(قَامَ یَقُوْمُ قِیَامًافَھُوَقَائِمٌ) ....کھڑا ہونا قَائِمٌ کی جمع (بھی) قیام آتی ہے اور اَقَامَ بِالْمَکَانِ اِقَامَۃَ کے معنی کسی جگہ قیام کرنے کے ہیں اور قیام کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے: (۱) کسی شخص کا تسخیری طور پر یا اپنے ارادے سے کھڑا ہونا۔ (۲) قِیَامٌ لِّشَّیْئِ:یعنی شے کی حفاظت اور نگہبانی کرنا۔ (۳) کسی کام کا پختہ ارادہ کرلینا۔تسخیری طور پر کھڑا ہونے کے معنی میں فرمایا۔ (مِنۡہَا قَآئِمٌ وَّ حَصِیۡدٌ ) (۱۱۔۱۰۰) ان میں سے بعض تو باقی ہیں اور بعض تہس نہیں ہوگئے ہیں۔ (مَا قَطَعۡتُمۡ مِّنۡ لِّیۡنَۃٍ اَوۡ تَرَکۡتُمُوۡہَا قَآئِمَۃً عَلٰۤی اُصُوۡلِہَا) (۵۹۔۵) کھجور کے جو درخت تم نے کاٹے یا ان کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا سو خدا کے حکم سے تھا۔اور قیام اختیاری کے معنی میں فرمایا: (اَمَّنۡ ہُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیۡلِ سَاجِدًا وَّ قَآئِمًا) (۳۹۔۹) یا وہ جو رات کے وقتوں میں زمین پر پیشانی رکھ کر اور کھڑے ہوکر عبادت کرتا ہے۔اور آیت کریمہ: (الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا) (۳۔۱۹۱) جو کھڑے اور بیٹھے …… ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں۔اور نیز آیت: (وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ الِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا) اور وہ لوگ اپنے پروردگار کے آگے سجدہ کرکے (عجز وادب سے) کھڑے رہ کر راتیں بسر کرتے ہیں۔میں قیام قائم کی جمع ہے اور کسی چیز کی حفاظت اور مراعات کے معنی میں فرمایا: (اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ) (۴۔۳۴) مرد عورتوں پر راعی اور محافظ ہیں۔ (کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ) (۵۔۸) انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو۔ (قَآئِمًا بِالْقِسْطِ) (۳۔۱۸) جو انصاف پر قائم ہیں۔ (اَفَمَنۡ ہُوَ قَآئِمٌ عَلٰی کُلِّ نَفۡسٍۭ بِمَا کَسَبَتۡ) (۱۳۔۳۳) تو کیا جو خدا ہر متنفس کے اعمال کا نگہبان ہے۔یہاں (بھی) قائم بمعنی حَافِظٌ ہے۔نیز فرمایا (للَیۡسُوۡا سَوَآءً ؕ مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَآئِمَۃٌ) (۳۔۱۱۳) یہ بھی سب ایک جیسے نہیں ہیں۔ان اہل کتاب میں کچھ لوگ حکم خدا پر قائم بھی ہیں۔اور آٰیت کریمہ: (اِلَّا مَادُمۡتَ عَلَیۡہِ قَآئِمًا) (۳۔۷۸) تو جب تک اس کے سر پر ہر وقت کھڑے نہ رہو۔میں قَآئِمًا کے معنی برابر مطالبہ کرنے والے کے ہیں اور قیام بمعنی عزم کے متعلق فرمایا: (یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمۡتُمۡ اِلَی الصَّلٰوۃِ) (۵۔۶) مومنو!جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو اور آیت کریمہ: (وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ ) (۲۔۳) اور آداب کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔میں یُقِیْمُوْنَ کے معنی نماز پر دوام اور (اس کے ارکان کی) حفاظت کرنے کے ہیں۔اور قِیَامِ وقِوَامِ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جس کے سہارے کوئی چیز قائم رہ سکے جس طرح کہ عِمَادٌ اور سَنَادٌ اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو سہارا لگادیا جائے۔