹی کو ظَلِیْمٌ کہتے ہیں۔ اور الظُّْم کا لفظ حق سے تجاوز پر بولا جاتا ہے جس کی مثال دائرہ میں مرکزی نقطہ کی ہوتی ہے اور ظلم کا اطلاق چونکہ ہر قسم کے تجاوز پر ہوتا ہے خواہ وہ تجاوز قلیل ہو یا کثیر یہی وجہ ہے کہ ایک طرف تو ابلیس کو ظالم کہا اور دوسری طرف آدم علیہ السلام کو ان کی غلطی کی بنا پر ظلم کہہ دیا گیا ہے گو دونوں کے ظالم ہونے میں بہت بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے(2) (۱) وہ ظلم جو انسان اﷲ تعالیٰ کے حق میں کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی قسم کفروشرک اور نفاق ہے۔ چنانچہ فرمایا: ( اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ ) (۳۱:۱۳) شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے۔ اور آیات: (اَلَا لَعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ ) (۱۱:۱۸) سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے۔ (وَ الظّٰلِمِیۡنَ اَعَدَّ لَہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا ) (۷۶:۳۱) اور ظالموں کے لیے اس نے دکھ دینے والا عذاب تیار کررکھا ہے۔ (فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ کَذَبَ عَلَی اللّٰہِ ) (۳۹:۳۲) تو اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو خدا پر جھوٹ بولے۔ (وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ ) (۱۱:۱۵) اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو خدا پر جھوٹ افتراء کرے۔ اور اس نوع کی دیگر آیات میں اسی قسم کا ظلم مراد ہے۔ (۲) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے۔ چنانچہ آیت کریمہ: (وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَ اَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ ) (۴۲:۴۰) اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ میں طالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں۔ نیز آیت کریمہ: (اِنَّمَا السَّبِیۡلُ عَلَی الَّذِیۡنَ یَظۡلِمُوۡنَ النَّاسَ ) (۴۲:۴۲) الزام تو ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔ میں بھی ظلم کے یہی معنی مراد ہیں اسی طرح فرمایا: (وَ مَنۡ قُتِلَ مَظۡلُوۡمًا) (۱۷:۳۳) اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے۔ (۳) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے۔ چنانچہ اسی معنی میں فرمایا: (فَمِنۡہُمۡ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِہٖ) (۳۵:۳۲) تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ (ظَلَمۡتُ نَفۡسِیۡ ) (۲۸:۱۶) میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ (اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ ) (۴:۶۴) جب اپنے حق میں ظلم کر بیٹھتے تھے۔ (فَتَکُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ) (۷:۱۹) ورنہ ظالم ہوجاؤگے۔ یعنی ان لوگوں سے ہوجاؤ گے جو اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ فَقَدۡ ظَلَمَ نَفۡسَہٗ) (۲:۲۳۱) اور جو ایسا کرے گا وہ اپنے آپ پر ہی ظلم کرے گا۔ یہ تینوں قسم کا ظلم درحقیقت ظلم علی النفس ہی ہے کیونکہ جب انسان پہلے پہل ظلم کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے اس بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ ظالم اپنے ظلم کی ابتداء ہمیشہ اپنی ذات سے کرتا ہے اس بنا پر متعدد مقامات پر فرمایا: (وَ مَا ظَلَمَہُمُ اللّٰہُ وَ لٰکِنۡ کَانُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ ) (۱۶:۳۳) وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑتے تھے۔ بلکہ اپنا ہی نقصان کرتے تھے۔ اور آیت: (وَ لَمۡ یَلۡبِسُوۡۤا اِیۡمَانَہُمۡ بِظُلۡمٍ ) (۶:۸۲) اور اپنے ایمان کو (شرک کے ظلم) سے محفوظ نہیں کیا۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ ظُلْمٌ سے شرک مراد ہے اور دلیل یہ پیش کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام پر اس کا بہت گہرا اثر ہوا ان کی یہ حالت دیکھ کر آنحضرت علیہ السلام نے فرمایا: (۲۶) کہ ظلم سے مراد تو شرک ہے جیساکہ حضرت لقمان علیہ السلام کے قول: (اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ ) (۳۱:۱۳) شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے، سے معلوم ہوتا ہے۔(3) اور آیت کریمہ ہے: (وَ لَمۡ تَظۡلِمۡ مِّنۡہُ شَیۡئًا) (۱۸:۳۳) اور اس کی پیداوار میں کسی طرح کی کمی نہ ہوتی۔ لَمْ تَظْلِمْ کے معنی لَمْ تَنْقُصْ کے ہیں یعنی اس کی پیداوار میں کسی قسم کی کمی نہیں ہوتی تھی اور آیت: (وَ لَوۡ اَنَّ لِلَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مَا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا) (۳۹:۴۷) اور اگر ظالموں کے پاس وہ سب مال ومتاع ہو جو زمین میں ہے۔ میں ظلم کا لفظ تینوں قسم کے ظلم کو شامل ہے کیونکہ جس شخص نے دنیا میں ادنٰی سا ظلم بھی کیا ہوگا وہ قیامت کے دن دنیا کا سب مال و متاع فدیہ دے کر رہا ہونے کی کوش کرے گا۔ اور آیت کریمہ ہے: (ہُمۡ اَظۡلَمَ وَ اَطۡغٰی) (۵۳:۵۲) وہ لوگ بڑے ہی ظالم اور بڑے ہی سرکش تھے۔ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ ظلم و ستم کا انجام برا ہوتا ہے اور ایسے لوگ آخرکار ہلاک ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ نوح علیہ السلام کی قوم کا قصہ اس امر کا شاہد ہے اور قرآن پاک نے ایک موقع پر تو (وَ مَا اللّٰہُ یُرِیۡدُ ظُلۡمًا لِّلۡعِبَادِ ) (۴۰:۳۱) اور خدا بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا، کہا ہے۔ اور دوسرے مقام پر (وَ مَاۤ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِیۡدِ ) (۵۰:۲۹) اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے، فرمایا ہے پس پہلی آیت میں عباد یعنی بندوں پر سے لفظ ظَلَّامٌ (صیغہ مبالغہ) کے ساتھ نفی کی ہے۔ ان دونوں میں جو باریک فرق پایا جاتا ہے اس کی وضاحت ہم دوسری کتاب میں بیان کریں گے۔(4) ظَلِیْمٌ نر شتر مرغ۔ کیونکہ عرب لوگ اسے مظلوم جانور خیال کرتے تھے۔ چنانچہ شاعر نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے(5) (السریع) (۲۹۹) فَصِرْتُ کَالْھَیْقِ غَدًا یَّبْتَغِیْ قَرْناً فَلَمْ یَرْجِعْ بِاُذُنِیْنٍ میں شتر مرغ کی طرف خائب و خاسر ہوکر لوٹا جو گیا تھا سینگ لینے مگر کھو بیٹھا کان بھی۔ ظَلَمٌ کے معنی دانتوں کی آب و تاب کے ہیں۔ خلیل نے کہا ہے(6) لَقِیْتُہٗ اَدْنٰی ظَلَمٍ اَوْ ذِیْ ظَلَمَۃٍ: یعنی سب سے پہلے جس چیز پر میری نظر پڑی اور میری نظر کو اس نے روکا، وہ فلاں شخص ہے، مگر اس معنی سے فعل مشتق ہوکر استعمال نہیں ہوتا۔
Words | Surah_No | Verse_No |
الظَّالِمُ | سورة الفرقان(25) | 27 |
الظَّالِمِ | سورة النساء(4) | 75 |
الظُّلُمٰتُ | سورة الرعد(13) | 16 |
الظُّلُمٰتُ | سورة فاطر(35) | 20 |
الظُّلُمٰتِ | سورة البقرة(2) | 257 |
الظُّلُمٰتِ | سورة البقرة(2) | 257 |
الظُّلُمٰتِ | سورة المائدة(5) | 16 |
الظُّلُمٰتِ | سورة الأنعام(6) | 1 |
الظُّلُمٰتِ | سورة الأنعام(6) | 39 |
الظُّلُمٰتِ | سورة الأنعام(6) | 122 |
الظُّلُمٰتِ | سورة إبراهيم(14) | 1 |
الظُّلُمٰتِ | سورة إبراهيم(14) | 5 |
الظُّلُمٰتِ | سورة الأنبياء(21) | 87 |
الظُّلُمٰتِ | سورة الأحزاب(33) | 43 |
الظُّلُمٰتِ | سورة الحديد(57) | 9 |
الظُّلُمٰتِ | سورة الطلاق(65) | 11 |
الظّٰلِمُوْنَ | سورة البقرة(2) | 229 |
الظّٰلِمُوْنَ | سورة البقرة(2) | 254 |
الظّٰلِمُوْنَ | سورة آل عمران(3) | 94 |
الظّٰلِمُوْنَ | سورة المائدة(5) | 45 |
الظّٰلِمُوْنَ | سورة الأنعام(6) | 21 |
الظّٰلِمُوْنَ | سورة الأنعام(6) | 47 |
الظّٰلِمُوْنَ | سورة الأنعام(6) | 93 |
الظّٰلِمُوْنَ | سورة الأنعام(6) | 135 |
الظّٰلِمُوْنَ | سورة التوبة(9) | 23 |
الظّٰلِمُوْنَ | سورة يوسف(12) | 23 |
الظّٰلِمُوْنَ | سورة إبراهيم(14) | 42 |
الظّٰلِمُوْنَ | سورة بنی اسراءیل(17) | 47 |
الظّٰلِمُوْنَ | سورة بنی اسراءیل(17) | 99 |
الظّٰلِمُوْنَ | سورة مريم(19) | 38 |
الظّٰلِمُوْنَ | سورة الأنبياء(21) | 64 |
الظّٰلِمُوْنَ | سورة النور(24) | 50 |
الظّٰلِمُوْنَ | سورة الفرقان(25) | 8 |
الظّٰلِمُوْنَ | سورة القصص(28) | 37 |
الظّٰلِمُوْنَ | سورة العنكبوت(29) | 49 |
الظّٰلِمُوْنَ | سورة لقمان(31) | 11 |
الظّٰلِمُوْنَ | سورة سبأ(34) | 31 |
الظّٰلِمُوْنَ | سورة فاطر(35) | 40 |
الظّٰلِمُوْنَ | سورة الحجرات(49) | 11 |
الظّٰلِمُوْنَ | سورة الممتحنة(60) | 9 |
الظّٰلِمِيْنَ | سورة البقرة(2) | 35 |
الظّٰلِمِيْنَ | سورة البقرة(2) | 124 |
الظّٰلِمِيْنَ | سورة البقرة(2) | 145 |
الظّٰلِمِيْنَ | سورة البقرة(2) | 193 |
الظّٰلِمِيْنَ | سورة البقرة(2) | 258 |
الظّٰلِمِيْنَ | سورة آل عمران(3) | 86 |
الظّٰلِمِيْنَ | سورة آل عمران(3) | 140 |
الظّٰلِمِيْنَ | سورة آل عمران(3) | 151 |
الظّٰلِمِيْنَ | سورة المائدة(5) | 29 |
الظّٰلِمِيْنَ | سورة المائدة(5) | 51 |