سَمَائٌ: ہر شے کے بالائی حصہ کو سَمَائٌ کہا جاتا ہے شاعر نے ایک گھوڑے کے وصف میں کہا ہے۔ (1) (۲۳۸) وَاَحْمَرُ کَالدِّیْبَاجِ اَمَّا سَمَاتُہٗ فَرَیًّا وَاَمَّا اَرْضُہٗ فَمَحُوْلٌ وہ دیباج کی طرح سرخ ہے اس کا بالائی حصہ موتا اور گداز ہے اور زیریں حصہ لاغر اور سخت ہے۔ بعض نے کہا ے (کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے) کہ ہر ’’سمائٌ‘‘ اپنے ماتحت کے لحاظ سے سَمَائٌ ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے اَرْضٌ کہلاتا ہے بجز سماء علیا (فلک الافلاک) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا۔ اور آیت: (اَللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ وَّ مِنَ الۡاَرۡضِ مِثۡلَہُنَّ) (۶۵:۱۲) خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمینیں۔ کو اسی معنیٰ پر محمول کیا ہے۔ نیز مَطَرَ (بارش) کو بھی سَمَائٌ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اوپر سے آتی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ سماء اس بارش کو کہا جاتا ہے جو ہنوز زمین پر نہ گری ہو تو اس میں بھی بلندی کے معنیٰ ملحوظ ہیں۔ اور نباتات کو بھی سَمَائٌ کہا جاتا ہے یا تو اس لئے کہ وہ بارش سے اُگتے ہیں اور یا اس لئے کہ وہ زمین سے بلند ہوتے ہیں پھر لفظ سماء جو ارض کے بالمقابل ہے مؤنث ہے لیکن کبھی مذکر بھی آجاتا ہے اور واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ فَسَوّٰىہُنَّ) (۲:۲۹) پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو ان کو ٹھیک سات آسمان بنا دیا۔ اور کبھی اس کی جمع سَمٰوٰتٌ بھی بنالیتے ہیں چنانچہ فرمایا: (خَلَقَ السَّمٰوٰتِ) (۳۱:۱۰) اسی نے آسمانوں کو … پیدا کیا۔ (قُلۡ مَنۡ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ ) (۱۳:۱۶) ان سے پوچھو کہ آسمانوں … کا پروردگار کون ہے؟ اور آیت: (السَّمَآءُ مُنۡفَطِرٌۢ بِہٖ) (۷۳:۱۸) جس سے آسمان پھٹ جائے گا۔ میں سماء کو مذکور استعمال کیا ہے لیکن کئی ایک آیات جیسے: (اِذَا السَّمَآءُ انۡشَقَّتۡ ) (۸۴:۱) جب آسمان پھٹ جائے گا۔ اور آیت: (اِذَا السَّمَآءُ انۡفَطَرَتۡ ) (۸۲:۱) جب آسمان پھٹ جائے گا۔ میں مؤنث استعمال ہوا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سماء کا لفظ اشجار میں نَخْلٌ یا اس قسم کے دوسرے اسماء جنس کی طرح ہے جو مذکر و مؤنث دونوں طرح استعمال ہوتے ہیں اور سقمَائٌ کے معنیٰ بارش ہوں تو یہ ہمیشہ مذکر استعمال ہوگا اور اس کی جمع اَسْمِیَۃٌ آئے گی۔ اور کسی بلند چیز کے کالبد کو سَمَاوَۃٌ کہا جاتا ہے۔ شاعر نے کہا ہے۔ (2) (۲۳۹) سَمَاوَۃُ الْھَلَالِ حَتّٰی اِحْقُوَقَفَا (راتیں تدریجاً) افق پر ابھرے ہوئے چاند کو (لپیٹتی رہیں) حتیٰ کہ وہ ٹیڑھا ہوگیا۔ اور سقمَالِیَ الشَّیْئُ کے معنیٰ ہیں: دور سے کسی چیز کا بلند شکل میں ظاہر ہونا۔ اور سَمَا الْفَحْلُ عَلٰی الشَّوْلِ سَمَاوَۃً: سانڈھ اونٹ اونٹنی پر چڑھ گیا۔ اِلْاِسْمُ: کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے۔ یہ اصل میں سِمْوٌ ہے کیونکہ اس کی جمع اَسْمَائٌ اور تصغیر سُمَیٌّ آتی ہے۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ قَالَ ارۡکَبُوۡا فِیۡہَا بِسۡمِ اللّٰہِ مَجۡرٖىہَا) (۱۱:۴۱) اور (نوح علیہ السلام نے) کہا کہ خدا کا نام لے کر (کہ اسی کے ہاتھ میں) اس کا چلنا (ہے) سوار ہوجاؤ۔ (اِنَّہٗ مِنۡ سُلَیۡمٰنَ وَ اِنَّہٗ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ) (۲۷:۳۰) وہ سلیمان علیہ السلام کی طرف سے ہے اور (مضمون یہ ہے) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔ اور آیت: (وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ ) (۲:۳۱) اور اس آدم کو سب (چیزوں کے) نام سکھائے۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں۔ خواہ مفرد ہوں یا مرکب، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے۔ ایک اصطلاحی معنیٰ میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے۔ جیسے رَجُلٌ وفَرَسٌ دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے (کلمہ کی) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ (اسم) خبر اور رابطہ (حرف) تینوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اور آیت کریمہ میں یہی دوسرے معنیٰ مراد ہیں کیونکہ آدم علیہ السلام نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اسی طرح افعال و حروف کا علم بھی انہیں حاصل ہوگیا تھا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا۔ مثلاً اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے۔ بلکہ ہمارا علم انہی چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمیٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے۔ لہٰذا آیت: (وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ ) میں اسماء سے کلام کو انواع ثلاثہ اور صؤر مسمیانت بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت: (مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اِلَّاۤ اَسۡمَآءً سَمَّیۡتُمُوۡہَاۤ ) (۱۲:۴۰) جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ اصنام ان اوصاف سے عاری تھے۔ جن کا وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے۔ اور آیت: (وَ جَعَلُوۡا لِلّٰہِ شُرَکَآءَ ؕ قُلۡ سَمُّوۡہُمۡ) (۱۳:۳۳) اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کررکھے ہیں۔ ان سے کہو کہ (ذرا) ان کے نام تولو۔ میں سَمُّوْھُمْ سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات، عزیَّ وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنیٰ یہ ہیں کہ جن کو تم اِلٰہٌ (معبود) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو (یعنی نہیں) اسی لئے اس کے بعد فرمایا: (اَمۡ تُنَبِّـُٔوۡنَہٗ بِمَا لَا یَعۡلَمُ فِی الۡاَرۡضِ اَمۡ بِظَاہِرٍ مِّنَ الۡقَوۡلِ) (۱۳:۳۳) (کہ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں (کہیں بھی) معلوم نہیں کرتا یا (محض) ظاہری (باطل اور جھوٹی) بات کی (تقلید کرتے ہو) ۔ اور آیت: (تَبٰرَکَ اسۡمُ رَبِّکَ ) (۵۵:۷۸) تمہارے پروردگار … کا نام بڑا بابرکت ہے۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ اس کی صفات، الکریم، العلیم، الباری، الرحمن، الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیساکہ کہ دوسری جگہ فرمایا: (سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی ۙ) (۸۷:۱) (اے پیغمبر) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو۔ (وَ لِلّٰہِ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی) (۷:۱۸۰) اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں۔ اور آیت: (اسۡمُہٗ یَحۡیٰی ۙ لَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ قَبۡلُ سَمِیًّا) (۱۹:۷) جس کا نام یحییٰ ہے۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا۔ میں سَمِیًّا کے معنیٰ ’’ہم نام‘‘ کے ہیں اور آیت: (ہَلۡ تَعۡلَمُ لَہٗ سَمِیًّا) (۱۹:۶۵) بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو۔ میں سَمِیًّا کے معنیٰ نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہو اور حقیقتاً اﷲ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنیٰ نہیں ہیں کہ کیا تم کسی کو ایسا بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہو کیونکہ ایسے تو اﷲ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیراﷲ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معانی بھی وہی مراد ہوں جو اﷲ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں۔ اور آیت: (لَیُسَمُّوۡنَ الۡمَلٰٓئِکَۃَ تَسۡمِیَۃَ الۡاُنۡثٰی) (۵۳:۲۷) اور وہ فرشتوں کو (خدا کی) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنیٰ یہ ہیں۔ کہ وہ فرشتوں کو ’’بنات اﷲ‘‘ کہتے ہیں۔
Words | Surah_No | Verse_No |
السَّمٰوٰتِ | سورة بنی اسراءیل(17) | 55 |
السَّمٰوٰتِ | سورة بنی اسراءیل(17) | 99 |
السَّمٰوٰتِ | سورة بنی اسراءیل(17) | 102 |
السَّمٰوٰتِ | سورة الكهف(18) | 14 |
السَّمٰوٰتِ | سورة الكهف(18) | 26 |
السَّمٰوٰتِ | سورة الكهف(18) | 51 |
السَّمٰوٰتِ | سورة مريم(19) | 65 |
السَّمٰوٰتِ | سورة مريم(19) | 93 |
السَّمٰوٰتِ | سورة طه(20) | 6 |
السَّمٰوٰتِ | سورة الأنبياء(21) | 19 |
السَّمٰوٰتِ | سورة الأنبياء(21) | 30 |
السَّمٰوٰتِ | سورة الأنبياء(21) | 56 |
السَّمٰوٰتِ | سورة الحج(22) | 18 |
السَّمٰوٰتِ | سورة الحج(22) | 64 |
السَّمٰوٰتِ | سورة المؤمنون(23) | 86 |
السَّمٰوٰتِ | سورة النور(24) | 35 |
السَّمٰوٰتِ | سورة النور(24) | 41 |
السَّمٰوٰتِ | سورة النور(24) | 42 |
السَّمٰوٰتِ | سورة النور(24) | 64 |
السَّمٰوٰتِ | سورة الفرقان(25) | 2 |
السَّمٰوٰتِ | سورة الفرقان(25) | 6 |
السَّمٰوٰتِ | سورة الفرقان(25) | 59 |
السَّمٰوٰتِ | سورة الشعراء(26) | 24 |
السَّمٰوٰتِ | سورة النمل(27) | 25 |
السَّمٰوٰتِ | سورة النمل(27) | 60 |
السَّمٰوٰتِ | سورة النمل(27) | 65 |
السَّمٰوٰتِ | سورة النمل(27) | 87 |
السَّمٰوٰتِ | سورة العنكبوت(29) | 44 |
السَّمٰوٰتِ | سورة العنكبوت(29) | 52 |
السَّمٰوٰتِ | سورة العنكبوت(29) | 61 |
السَّمٰوٰتِ | سورة الروم(30) | 8 |
السَّمٰوٰتِ | سورة الروم(30) | 18 |
السَّمٰوٰتِ | سورة الروم(30) | 22 |
السَّمٰوٰتِ | سورة الروم(30) | 26 |
السَّمٰوٰتِ | سورة الروم(30) | 27 |
السَّمٰوٰتِ | سورة لقمان(31) | 10 |
السَّمٰوٰتِ | سورة لقمان(31) | 16 |
السَّمٰوٰتِ | سورة لقمان(31) | 20 |
السَّمٰوٰتِ | سورة لقمان(31) | 25 |
السَّمٰوٰتِ | سورة لقمان(31) | 26 |
السَّمٰوٰتِ | سورة السجدة(32) | 4 |
السَّمٰوٰتِ | سورة الأحزاب(33) | 72 |
السَّمٰوٰتِ | سورة سبأ(34) | 1 |
السَّمٰوٰتِ | سورة سبأ(34) | 3 |
السَّمٰوٰتِ | سورة سبأ(34) | 22 |
السَّمٰوٰتِ | سورة سبأ(34) | 24 |
السَّمٰوٰتِ | سورة فاطر(35) | 1 |
السَّمٰوٰتِ | سورة فاطر(35) | 38 |
السَّمٰوٰتِ | سورة فاطر(35) | 40 |
السَّمٰوٰتِ | سورة فاطر(35) | 41 |