قرآن پاک میں ہے: (وَ لَا تُؤۡتُوا السُّفَہَآءَ اَمۡوَالَکُمُ الَّتِیۡ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ قِیٰمًا) (۴۔۵) اور بے عقلوں کو ان کا مال جسے خدا نے تم لوگوں کے لئے سبب معیشت بنایا مت دو۔یعنی ان کو تمہاری بقا کا سبب بنایا،اسی طرح آیت: (جَعَلَ اللّٰہُ الۡکَعۡبَۃَ الۡبَیۡتَ الۡحَرَامَ قِیٰمًا) (۵۔۹۷) خدا نے عزت کے گھر (یعنی) کعبے کو موجب امن مقرر فرمایا:میں بیت اﷲ کے قِیَامًا لِّنَّاسِ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کی دنیا اور آخرت کی اصلاح اور درستگی بیت اﷲ کے ساتھ وابستہ ہے۔اصم کا قول ہے۔ (1) کہ یہاں قیام بمعنی قائم ہے یعنی اس کی حیثیت کبھی منسوخ نہیں ہوگی اور ایک قرأت میں قَیَامًا ہے جو بعمی قِیَامًا ہے اور بعض اسے قَیْمَۃٌ کی جمع بتاتے ہیں لیکن یہ توجیہہ بے معنی سی ہے۔اور محاورہ میں (قَامَ کَذَا وَثَبَتق وَرَکَزَ) کے ایک ہی معنی آتے ہیں۔چنانچہ آیت کریمہ:(وَ اتَّخِذُوۡا مِنۡ مَّقَامِ اِبۡرٰہٖمَ مُصَلًّی) (۲۔۱۲۵) اور حکم دیا کہ جس مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہوئے تھے اس کو نماز کی جگہ بنالو۔ (میں لفظ مقام بھی اسی محاورہ سے ماخوذ ہے۔) (قَامَ فُلَانٌ مَقَامَ فُلَانٍ) کے معنی کسی کے قائم مقام ہونے کے ہیں۔قرآن پاک میں ہے: (فَاٰخَرٰنِ یَقُوۡمٰنِ مَقَامَہُمَا مِنَ الَّذِیۡنَ اسۡتَحَقَّ عَلَیۡہِمُ الۡاَوۡلَیٰنِ) (۵۔۱۰۷) تو جن لوگوں کا انہوں نے حق مارنا چاہا تھا ان میں سے ان کی جگہ اور دو گواہ کھڑے ہوں۔اور آیت کریمہ: (دِیْنًا قَیِمًا) (۶۔۱۶۲) یعنی دین صحیح ہے۔میں قَیِّمًا بھی ثابت و مقوم کے معنی میں ہے یعنی ایسا دین جو لوگوں کے معاشی اور اخروی معاملات کی اصلاح کرنے والا ہے ایک قرأت میں قَیَمًا مخفف ہے جو قیام سے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ صفت کا صیغہ ہے جس طرح کہ قَوْمٌ عِدَی،مَکَانٌ سِوی اور رِذی وغیرہا اسمائے صفات ہیں اور اسی معنی میں فرمادیا۔ (ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ) (۹۔۳۶) یہی دن (کا) سیدھا (راستہ) ہے۔ (وَ لَمۡ یَجۡعَلۡ لَّہٗ عِوَجًا ) (۱۸۔۱) اور اس میں کسی طرح کی کجی اور پیچیدگی نہ رکھی بلکہ سیدھی (اور سلیس اتاری ہے) اور آیت کریمہ: (وَ ذٰلِکَ دِیۡنُ الۡقَیِّمَۃِ) (۹۸۔۵) یہی سچا دین ہے۔میں قَیِّمَۃ سے مراد امت عادلہ ہے جس کی طرف آیت کریمہ: (کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃِ) (۳۔۱۱۰) تم سب سے بہتر ہو۔اور آیت: (کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ ) (۴۔۱۳۵) انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو۔میں اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ: (یَتۡلُوۡا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً …… فِیۡہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ) (۹۸۔۲،۳) جو پاک اوراق پڑھتے ہیں جن میں مستحکم آیتیں لکھی ہوئی ہیں۔