اَلْعِلْمُ: کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا۔ اور یہ دو قسم پر ہے اوّل یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا: دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو (فی الواقع) اس کے لیے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو (فی الواقع) اس سے منفی ہو۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے۔ جیساکہ قرآن پاک میں ہے: (لَا تَعۡلَمُوۡنَہُمۡ ۚ اَللّٰہُ یَعۡلَمُہُمۡ) (۸:۶۰) جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے۔ اور دوسرے صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا: (فَاِنۡ عَلِمۡتُمُوۡہُنَّ مُؤۡمِنٰتٍ ) (۶۰:۱۰) اگر تم کو معلوم ہوکہ مومن ہیں۔ اور آیت (یَوۡمَ یَجۡمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ ) (۵:۱۰۹) کے آخر میں (لَا عِلۡمَ لَنَا) (۵:۱۰۹) سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش وحواس قائم نہیں رہیں گے۔ ایک دوسرے حیثیت سے علم کی دو قسمیں ہیں: (۱) نظری (۲) عملی۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ علم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عملی وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جیسے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں: (۱) عقلی، یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل و سماعت کے حاصل کیا جائے دراصل ہوسکے۔ (۲) سمعی عینی وہ علم جو محض عقل سے حاصل اَعْلَمْتُہٗ وَعَلَّمْتُہٗ کے ایک معنی ہیں مگر اِعْلَامٌ جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تَعْلِیْمٌ کے معنی باربار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں۔ حتیٰ کہ متعلّم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے۔ بعض نے کہا ہے کہ تَعْلِیْم کے معنی تصور کے لیے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تَعَلُّمٌ کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تَعْلِیْمٌ کا لفظ اِعْلَامٌ کی جگہ آتا ہے کہ جب اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا: (اَتُعَلِّمُوۡنَ اللّٰہَ بِدِیۡنِکُمۡ) (۴۹:۱۶) کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو۔ اور حسب ذیل آیات میں تَعْلِیْمٌ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جیسے فرمایا: (اَلرَّحۡمٰنُ عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ ) (۵۵:۱،۲) خدا جو نہایت مہربان، اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی۔ (عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ) (۹۶:۴) قلم کے ذریعہ (لکھنا) سکھایا۔ (وَ عُلِّمۡتُمۡ مَّا لَمۡ تَعۡلَمُوۡۤا ) (۶:۹۱) اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے…۔ (عُلِّمۡنَا مَنۡطِقَ الطَّیۡرِ ) (۲۷:۱۶) ہمیں خدا کی طرف سے جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے۔ (وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ) (۳:۱۶۴) اور خدا کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔ اور آیت کریمہ: (وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا ) (۲:۳۱) اور اس نے آدم علیہ السلام کو سب چیزوں کے نام سکھائے۔ میں آدم علیہ السلام کو اسماء کی تعلیم دینے کے معنی ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے اندر بولنے کی صلاحیت اور استعداد رکھ دی جس کے ذریعہ اس نے ہر چیز کے لیے ایک نام وضع کرلیا یعنی اس کے دل میں القا کردیا جیساکہ اﷲ تعالیٰ نے حیوانات کو ا کے کام سکھادئیے ہیں جسے وہ سرانجام دیتے رہتے ہیں اور آواز دی ہے جسے وہ نکالتے رہتے ہیں۔ اور آیت کریمہ: (وَ عَلَّمۡنٰہُ مِنۡ لَّدُنَّا عِلۡمًا … قَالَ لَہٗ مُوۡسٰی ہَلۡ اَتَّبِعُکَ عَلٰۤی اَنۡ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمۡتَ رُشۡدًا ) (۱۸:۶۵،۶۶) اور اپنے پاس سے علم بخشا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس سے کہا کہ جو علم خدا کی طرف سے آپ کو سکھلایا گیا ہے اگر آپ مجھے اس میں سے کچھ رشد و ہدایت (کی باتیں) سکھا دیں تو میں آپ کے ساتھ رہوں۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ اس سے ایک خاص علم مراد ہے جس پر انسان ازخود واقف نہیں ہوسکتا اور جب تک اﷲ تعالیٰ اس پر واقف نہ فرمائے لوگ اسے قابل انکار سمجھتے ہیں۔ کیونکہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر کے ساتھ چلے تو جب تک انہوں نے ان واقعات کی حقیقت سے موسیٰ علیہ السلام کو باخبر نہیں کردیا وہ ان باتوں کا انکاری کرتے رہے اور بعض نے کہا ہے کہ آیت کریمہ: (قَالَ الَّذِیۡ عِنۡدَہٗ عِلۡمٌ مِّنَ الۡکِتٰبِ ) (۳۰:۴۰) ایک شخص جس کو کتاب الٰہی کا علم تھا کہنے لگا، میں بھی علم کے یہی معنی مراد ہیں یعنی جسے علم خصوصی حاصل تھا اور آیت: (وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ) (۵۸:۱۱) اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے خدان کے درجے بلند کرے گا۔ میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس بات پر تنبیہ کی گئی ہے کہ مراتب علم کے اعتبار سے علماء کے بھی مختلف درجے اور مرتبے ہیں اور آیت کریمہ: (وَ فَوۡقَ کُلِّ ذِیۡ عِلۡمٍ عَلِیۡمٌ ) (۱۲:۷۶) اور ہر علم والے سے دوسرا علم والا بڑھ کر ہے۔ میں عَلِیْم کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ علم و فضل کے اعتبار سے ایک انسان دوسرے سے بڑھ کر ہے۔ عَلِیْمٌ صیغۂ مبالغہ لاکر اس علمی فصیلت کو بیان کرنے سے مقصد یہ ہے کہ ہر شخص اپنے سے کم درجہ کے اعتبار سے عَلِیْمٌ ہے گو اپنے سے بلند درجہ عالم کے اعتبار سے ایسا نہیں ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عَلِیْمٌ سے ذات باری تعالیٰ مراد ہو گو یہ لفظ نکرہ ہے کیونکہ درحقیقت اس صفت کے ساتھ موصوف ہونے کی اہل تو ذات باری تعالیٰ ہی ہے اس صورت میں کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ سے جملہ اہل علم بحیثیت مجموعی مراد ہوں گے اور ہر ایک بحیثیت انفرادی مراد نہیں ہوگا جیساکہ پہلی صورت میں تھا۔ اور آیت کریمہ: (عَلَّامُ الۡغُیُوۡبِ ) (۳۴:۴۸) اور وہ غیب کی باتوں کا جاننے والا ہے۔ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا علم ہر چیز پر حاوی ہے اور کوئی چیز بھی اس پر مخفی نہیں ہے اور آیت کریمہ: (عٰلِمُ الۡغَیۡبِ فَلَا یُظۡہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا … اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ ) (۷۲:۲۶،۲۷) وہی غیب کا جاننے والا ہے اور کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے۔ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ذات باری تعالیٰ اپنے علم خصوصی سے صرف انہیں کو نوازتے ہیں جو اس کے اولیاء کی صف میں داخل ہوں اور اَلْعَالِمُ کا لفظ جب اﷲ تعالٰؑ کی صفت کی حیثیت سے بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات ہوتی ہے جس پر کوئی چیز بھی مخفی نہ ہو۔ جیسے فرمایا: (لَا تَخۡفٰی مِنۡکُمۡ خَافِیَۃٌ ) (۶۹:۱۸) اور تمہاری کوئی پوشیدہ بات چھپی نہیں رہے گی۔ اور یہ مفہوم صرف ذات باری تعالیٰ کے حق میں ہی صحیح ہوسکتا ہے کسی دوسرے کو اس معنی کے ساتھ متصف کرنا صحیح نہیں ہے۔ اَلْعَلَمُ: ایسا نشان جس سے کوئی شے پہچانی جاسکے جیسے عَلَمُ الطَّرِیْقِ: اس نشان کو کہتے ہیں جو راستہ کی پہچان کے لیے اس میں کھڑا کردیا جاتا ہے اور فوج کے جھنڈے کو عَلَمُ الْجَیْشِ کہا جاتا ہے کیونکہ اس سے فوج کی پہچان ہوجاتی ہے۔ چنانچہ ایک قراء ت (میں عیسیٰ علیہ السلام) کو (وَ اِنَّہٗ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَۃِ ) (۴۳:۶۱) کہا گیا ہے یعنی وہ قیامت کی نشانی ہیں۔ اور اس معنی کے اعتبار سے پہاڑ کو بھی عَلَمٌ کہا جاتا ہے۔ اس کی جمع اَعْلَامٌ ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ مِنۡ اٰیٰتِہِ الۡجَوَارِ فِی الۡبَحۡرِ کَالۡاَعۡلَامِ ) (۴۲:۳۲) اور اس کی نشانیوں میں سے سمندر کے جہاز ہیں جو گویا پہاڑ ہیں۔ اور دوسرے مقام پر فرمایا: (وَ لَہُ الۡجَوَارِ الۡمُنۡشَئٰتُ فِی الۡبَحۡرِ کَالۡاَعۡلَامِ) (۵۵:۲۴) اور جہاز بھی اسی کے ہیں جو دریا میں پہاڑوں کی طرح اونچے کھڑے ہوتے ہیں۔ نیز اوپر کے ہونٹ کے شگاف اور کپڑے کے نقش ونگار کو بھی عَلَمٌ کہا جاتا ہے اور محاورہ ہے۔ فُلَانٌ عَلَمٌ فلاں مشہور و معروف ہے جھنڈے کے ساتھ تشبیہ کے اعتبار سے یہی معنی مراد ہوتا ہے۔ اَعْلَمْتُ کَذَا کے معنی کسی چیز پر نشان لگانا کے ہیں۔ اور مَعَالِمُ الطَّرِیْقِ اَوِالدِّیْنِ میں مَعَالِمُ کا واحد مَعْلَمٌ ہے اور مَعْلَمٌ اس نشان کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کی پہچان ہوسکے محاورہ ہے۔ فُلَانٌ مَعْلَمٌ لِلْخَیْرِ: فلاں خیروبرکت کا نشان ہے۔ اَلْعُلَّامُ: مہندی۔ اَلْعَالَمُ: فلک الافلاک اور جن جواہر و اعراض پر وہ حاوی ہے سب کو اَلْعَالَمُ: کہا جاتا ہے دراصل یہ فَاعَلٌ کے وزن پر ہے جو اسم آلہ کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے طَابِعٌ۔ مَایُطْبَعُ بِہٖ۔ مَایَخْتَمُ بِہٖ وغیرہ اسی طرح عَالَمٌ بھی ہے جس کے معنی ہیں مَاعُلِمَ بِہٖ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لیے جملہ کائنات اَلْعَالَمُ کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: (اَوَ لَمۡ یَنۡظُرُوۡا فِیۡ مَلَکُوۡتِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ) (۷:۱۸۵) کیا انہوں نے آسمان اور زمین کی بادشاہت پر غور نہیں کیا۔ اور اَلْعَالَمُ کی جمع (اَلْعَالَمُوْنَ) اس لیے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقل عَاَلمٌ کی حیثیت رکھتی ہے۔ مثلاً عَالَمُ الْاِنْسَانِ، عَالَمُ الْمَائِ وَعَالَمُ النَّارِ وغیرہ۔ نیز ایک روایت میں ہے۔(1) (۴۹) (ان لِلّٰہِ بِضْعَۃَ عَشَرَ اَلْفَ عَلَمٍ) کہ اﷲ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کیے یہں باقی رہا یہ سوال کہ (واؤ نون کے ساتھ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے (جو ذوی العقول کے ساتھ مختص ہے) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عَالَمٌ میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لیے اس کی جمع، جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبًا اس کی جمع واؤ نون کے ساتھ بنالیتے ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عَالَمٌ سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے، جن اور انسان ہی مراد ہیں جیساکہ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے۔(2) اس لیے اس کی جمع واؤ نون کے ساتھ لائی گئی ہے۔ امام جعفر رضی اﷲ عنہ بن محمد کا قول ہے(3) کہ عَالَمِیْنَ سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد و بشر کو ایک عَالَم قرار دے کر اسے جمع لیا گیا ہے۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عَالَمٌ دو قسم پر ہے۔