میں صُحُفَا مُّطَھَّرَۃَ سے قرآن پاک کی طرف اشارہ ہے اور فَیْھَا کُتْبٌ قَیِمَۃ کے معنی یہ ہیں کہ قرآن پاک تمام کتب سماویہ کے مطالب پر حاوی ہے کیونکہ قرآن پاک تمام کتب متقدمہ کا ثمرہ اور نچوڑ ہے اور آیت: (اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَۚ اَلۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ) (۲۔۲۵۵) خدا وہ معبود برحق ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں زندہ،ہمیشہ رہنے والا۔میں قَیُّوْم (اسمائے حسنیٰ سے ہے) یعنی ذات الہیٰ ہر چیز کی نگران اور محافظ ہے اور ہر چیز کو اس کی ضروریات زندگی بہم پہنچاتی ہے جیسا کہ فرمایا: (الَّذِیۡۤ اَعۡطٰی کُلَّ شَیۡءٍ خَلۡقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی) (۲۰۔۵۰) جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی پھر راہ دکھائی۔ (اَفَمَنۡ ہُوَ قَآئِمٌ عَلٰی کُلِّ نَفۡسٍۭ بِمَا کَسَبَتۡ) (۱۳۔۳۳) تو کیا جو (خدا) ہر متنفس کے اعمال کا نگران ہے۔قَیَّوْمٌ بروزن فَیْعُوْلٌ اور قَیَّامٌ بروزن فَیْعَالٌ سے جیسے دَیُّوْنٌ وَدَیَّانٌ۔ اَلْقِیَامَۃُ:سے مراد وہ ساعت (گھڑی) ہے جس کا ذکر کہ (وَ یَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَۃُ) (۴۰۔۴۶) اور جس روز قیامت برپا ہوگی۔ (یَّوۡمَ یَقُوۡمُ النَّاسُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ) (۸۳۔۶) جس دن تمام لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوںگے۔ (وَّ مَاۤ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمَۃً) (۱۸۔۳۶) اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔وغیرہا آیات میں پایا جاتا ہے اصل میں قیامۃ کے معنی انسان کے یکبارگی قِیَامَ یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ہاء (ۃ) کا اضافہ کیا گیا ہے۔ (2) ولذا عبرعن اتیانھا بلفظ بغتۃ راجع (۶۔۳) (۷۔۱۸۷) ۲۱۔۴۰) (۲۲۔۵۵) (۴۳۔۶۶) (۴۷۔۱۸) ۔ اَلْمُقَامُ:یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے چنانچہ فرمایا: (اِنۡ کَانَ کَبُرَ عَلَیۡکُمۡ مَّقَامِیۡ وَ تَذۡکِیۡرِیۡ) (۱۰۔۷۱) اگر تم کو میرا رہنا اور نصیحت کرنا ناگوار ہو۔ (ذٰلِکَ لِمَنۡ خَافَ مَقَامِیۡ وَ خَافَ وَعِیۡدِ) (۱۴۔۱۴) یہ اس شخص کیلئے ہے جو قیامت کے روز میرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے۔ (وَ لِمَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ) (۵۵۔۴۶) اور جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا۔ (وَ اتَّخِذُوۡا مِنۡ مَّقَامِ اِبۡرٰہٖمَ مُصَلًّی) (۲۔۱۲۵) اور حکم دیا کہ جس مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہوئے اس کو نماز کی جگہ بنالو۔ (فِیۡہِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبۡرٰہِیۡمَ) (۳۔۹۷) اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراہیم علیہ السلام کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے۔ (وَّ زُرُوۡعٍ وَّ مَقَامٍ کَرِیۡمٍ) (۴۴۔۲۶) اور کھیتیاں اور نفیس مکان۔ (اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ مَقَامٍ اَمِیۡنٍ) (۴۴۔۵۱) بے شک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے۔ (خَیۡرٌ مَّقَامًا وَّ اَحۡسَنُ نَدِیًّا) (۱۹۔۷۳) مکان کس کے اچھے اور مجلس کس کی بہتر ہیں۔ (وَ مَا مِنَّاۤ اِلَّا لَہٗ مَقَامٌ مَّعۡلُوۡمٌ) (۳۷۔۱۶۴) ہم میں سے ہر ایک کا ایک مقرر مقام ہے۔اور آیت کریمہ: (اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبۡلَ اَنۡ تَقُوۡمَ مِنۡ مَّقَامِکَ) (۲۷۔۳۹) قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں میں اس کو آپ کے پاس حاضر کرتا ہوں۔کی تفسیر میں اخفش نے کہا ہے کہ یہاں مقام بمعنی مَقْعَد یعنی نشستگاہ کے ہیں۔اگر اخفش کا مقصد اس سے یہ ہے کہ مقام اور مقعد بالذات ایک ہی چیز کے دو نام ہیں صرف نسبت الی الفاعل کے لحاظ سے دونوں میں فرق پایا جاتا (یعنی ایک ہی جگہ کو کسی شخص کے وہاں کھڑے ہونے کے لحاظ سے مقام اور بیٹھنے کے اعتبار سے مقعد کہا جاتا ہے جس طرح کہ صَعُوْدٌ اور حَدُوْرٌ کے الفاظ ہیں (کہ ایک ہی جگہ کو اوپر چڑھنے کے لحاظ سے صَعُوْدٌ اور اس سے نیچے اترنے کے لحاظ سے حَدُوْدٌ کہا جاتا ہے) تو یہ بجا ہے اور اگر ان کا مقصد یہ ہے کہ لغت میں مقام بمعنی مقعد آتا ہے تو یہ صحیح نہیں ہے اور بعض نے المقامۃ کے معنی جماعت بھی کئے ہیں چنانچہ شاعر نے کہا ہے۔ (3) (الطویل) (۳۶۶) (وَفِیْھِمْ مَقَامَات حِسَانٌ وُجُوْھُھُمْ) اور ان میں خوبرولوگوں کی جماعتیں ہیں …… مگر یہ بھی دراصل ظرف مکان ہے اگرچہ (مجازاً) اصحاب مقام مراد ہیں جس طرح کہ (4) (الکامل) (۳۶۷) (وَاسْتَبَّ بَعْدَکَ یَا کُلَیْبُ الْمَجْلِسُ) اے کلیب!تیرے بعد لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگے ہیں۔ اَلاِسْتِقَامَۃُ: (استفعال) کے معنی راستہ کے خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی …… صراط مستقیم کہا گیا ہے۔چنانچہ فرمایا: (اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ) (۱۔۵) ہم کو سیدھے راستے پر چلا۔ (وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیۡ مُسۡتَقِیۡمًا) (۶۔۱۵۳) اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے۔ (اِنَّ رَبِّیۡ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ) (۱۱۔۵۶) بے شک میرا پروردگار سیدھے راستے پر ہے۔اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں۔چنانچہ فرمایا: (اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا) (۴۱۔۳۰) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا ہے پھر وہ اس پر قائم رہے۔ (فَاسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ) (۱۱۔۱۱۲) سو (اے پیغمبر) جیسا کہ تم کو حکم ہوتا ہے اس پر قائم رہو۔ (فَاسۡتَقِیۡمُوۡۤا اِلَیۡہِ) (۴۱۔۶) تو سیدھے اس کی طرف متوجہ رہو۔ اِلْاِقَامَۃُ: (افعال) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اور اِقَامَۃُ الشَّیْئِ: (کسی چیز کی اقامت) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں۔چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَسۡتُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ حَتّٰی تُقِیۡمُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ ) (۵۔۶۸) کہو کہ اے اہل کتاب!جب تک تم توراۃ اور انجیل۔۔۔کو قائم نہ رکھوگے کچھ بھی راہ پر نہیں سکتے ۔یعنی جب تک کہ علم و عمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو۔