(۱) اَلْعَالَمُ الْکَبَیْرُ: یعنی فلک و مافیہ (۲) اَلْعَالَمُ الصَّغِیْرُ: یعنی انسان، کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عَالَمٌ کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل مجود ہیں جو عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے۔ (اَوَ لَمۡ نَنۡہَکَ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ ) (۱۵:۷۰) کیا ہم نے تم کو سارے جہاں (کی حمایت و طرفداری سے) منع نہیں کیا۔ (اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ) (۱:۱) سب تعریف خدا ہی کو سزاوار ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے۔ اور آیت کریمہ: (وَ اَنِّیۡ فَضَّلۡتُکُمۡ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ) (۲:۱۲۲) کے بعض نے یہ معنی کیے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصر اقوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلاء مراد لیے ہیں جن میں سے ہر ایک نوازشات الٰہی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عَالَمٌ سے موسوم کرنا ایسے ہی ہے جیساکہ آیت کریمہ: (اِنَّ اِبۡرٰہِیۡمَ کَانَ اُمَّۃً ) (۱۶:۱۲۰) ’’بے شک حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک امت تھے۔‘‘ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اُمَّۃٌ کہا ہے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
الْعَلِــيْمِ | سورة يس(36) | 38 |
الْعَلِـيْمُ | سورة سبأ(34) | 26 |
الْعَلِـيْمُ | سورة يس(36) | 81 |
الْعَلِيْمُ | سورة البقرة(2) | 32 |
الْعَلِيْمُ | سورة البقرة(2) | 127 |
الْعَلِيْمُ | سورة البقرة(2) | 137 |
الْعَلِيْمُ | سورة آل عمران(3) | 35 |
الْعَلِيْمُ | سورة المائدة(5) | 76 |
الْعَلِيْمُ | سورة الأنعام(6) | 13 |
الْعَلِيْمُ | سورة الأنعام(6) | 115 |
الْعَلِيْمُ | سورة الأنفال(8) | 61 |
الْعَلِيْمُ | سورة يونس(10) | 65 |
الْعَلِيْمُ | سورة يوسف(12) | 34 |
الْعَلِيْمُ | سورة يوسف(12) | 83 |
الْعَلِيْمُ | سورة يوسف(12) | 100 |
الْعَلِيْمُ | سورة الحجر(15) | 86 |
الْعَلِيْمُ | سورة الأنبياء(21) | 4 |
الْعَلِيْمُ | سورة الشعراء(26) | 220 |
الْعَلِيْمُ | سورة النمل(27) | 78 |
الْعَلِيْمُ | سورة العنكبوت(29) | 5 |
الْعَلِيْمُ | سورة العنكبوت(29) | 60 |
الْعَلِيْمُ | سورة الروم(30) | 54 |
الْعَلِيْمُ | سورة حم السجدہ(41) | 36 |
الْعَلِيْمُ | سورة الزخرف(43) | 9 |
الْعَلِيْمُ | سورة الزخرف(43) | 84 |
الْعَلِيْمُ | سورة الدخان(44) | 6 |
الْعَلِيْمُ | سورة الذاريات(51) | 30 |
الْعَلِيْمُ | سورة التحريم(66) | 2 |
الْعَلِيْمُ | سورة التحريم(66) | 3 |
الْعَلِيْمِ | سورة الأنعام(6) | 96 |
الْعَلِيْمِ | سورة مومن(40) | 2 |
الْعَلِيْمِ | سورة حم السجدہ(41) | 12 |
الْعُلَمٰۗؤُا | سورة فاطر(35) | 28 |
الْعِلْمَ | سورة النحل(16) | 27 |
الْعِلْمَ | سورة بنی اسراءیل(17) | 107 |
الْعِلْمَ | سورة الحج(22) | 54 |
الْعِلْمَ | سورة النمل(27) | 42 |
الْعِلْمَ | سورة القصص(28) | 80 |
الْعِلْمَ | سورة العنكبوت(29) | 49 |
الْعِلْمَ | سورة الروم(30) | 56 |
الْعِلْمَ | سورة سبأ(34) | 6 |
الْعِلْمَ | سورة محمد(47) | 16 |
الْعِلْمَ | سورة المجادلة(58) | 11 |
الْعِلْمُ | سورة آل عمران(3) | 19 |
الْعِلْمُ | سورة يونس(10) | 93 |
الْعِلْمُ | سورة الشورى(42) | 14 |
الْعِلْمُ | سورة الجاثية(45) | 17 |
الْعِلْمُ | سورة الأحقاف(46) | 23 |
الْعِلْمُ | سورة الملك(67) | 26 |
الْعِلْمِ | سورة البقرة(2) | 120 |