اسی طرح فرمایا: (وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اَقَامُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ ) (۵۔۶۶) اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو … ۔قائم رکھتے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔یا نمازیوں کی تعریف کی گئی ہے۔وہاں اقامۃ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیئت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا مراد ہے اسی بناء پر کئی ایک مقام پر اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃ اور اَلْمُقِیْمِیْنَ الصَّلٰوۃَ کہا ہے۔ (5) ۔اور آیت کریمہ: (وَ اِذَا قَامُوۡۤا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوۡا کُسَالٰی) (۴۔۱۴۲) اور جب یہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر۔میں قَامُوْا،اِقَامَۃٌ سے نہیں بلکہ قیام سے مشتق ہے۔ (جس کے معنی عزم اور ارادہ کے ہیں) اور آیت: (رَبِّ اجۡعَلۡنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ) (۱۴۔۴۰) اے پروردگار!مجھ کو (ایسی توفیق عنایت) کر کہ نماز پڑھتا رہوں۔میں دعا ہے کہ الہیٰ!مجھے نماز کو پورے حقوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔اور آیت کریمہ: (فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ) (۹۔۵) پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے …… لگیں۔کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں اقامۃ سے نماز کا ادا کرنا مراد نہیں ہے بلکہ اس کے معنی اس کی فرضیت کا اقرار کرنے کے ہیں۔ اَلْمُقَامُ:یہ مصدر میمی،ظرف مکان، ظرف زمان اور اسم مفعول کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔لیکن قرآن پاک میں صرف مصدر میمی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔چنانچہ فرمایا: (اِنَّہَا سَآءَتۡ مُسۡتَقَرًّا وَّ مُقَامًا) (۲۵۔۶۶) اور دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے۔اور مقامۃ (بضم المیم) بمعنی اقامۃ ہے جیسے فرمایا۔ (الَّذِیۡۤ اَحَلَّنَا دَارَ الۡمُقَامَۃِ مِنۡ فَضۡلِہٖ) (۳۵۔۳۵) جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ کے رہنے کے گھر میں اتارا یہاں جنت کو دَارُالْمُقَامَۃَ کہا ہے جس طرح کہ اسے دَارُالْخُلْدِ اور جَنَّاتِ عَدْنِ کہا ہے۔اور آیت کریمہ: (لَا مُقَامَ لَکُمۡ فَارۡجِعُوۡا) (۳۳۔۱۳) یہاں تمہارے لئے (ٹھہرنے کا) مقام نہیں ہے تو لوٹ چلو۔میں مقام کا لفظ قیام سے ہے یعنی تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور ایک قرأت میں مَقَامُ (بضم المیم) اَقَام سے ہے اور کبھی اَقَامَۃ سے معنی دوام مراد لیا جاتا ہے۔جیسے فرمایا (عَذَابٌ مُّقِیْمٌ) (۵۔۳۷) ہمیشہ کا عذاب۔اور ایک قرأت میں آیت کریمہ: (اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ مَقَامٍ اَمِیۡنٍ) (۴۴۔۵۱) بے شک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوںگے۔مقام بضمہ میم ہے۔یعنی ایسی جگہ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔تَقْوِیْمُ الشَّیْئِ کے معنی کسی چیز کو سیدھا کرنے کے ہیں۔چنانچہ فرمایا: (لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ) (۴۔۹۵) کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا۔اس میں انسان کے عقل و فیم قدوقامت کی راستی اور دیگر صفات کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے اور وہ اس کے تمام عالم پر مستولی اور غالب ہونے کی دلیل بنتی ہیں۔ تَقْوِیْمُ السِّلْعَۃِ:سامان کی قیمت لگانا۔اَلْقَوْمُ:یہ اصل میں صرف مردوں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں۔چنانچہ فرمایا: (لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ ) (۴۹۔۱۱) کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے۔اور شاعر نے کہا ہے (6) (الوافر) (۳۶۸) (أَقَوْمٌ آلُ حِصْنٍ اَمْ نِسَائٗ) کہ آل حصن مرد ہیں یا عورتیں؟اور قرآن پاک میں عموماً مرد عورتیں سبھی مراد لئے گئے ہیں لیکن اصل میں یہ مردوں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس پر کہ آیت۔ (اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ) (۴۔۳۴) مرد عورتوں پر راعی اور حاکم ہیں۔میں (بھی) تنبیہ پائی جاتی ہے۔ (7)
Words | Surah_No | Verse_No |
قَاۗىِٕمًۢا | سورة آل عمران(3) | 18 |
قَاۗىِٕمٌ | سورة آل عمران(3) | 39 |
قَاۗىِٕمٌ | سورة هود(11) | 100 |
قَاۗىِٕمٌ | سورة الرعد(13) | 33 |
قَاۗىِٕمَةً | سورة الكهف(18) | 36 |
قَاۗىِٕمَةً | سورة حم السجدہ(41) | 50 |
قَاۗىِٕمَةً | سورة الحشر(59) | 5 |
قَاۗىِٕمَةٌ | سورة آل عمران(3) | 113 |
قَاۗىِٕمَةٌ | سورة هود(11) | 71 |
قَاۗىِٕمُوْنَ | سورة المعارج(70) | 33 |
قَـيِّمًا | سورة الكهف(18) | 2 |
قَوَامًا | سورة الفرقان(25) | 67 |
قَوّٰمُوْنَ | سورة النساء(4) | 34 |
قَوّٰمِيْنَ | سورة النساء(4) | 135 |
قَوّٰمِيْنَ | سورة المائدة(5) | 8 |
قَوْمًا | سورة آل عمران(3) | 86 |
قَوْمًا | سورة المائدة(5) | 22 |
قَوْمًا | سورة الأنعام(6) | 89 |
قَوْمًا | سورة الأعراف(7) | 64 |
قَوْمًا | سورة الأعراف(7) | 133 |
قَوْمًا | سورة التوبة(9) | 13 |
قَوْمًا | سورة التوبة(9) | 39 |
قَوْمًا | سورة التوبة(9) | 53 |
قَوْمًا | سورة يونس(10) | 75 |
قَوْمًا | سورة هود(11) | 29 |
قَوْمًا | سورة هود(11) | 57 |
قَوْمًا | سورة يوسف(12) | 9 |
قَوْمًا | سورة الكهف(18) | 86 |
قَوْمًا | سورة الكهف(18) | 93 |
قَوْمًا | سورة مريم(19) | 97 |
قَوْمًا | سورة الأنبياء(21) | 11 |
قَوْمًا | سورة المؤمنون(23) | 46 |
قَوْمًا | سورة المؤمنون(23) | 106 |
قَوْمًا | سورة النمل(27) | 12 |
قَوْمًا | سورة القصص(28) | 32 |
قَوْمًا | سورة القصص(28) | 46 |
قَوْمًا | سورة السجدة(32) | 3 |
قَوْمًا | سورة يس(36) | 6 |
قَوْمًا | سورة الصافات(37) | 30 |
قَوْمًا | سورة الزخرف(43) | 5 |
قَوْمًا | سورة الزخرف(43) | 54 |
قَوْمًا | سورة الدخان(44) | 28 |
قَوْمًا | سورة الجاثية(45) | 31 |
قَوْمًا | سورة الأحقاف(46) | 23 |
قَوْمًا | سورة محمد(47) | 38 |
قَوْمًا | سورة الذاريات(51) | 46 |
قَوْمًا | سورة المجادلة(58) | 14 |
قَوْمًا | سورة المجادلة(58) | 22 |
قَوْمًا | سورة الممتحنة(60) | 13 |
قَوْمًۢا | سورة التوبة(9) | 115 |